• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف جو حال ہی میں پی ایم ایل (ن) کے صدر بنائے گئے ہیں نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دو بار سندھ کے دورے کئے اور ہر دورے میں انہوں نے سیاسی کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کیا‘ دونوں اجتماعات میں انہوں نے کچھ اہم مگر غالباً عجیب و غریب اعلانات بھی کیے‘ میں شہباز شریف کے ان دوروں پر ایک الگ کالم لکھنا چاہتا تھا مگر ان کے ایک اعلان کو چند دنوں کے اندر جس طرح واپڈا کے نمائندے نے رد کیا ہے اس کے بعد میں نے سوچا کہ پہلے اس ایشو پر کالم لکھوں‘ شہباز شریف نے سندھ کے اہم شہر ہالا کے نزدیک اور دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ٹائون بھانوٹ میں خطاب کیا۔ بھانوٹ حال ہی میں مقرر کیے گئے پی ایم ایل (ن) سندھ کے صدر سید شاہ محمد شاہ کا گائوں ہے‘شہباز شریف نے پنجاب اور سندھ کے درمیان سب سے زیادہ متنازع ایشو ’’کالا باغ‘‘ ڈیم کا ذکر کرکے سب کو حیران کردیا۔ انہوں نےانتہائی زور دار انداز میں کہا کہ ’’سندھ کے لئے ایک تو کیا دس کالا باغ ڈیم قربان کیے جاسکتے ہیں‘‘۔ شہباز شریف کا یہ بیان سندھ کے سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے‘ سندھ کے سیاسی حلقے اس بات پر تو مطمئن ہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک سیاستدان‘ سیاستدان بھی ایسا جسے اور جس کے خاندان کو سارے چھوٹے صوبوں اور خاص طور پر سندھ پر پنجاب کی بالادستی کا ترجمان تصور کیا جاتا ہے‘ نے ایسا بیان دیا۔ سندھ کے سیاسی حلقے اصولی طور پر اس بیان کو بڑے اور چھوٹے صوبوں کے درمیان کافی عرصے سے پیدا ہونے والی دوری اور کڑواہٹ کو کم کرنے کا پیش خیمہ تو تصور کررہے ہیں مگر ساتھ ہی اس بیان کے بارے میں اس قسم کے تبصرے بھی ہورہے ہیں کہ یہ بیان کس حد تک سنجیدہ ہے؟ البتہ سندھ کے بعض سیاسی حلقےیہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ اس قسم کا بیان دیکر سندھ کا مذاق اڑایا گیا ہے‘ اس کے برعکس سندھ کے کچھ سیاسی حلقے یہ توقع بھی کررہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ بیان کسی مثبت مقصد کے تحت دیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ اس بیان کے بعد شہباز شریف کالا باغ ڈیم کے بارے میں باقاعدہ کوئی پالیسی بیان جاری کرکے پنجاب اور سندھ کے درمیان ہم آہنگی کا کوئی ایسا پل تعمیر کریں جس کے ذریعے سندھ اور پنجاب ایک دوسرے کے قریب آکر نہ فقط اس قسم کی بدگمانیوں کا ہمیشہ خاتمہ کردیں بلکہ بعد میں سندھ اور پنجاب باقی چھوٹے صوبوں کےساتھ مل کر پاکستان کو ایک ایسے حقیقی وفاق میں تبدیل کردیں کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک حقیقی جمہوری‘ عوامی وفاق کے طور پر ابھرے مگر فی الحال یہ توقعات اس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب منگل 15 مئی کو اسلام آباد میں ہونے والے ارسا کے اجلاس میں واپڈا کے نمائندے نے ملک میں درپیش پانی کی کمی کو حل کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا مطالبہ کردیا۔ اس سلسلے میں رپورٹیں اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں مگر شہباز شریف کی طرف سے اب تک واپڈا کی کوئی سرزنش نہیں ہوئی بہرحال ابھی ایک دن ہوا ہے دیکھیں شہباز شریف اس مطالبہ کا نوٹس لیتے ہیں یا نہیں؟ سندھ کے سیاسی حلقے شہباز شریف کے اس بیان کے بعد واپڈا کے اس مطالبے کو اس وجہ سے بھی سنجیدہ لے رہے ہیں کہ جس انداز میں سندھ کے لئے پانی کی ترسیل میں انتہائی بڑے پیمانے پر کمی کی گئی ہے‘ کہیں یہ سندھ کو دریائے سندھ سے محروم کرنے اور دریائے سندھ پر مکمل طور پر پنجاب کا قبضہ یقینی بنانے والی کسی سازش کا ڈراپ سین تو نہیں ؟ گزشتہ کئی دنوں سے سندھ کے کینالوں میں پانی کی برائے نام ترسیل یا پانی نہ ہونے والی صورتحال ہے جس کی وجہ سے سندھ کے کونے کونے سے زراعت کے لئے پانی کی کمی حتیٰ کہ مختلف شہروں اور گائوں میں پینے کے پانی کی عدم فراہمی کی بڑے پیمانے پر شکایات آرہی ہیں۔ سندھ کے کینالوں اور جھیلوں میں پانی کا بحران اس حد تک شدید ہوگیا ہے کہ کینجھر جھیل جہاں سے پانی کراچی کو فراہم کیا جاتا ہے وہاں پانی اس حد تک نایاب ہوگیا ہے کہ اطلاعات کے مطابق جھیل میں مٹی اڑ رہی ہے‘ اس صورتحال کے مدنظر اور کراچی شہر کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سندھ کے وزیر اعلیٰ کی ہدایات کے تحت سکھر بیراج کی کینالوں سے پانی کی کٹوتی کرکے کراچی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سکھر بیراج کے نیچے جانے والے پانی کی مقدار 8500 کیوسک سے بڑھاکر 10 ہزار 50 کیوسک کردی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے دریا اور کینالوں میں پانی کی یہ صورتحال ہونے کے باوجود ایک دن پہلے ارسا کے اجلاس میں ارسا اور واپڈا کے نمائندوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کوٹری بیراج سے اتنی وافر مقدار میں پانی ضائع ہورہا ہے۔ سندھ کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کوٹری بیراج کے نزدیک پل پر سے سفر کرنے والے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ اس پل کے دوسری طرف پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں۔ پنجاب کی طرف سے سندھ کے کینالوں میں پانی کی ترسیل کے بارے میں ایوان زراعت سندھ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے عوام پینے کے پانی سے لیکر زرعی فصلوں کے لئے پانی کی دستیابی کے لئے پریشان ہیں۔ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ پرندے اور جنگلی جانور بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے مرنے لگے ہیں۔ سندھ کے آبادگاروں نے سندھ میں پانی کی شدید کمی کا ذمہ دار ارسا کو قرار دیا ہے‘ اس صورتحال کی وجہ سے سندھ میں کپاس‘ چاول اور دیگر فصلوں کی بوائی شدید متاثر ہورہی ہے۔ سندھ کے آبادگاروں نے الزام لگایا ہے کہ سندھ میں پانی کی 60 فیصد کمی کے باوجود سند ھ کے لئے فراہم کیے جانے والے پانی پر ڈاکہ ماراجا رہا ہے۔ انہوں نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق تربیلا میں اوپر والا بہائو 5 ہزار 600 کیوسکس ہے اور چشمہ جہلم لنک کا بہائو 52065 ہے‘ اس طرح سندھ کے حصے سے 4 ہزار کیوسک پانی چوری کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے کہنے کے مطابق تونسہ‘ پنجند کے ذریعے 2 ہزار کیوسک پانی چوری ہونے کے نتیجے میں گڈو اور کوٹری بیراجز میں 70 فیصد پانی کم ہے‘ پانی کی اس صورتحال کی وجہ سے گھوٹکی کے بیگار بند اور ڈیلٹا کی طرف بھی پانی نہیں چھوڑا جارہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین