• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ممبئی حملوں کے بارےمیں سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیان سے پاکستان کے قومی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ آئندہ دو تین ماہ میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، ان حالات میں پاکستان کے ریاستی اور قومی موقف سے ہٹ کر غیرذمہ دارانہ بیان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نواز شریف کے قومی سلامتی کے خلاف حالیہ بیانیہ سے مسلم لیگ (ن) کو شدید سیاسی نقصان پہنچے گا۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی جاسوس کل بھوشن پر اپنے لب نہ کھولنے والے سابق وزیر اعظم کو اچانک ممبئی حملے کہاں سے یاد آگئے؟ کیا اُن کے ریاست مخالف بیانیہ کا مقصد عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنا ہے؟ انھوں نے پاکستانی ریاستی عناصر کو ممبئی حملوں کا ذمہ دار قرار دے کر دروغ گوئی سے کام لیا ہے حالانکہ صورتحال اسکے برعکس ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف انگریزی اخبار کو دئیے گئے اس متنازع انٹرویو کے متعلق یہ وضاحتیں پیش کر رہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کے بیان کو توڑ مروڑ کر شائع کیا گیا مگر تعجب خیز امر یہ ہے کہ نواز شریف کہتے ہیں کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار نہیں بننا چاہئے کیونکہ اگر نواز شریف کے بیان کا جائزہ لیا جائے تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ اگرچہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اوپر غداری کے الزامات پر قومی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس معاملے کو ہرگز طول نہ دیا جائے۔ اس سے قبل پاناما اسکینڈل پر بھی سابق وزیر اعظم نے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن جب کمیشن نے انکے خلاف فیصلہ دیا تو انہوں نے عدالتی فیصلے کو ماننے سے ہی انکار کردیا۔ اس بار بھی اگر انہوں نے قومی کمیشن بنوا کر اس کے فیصلے کو نہیں ماننا تو پھر اس طرح کا مطالبہ قوم کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ممبئی حملوں کے متعلق غیرذمہ دارانہ بیان دے کر نوازشریف نے بھارت کا کام آسان کر دیا ہے۔ ختم نبوت کے معاملے کے بعد غیرضروری طور پر ممبئی حملے کا بیان دے کر الیکشن مہم اور عام انتخابات کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک و قوم کے جذبات کی حقیقی معنوں میں صحیح ترجمانی کی گئی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، ایئرچیف مجاہد انور خان، نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی اور دفترخارجہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے12مئی کے بیان کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے گمراہ کن قرار دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ بیان انہوں نے اپنی غلط فہمی کی وجہ سے دیا۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ ممبئی حملوں کی تحقیقات میں تاخیر کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ بھارت ہے۔ پاکستان نے ممبئی حملوں میں تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی تھی لیکن ہندوستان نے شواہد پیش نہیں کئے اور نہ ہی اجمل قصاب تک پاکستان کو رسائی دی گئی۔قو می سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ ہی درحقیقت پا کستان کا بیانیہ ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو نواز شریف سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہئے تھی۔ وزیراعظم کی میڈیا ٹاک سے اس معاملے میں مزید ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک مخصوص صحافی جو کہ پہلے ہی نیوز لیکس کے ایشو پر بدنام تھا، اسے ایک پلاننگ کے تحت کیوں دوبارہ بلایا گیا اور اسے متنازع امور پر کیوں انٹرویو دیا گیا؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدالتوں سے نااہل نوازشریف نے اپنے خلاف ریفرنسز اور مقدمات کی وجہ سے پڑنے والے دبائو کے باعث عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ ایک غیردانشمندانہ طرزعمل ہے۔ نوازشریف کو عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار کرنا چاہئے۔ اگر ان کا دامن صاف ہے تو انھیں پھر کیا پریشانی لاحق ہے؟ ممبئی حملوں کے متعلق ان کا بیان حقائق اور ملکی مفاد کے منافی ہے۔ ایک ایسا ذمہ دار فرد جو تین بار ملک کا وزیراعظم رہا ہو اس کو زبان و بیان کے معاملے میں حد درجہ محتاط ہونا چاہئے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے مسلسل یہ بیانات آتے رہے ہیں کہ ان کے لئے اڈیالہ جیل تیار کی جارہی ہے۔ اب تو ریاست مخالف بیان دے کر انھوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ نواز شریف کو یہ علم ہونا چاہئے کہ سیکرٹ ایکٹ کے تحت وہ اہم قومی رازوں کے امین ہیں انھیں انتقام کی رو میں بہہ کر پاکستان کے لئے عالمی سطح پر مشکلات نہیں کھڑی کرنی چاہئے۔ بھارتی میڈیا نے نواز شریف کے متنازع انٹرویو کو اچھالا ہے۔ اس نے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی البتہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ کے بعد دنیا کو پاکستان کے حقیقی بیانیہ کے بارےمیں رسائی ہوئی ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کو انتشار اور افراتفری کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر صورتحال پر جلد قابو نہ پایا گیا تو آئندہ عام انتخابات التوا کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ملک اس وقت سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ اداروں کے درمیان ٹکرائو کی پالیسی خطرناک ثابت ہو گی۔ تمام اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے اور اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ نااہل نواز شریف کا بے وقت بیان مخصوص مقاصد کے لئے دیا گیا تھا مگر انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے بر وقت اس کا سخت نوٹس لیا ہے۔ نواز شریف کے ریاست مخالف بیان پر ملک بھر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے خلاف رٹ قابل سماعت قرار دی جا چکی ہے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں نواز شریف کے بیان کے خلاف متفقہ قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔ کئی شہروں میں ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ایم کیو ایم کے قائد کی طرح نواز شریف کے بیانات میڈیا پر بھی نشر کرنے پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ نواز شریف مسلسل عدلیہ اور فوج کو نشانہ بنا رہے ہیں اب تو انھوں نے حالیہ بیان دے کر پاکستان کو بدنام کیا ہے اور بھارتی موقف کو تقویت پہنچائی ہے۔ ہندوستان اپنے میڈیا کے ذریعے یہ زہر اگل رہا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم نے بھانڈہ پھوڑ دیا اور یہ بیان دیا ہے کہ ہمسایہ ملک ممبئی حملوں میں ملوث ہے۔ حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ انڈیا نے جموں و کشمیر میں انسانیت سوز مظالم چھپانے کے لئے اپنی خفیہ تنظیم ’’را‘‘ کے ذریعے ممبئی حملے کروائے تھے اب الٹا بھارت پاکستان کے بارے مذموم پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اراکین کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر تفصیلی بحث کر کے متفقہ قرارداد منظور کرنی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی قو می سلامتی کے خلاف بیان دینے کی جرات نہ کر سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین