• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ہوش مندی ہے کیا؟

خبر یہ ہے کہ ڈان لیکس ون اور ڈان لیکس ٹو کے بعد اب ڈان لیکس تھری تیار ہے ۔میزائل کو لانچنگ پیڈ پر پہنچا دیا گیا ہے ۔کسی وقت بھی فائر کیا جاسکتا ہے ۔ڈان لیگ تھری کا تعلق کارگل کی جنگ سے ہے ۔اس کے بعد ڈان لیکس فور کی بھی جھاڑ پونچھ کی جارہی ہے۔یہ افغان طالبان کے ساتھ پاکستانی مراسم کے باردو سے بھرا ہواہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کیاآصف علی زرداری نے سابق وزیر اعظم کے پاگل پن کی طرف درست اشارہ کیا ہے یا یہ کوئی ہوشمندوں کی نئی سازش ہے ۔
قریبی لوگوں کا کہنا ہے ۔وہ شدید ڈپریشن میں چلے گئے ہیں ۔ڈپریشن شروع ہوا تھا جب 1993 میں ایک جرنیل نے اُن سے زبردستی استعفی لیا تھا ۔وہ اُس پر قابو پانے میں جلدی کامیاب ہو گئے تھے ۔دوسری بار جب جنر ل پرویز مشرف نے انہیں وزیر اعظم ہائوس سے نکال کر اڈیالہ جیل پہنچا دیا تو پھر مرض باہر آ گیا۔لوگ جانتے ہیں کہ اِ س مرض کی دوائی اکثر عمر بھر کھانا پڑتی ہے ۔ڈپریشن اتنا بڑھا کہ جیل آنسوئوں سے بھر گئی ۔انزائٹی اتنی زیادہ ہوئی کہ رات رات کمرے میں چلنے لگے۔ڈرائونے خوابوں نے نیند چھین لی ۔واہموں نےدماغ گرفت میں لے لیا ۔کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں ۔سر میں چونٹیاں رینگتی محسوس ہوئیں۔پھر ایک جہاز آیا اوروہاں لے گیا ہے جہاں سے لوٹنے کی کوئی تمنا نہیں کرتا ۔وہاں علاج ہوا ۔صحت یاب ہو ئےاورواپسی کی تیاریاں شروع کر دیں بے نظیر بھٹو کے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے ۔آصف علی زرداری کے ساتھ مل کرصحبتِ اقتدار کی اتنی کامیاب پلاننگ کی کہ اُن کی باری میں بھی پنجاب اِنہی کے پاس رہاپھر اپنی باری آ گئی ۔ڈپریشن کے سبب جذبہ ء انتقام باہر نکل آیامگر حالات نے موقع نہ دیا ۔جسے غدارقرار دیاتھااسے باہر جانے سے نہ روک سکے ۔روکتے بھی کیسے ۔ماڈل ٹائون والی کوٹھیاں جوکئی برس پہلے ٹیکس کی مد میں سرکار نے اپنے قبضے میں لے لی تھیں وہ شاہ عبداللہ کی سفارش پر جنرل پرویز مشرف نے ہی واپس کرنے کا جرم کیا تھا۔اِس نا رسائی نے مرض میں اور اضافہ کیا ۔ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی ۔کسی جنرل سے ملے تو اعصاب تن گئے ۔ماتھے پرشکنیں آ گئیں۔اقتدار سے تیسری بارہمیشہ کےلئےمحروم ہوئےتو پرانےمرض نےسٹرائیک کیااور حصار میں لے لیا ۔’’مجھے کیوں نکالا گیا ‘‘کا دکھ بہت خطرناک ثابت ہوا ۔اُدھربیگم صاحبہ کو کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو گیا اللہ تعالیٰ انہیں شفادے۔اِس نے بھی ڈپریشن میں اضافہ کیا ۔بھائی اور اُس کے بچوں کا رویہ بھی تکلیف کا باعث بنا ۔داماد کی گفتگو بھی اذیت کا باعث بننے لگی ۔ اسٹیبلشمنٹ سے ساتھیوں کے مراسم دکھ پہنچانے لگے ۔حساسیت بڑھ گئی ۔ ڈاکٹرز نے روزانہ بیس ایم جی اسٹیلاپرام کی ایک گولی تجویز کی جسے کھانا وہ اکثر بھول جاتے ہیں۔
