• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجا کہ معاشروں کی سمت اور اقدار یکدم تبدیل نہیں ہوا کرتیں، ان تبدیلیوں کے پیچھے مختلف عوامل کی ایک طویل تاریخ ہوا کرتی ہے۔ ہمارے سماج سے بھی برداشت، صبر اور تحمل آن واحد میں عنقا نہیں ہوئے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ کی ہوس اوراس کی خاطر بہر صورت طاقتور اور بارسوخ ہونے کے طمع نے ان سماجی اوصاف کا گلا دبانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ عربی زبان کی ایک مثال ہے کہ مچھلی ہمیشہ سرکی طرف سے خراب ہوتی ہے مطلب یہ کہ سماج کی بالائی پرت یعنی حکمران طبقہ میں پیدا ہونے والی خرابیاں بتدریج عوام میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں اور پورا سماج ہی ان قباحتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز کے ماضی میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کہ اس میں کیا کچھ غلط ہوتا رہا۔ 70سالہ تاریخ کے تمام اہم واقعات عوام کے سامنے ہیں۔ خاص طور پر سیاست کے معاملات کہ یہ عوامی دلچسپی میں نمایاں ہے۔ تاہم یہ حقیقت ناقابل فراموش ہے کہ پاکستان کی سیاست اور سماج نے پچھلے دس پندرہ برس میں جو رخ اختیار کیا ہے اسے کسی بھی طرح کوئی جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ شائستگی، متانت اور تدبر کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی۔ حزب اقتداراور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اتنی ذہنی پستی اور اخلاقی تنزلی پر اتر آئیں کہ وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے سیاست سے ہٹ کر سیاستدانوں سے استدعا کی کہ خدارا سیاست میں بہن، بیٹیوں کو مت لائیں۔ ان کی اس بات کا اثر ہوا مگر وقتی۔ اس کے بعدحالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ گویا ملک میں دریدہ دہنی کا مقابلہ شروع ہوگیا اور ابھی تک جاری ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک دوسرے پر رکیک حملے نہ ہوتے ہوں، طعن و تشنیع تو گویا وطیرہ بن گئی ہے۔ ان حالات میں ملک کے دانشور طبقات نے سیاستدانوں کواس چلن سے روکنے کی بہتیری کوشش کی اور کہا کہ یہ سلسلہ نہ رکا تو خدانخواستہ اس میں تشدد در آئے گا اور جب ایسا ہو جائے تو پھر حالات کو قابو میں لانا مشکل ہو جاتا ہے۔ افسوس کہ جمہوریت کے 10سالہ تسلسل کے باوجود حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہیں، اور کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت پاکستان کے لئے موزوں نظام ہی نہیں ہے۔ جب گالیاں بکی جارہی ہوں، ملک کے نامور سیاستدانوں پر سیاہی اور جوتے اچھالے جارہے ہوں بلکہ بات گولی چلانے تک جا پہنچے تو کیا سیاستدانوں کے پاس جمہوریت کے حق میں کوئی دلائل باقی بچتے ہیں۔ جمہوریت کی اہمیت مسلمہ ہے، یہاں بات اس روش کی ہورہی ہے جسے پاکستان میں جمہوریت کہا جارہا ہے۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر اخلاقیات کا جنازہ نکالنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر وہ ایک دوسرے کو دھمکیاں دیں گے تو ان کے کارکن تو باہم دست و گریباں ہوں گے ہی، جیسا کہ کراچی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں ہوا۔ خدانخواستہ یہ سلسلہ چل نکلا تو سیاستدان ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔ سیاستدانوں کو سیاست کے لفظ کو شائستگی، تحمل، برداشت، رواداری کا استعارہ بنانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ بدگوئی تو خود اپنی ذات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے،سب سیاسی جماعتیں اپنے منشور سامنے لائیں نہ کہ دوسروں کے عیوب کہ اس صورت میں انتخابی فضا مسموم ہونے کا اندیشہ ہے۔ سیاستدانوں کواب تدبر سے کام لینا چاہئے۔ یہ وقت بہت حزم و احتیاط کا ہے۔ اس وقت نہ تو پارٹیوں کے اندر مخاصمت ہونی چاہئے نہ ملکی پارٹیوں کے مابین ورنہ حالات کوئی اور رخ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات کہ عوام حکمرانوں سے متاثر ہوتے ہیں، لوگوں کی نفسیات پر اس کا براہ راست اثر ہوتا ہے، حکمرانوں کا رویہ اور کردار جیسا بھی ہوگا عوام اسے اپنائیں گے۔ اس حوالے سے حکمرانوں کا فریضہ ہے کہ خود کو عوام کیلئے رول ماڈل بنائیں۔ موجودہ حالات میں حزم و احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں کہ دراصل یہ ملک کی سب سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا امتحان ہے۔

تازہ ترین