ایک طرف ڈان لیکس ون ٹو اور تھری کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے دوسری طرف کہا جارہا ہے کہ نہیں یہ معاملہ نہیں ۔یہ قصہ ہوشمندی کا ہے ۔وہ جو کررہے ہیں سوچ سمجھ کررہے ہیں ۔ اُن کامسئلہ منی لانڈرنگ ہے اُسی کا حل نکالا جا رہا ہے ۔انہیں یقین ہے کہ اِس جرم میں انہیں سزا سنا دی جائے گی ۔اگلی عدالت سے ضمانت کی بھی قوی امید ہے مگروہ سرمایہ جومنی لانڈرنگ کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ پورپین قانون کے مطابق حکومتی تحویل میں چلا جائے گا ۔اِس مسئلہ کا حل یہی سوچا گیا ہے کہ امریکہ ، انڈیا اور برطانیہ وغیرہ کے ایجنڈے پر کام کیا جائے تاکہ سزا ہو تو کہا جا سکے کہ یہ سب تمہارے ایجنڈے پر چلنےکا صلہ ہے ۔یعنی سیاسی سزا ہے۔یہی ان کے پاس دنیا بھر میں اپنی جائیدادیں بچانےکا واحد طریقہ ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ ، انڈیا ، برطانیہ اور اسرائیل کا ایجنڈا کیا ہے ۔وہ کیا چاہتے ہیں ۔اِن ممالک کا مسئلہ صرف پاکستانی فوج ہے ۔عراق ، شام، لیبیااوریمن کی بربادی کے بعد اُن کی آنکھوں میں جو چیزکھٹک رہی ہے اسے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کہتے ہیں ۔ایٹمی پاکستان ۔پلان کے مطابق پاکستان دوہزار پندرہ میں خانہ جنگی میں مبتلا ہوجانا تھا مگر پاک فوج کی تیز نگاہی نےسازش ناکام بنادی۔افغانستان میں امریکہ کی لمبی موجودگی بھی اسے رائیگانی کے سوا کچھ نہ دے سکی ۔کھربوں ڈالر افغان پہاڑوں کی رکھوالی کےلئے خرچ نہیںکیے گئے جہاں سے کروڑوں کی معدنیات بھی نہیں نکلتیں ۔
ہاں منشیات کی فصل ضرور ہوتی ہے مگر وہ اتنی اہم نہیں کہ اتنا سرمایہ لگایا جائے۔ اصل مسئلہ پاکستان ہے ’’خفیہ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘کے راستے میں ایک اہم ترین رکاوٹ ۔دنیا کی جو نئی تقسیم سوچی گئی ہے وہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان محفوظ اور مضبوط ہے۔ سو اب امیدوں کا مرکز و محور کچھ پاکستانی ہیں نواز شریف کے آس پاس بیٹھے ہوئے پاکستانی ۔فوج کے خلاف عوامی جدوجہدکا سوچنےوالے پاکستانی اورنواز شریف ۔میرے جیسے تمام پاکستانیوں کا خیال ہے کہ پاک فوج کی تباہی پاکستان کی تباہی ہے ۔سوچئے جائیداد بچانے والے کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ۔آپ نے فیصلہ انتخابات میں سنانا ہے مگر ایک فیصلہ آپ سے پہلے اعلیٰ عدالتیں سنائیں گی ۔میرا ایمان ہے کہ اگر عدالتیں انصاف کرتی رہیں تو ہمیں عظیم قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
معاملہ پاگل پن کا ہے یا ہوش مندی کا ۔مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں ۔میرا مسئلہ تو مقدس وطن ہے ۔میری سبزسنہری سرزمین ہے ۔میرا مسئلہ ستائیس رمضان المبارک کو دنیا کے نقشے پر آنےوالا وہ خطہ ء عشق محمد ہے جہاں فون کرنےکےلئے پہلے ’’محمد ‘‘ کے عدد یعنی بانوے ڈائل کرنا پڑتا ہے ۔جس کے محافظ داتا گنج بخش ، میاں میر ، شاہ حسین ،سلطان باہو ، بلھے شاہ ، شہباز قلندر، عبدالطیف بھٹائی ،وارث شاہ ، رحمان بابا ،نوشہ گنج بخش اور پیر مہر علی شاہ ہیں ۔ وہ ملک جو بیسویں صدی کے مجدد اعظم علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر ہے ۔جس کے بانی قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔میں اُس پاکستان کےلئے بڑے شوق سےایسے لاکھوں ڈپریشن زدہ کرپٹ سیاست دانوں کی قربانی کرسکتا ہوں ۔ اللہ اکبر ۔اللہ اکبر۔ اللہ اکبر ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین