• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا
غالب کی طرح ہم بھی بہت شور سنتے تھے KPمیں نئے پاکستان کا لیکن جب ملاحظہ کیا تو حالت پرانے پاکستان سے بھی پتلی نکلی۔ملک سلمان کی کالمسٹ فیڈریشن کے 60رکنی وفد کے ساتھ مردان، دیر اور چترال سے ہوتے ہوئے وادی کیلاش پہنچے اتنا بوسیدہ انفراسٹرکچر دیکھ کر پنجاب ترقی یافتہ محسوس ہونے لگا ایسے ہی جیسے دن کی اہمیت سمجھنے کیلئے اس کا تقابل رات کے ساتھ کیا جائے۔ پروپیگنڈے کے زور سے آپ لوگوں کے ذہن تو شاید بدل سکتے ہیں مگر حقائق نہیں، ایک گروہ کے نزدیک شاید اس کا نام تبدیلی ہے جو آ نہیںرہی الحمدللہ KPمیں آچکی ہے۔مخصوص گروہ سے ہٹ کر عام آدمی یہاں انفراسٹرکچر سے زیادہ ہیلتھ اور ایجوکیشن کا رونا روتا پایا جاتا ہے یہ ختم ہوتا ہے تو غربت اور بیروزگاری کی درد بھری کہانیاں شروع کر دیتا ہے۔
وطن عزیز کے شمال مغربی خطے میں واقع چھوٹا سا شہر چترال ہمیں ایک انوکھا ضلع لگا جس کا پھیلائو بھی بلوچستان جیسا ہے اور آبادی بھی اس ریشو کی مطابقت میں ہے اس کا اندازہ اس انکشاف سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ضلع میں اگر ممبر قومی اسمبلی کی ایک ہی سیٹ ہے تو صوبائی سیٹ بھی ایک ہی رہ گئی ہے ۔ایسی صورت میں ان بیچاروں کو جو وسائل ملیں گے ان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ڈپٹی کمشنر چترال جو کہ ایک سندھی نوجوان ہیں انہوں نے چترال اور چترالی عوام کے متعلق دلچسپ باتیں بتائیں اور ساتھ ہی وسائل کی کمیابی کا بھی تذکرہ کیا۔مئی کے مہینے میں بھی یہاں گرمی کی حدت نہیں تھی بلکہ بارش نے چترال کی راتوں کو ٹھنڈا بنا رکھا تھا اس پر ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ سردیوں میں تو یہاں کا موسم مائنس 30تک چلا جاتا ہے یہاں درختوں کو کاٹنے پر اگرچہ پابندی ہے مگر جس طرح غالب نے کہا تھا کہ جس غریب کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو وہ ناچار روزہ نہ کھائے تو کیا کرے۔شدید سردی میں غریب لوگ درختوں کو کاٹ کر ہی کچھ حرارت حاصل کرتے ہیں لیکن ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے درخت کٹنے نہ پائیں جن کی لکڑی فرنیچر وغیرہ بنانے میں استعمال ہو سکتی ہے ۔
چترال ٹائون ہمیں دروش سے بھی مختصر لگا تو جواب ملا کہ اچھی خاصی آبادی حصول روزگار کی خاطر ملک کے دیگر مختلف حصوں کا ہی رخ نہیں کرتی بلکہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بھی کمانے جا پہنچتی ہے ۔یہاں کے لوگ خلیق، ملنسار اور معتدل مزاج ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خیالات و نظریات میں بھی چترالی عوام اتنے ٹھنڈے ہیں کہ پاکستانی لگتے ہی نہیں ایسے جیسے سنٹرل ایشیاء کی کوئی قوم آکر یہاں آباد ہو گئی ہے گلیوں بازاروں میں ہمیں کئی اسماعیلی آغا خانی نوجوانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا لیکن سب سے دلچسپ ہمیں چترال کا خطہ کیلاش لگا جسے عوامی سطح پر ’’کافرستان‘‘ کہا جاتا ہے ۔پاکستان کے اندر آباد ’’کافرستان‘‘ سبحان اللہ ....اتنی برداشت اور رواداری پر ہمارا لبرلزم قربان۔
البتہ یہاں کا کیلاش میلہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے جس میں رنگ برنگے مخصوص کپڑوں میں ملبوش کافر یا کیلاشی نوجوان لڑکے لڑکیاں مخصوص ڈانس کر رہے ہوتے ہیں تمام چھوٹے بڑے مل کر یوں خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں جیسے یہ ان کی عید ہو مذہبی سے زیادہ یہ ان کا موسمی تہوار لگ رہا تھا۔ چینی اور جاپانی ہی نہیں مغربی ممالک سے آئے ہوئے سیاح بھی یہاں موجود پائے گئے ڈپٹی کمشنر چترال کے ساتھ لاہور کراچی اور اسلام آباد سے آئے میڈیا پر سنز نے بھی کلاشی عوام کی ان رسومات کو ملاحظہ کیا جن کی تعداد کے متعلق بتایا گیا کہ اب تیزی سے کم ہو رہی ہے ۔کسی صحافی نے جب یہ کہا کہ جس طرح پرندوں کی کمیابی ہوتی نسلوں کو بچانے کیلئے مثبت کاوشیں کی جاتی ہیں کیا یہ بہتر نہ ہو کہ حکومتی سطح پر ان کیلاشیوں کی مالی معاونت کا کچھ اہتمام کر دیا جائے کیونکہ یہاں روزگار کے مواقع اتنے قلیل ہیں کہ غربت پوری طرح جلوہ افروز ہے۔ہمارا آئین ہمیں اپنے شہریوں کے درمیان کسی بھی نوع کے تعصب و امتیاز کی اجازت نہیں دیتا ۔البتہ قابل توجہ امر یہ ہے کہ ریاست کو مائی باپ بن کر تمام شہریوں کے ساتھ اپنے بچوں کی طرح یکساں حسن سلوک روا رکنا چاہئے کہیں کوئی بچہ کمزور ہے تو اس کی نگہداشت کا خصوصی اہتما م کیا جانا چاہئے ایک مائی باپ کے کچھ بچے لاڈلے اور کچھ سوتیلے قرار نہیں پانے چاہئیں۔ہمسایہ ملک ہندوستان میں بھی آئینی طور پر یہ اہتمام موجود ہے کہ جو خطے یا طبقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں انہیں ساتھ لیکر چلنے کیلئے خصوصی کاوشیں کی جاتی ہیں دبے ہوئے پسماندہ طبقات کیلئے ایسی اپروچ یہاں بھی ابھرنی چاہئے ۔
واپسی پر اسلام آباد میں ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ کے موجودہ چیئرمین سابق وزیر چودھری عبدالغفور نے وطن عزیز میں سیاحتی ترقی کے حوالے سے ہمیں خصوصی بریفنگ دی اور اپنی ان کاوشوں سے آگہی بخشی جو وہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کوادھر متوجہ یا راغب کرنے کیلئے کر رہے ہیں ۔ان کا اصرار تھا کہ وہ ریلیجس ٹور ازم کو ترجیحی اہمیت دے رہے ہیں اس پر درویش نے سوال اٹھایا کہ کیلاش پہنچنے کیلئے رستہ اتنا خراب اور خطرناک ہے کہ بار بار خدا یاد آتا ہے ۔
حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر کیلاش کے خوبصورت خطے کو اپنی ٹورازم کی فہرست میں یوں شامل کر رکھا ہے کہ غیر ملکی سیاح بھی ادھر کا رخ کریں مگر وہاں پہنچنے کیلئے اتنی بری روڈ ہے تو وہ غیر ملکی ٹورسٹ ہمارے متعلق اور ہمارے انفراسٹرکچر کے حوالے سے کیا امیج یا پیغام لیکر جاتے ہونگے ۔اس جگ ہنسائی سے کسی طرح بھی وطن عزیز کی نیک نامی نہیں ہو سکتی ہے آپ بحیثیت چیئرمین تمام متعلقہ ذمہ داران کو اس حوالے سے توجہ دلوائیں دوسرے ہمارے بہت سے ریلیجس ٹورسٹ اجمیر شریف اور خواجہ نظام الدین اولیاء کی درگاہوں پر اسی طرح جانا چاہتے ہیں جس طرح انڈیا سے سکھ خواتین و حضرات ننکانہ صاحب اور کرتار پور آتے ہیں آپ ایران کیلئے جو ٹرین چلانا چاہتے ہیں وہ انڈین مسلمانوں اور ان کی درگاہوں تک بھی پہنچائیں بلکہ بہتر ہو کہ براستہ ایران یہ ٹرین استنبول اور قونیہ تک جائے۔اس پر چودھری غفور نے اپنے ان عزائم اور منصوبوں سے آگاہ کیا جو ان حوالوں سے ان کے پیش نظر ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا ٹورازم انڈسٹری سے اتنا زیادہ زرمبادلہ کما رہی ہے جبکہ ہم ناروے او رسوئزرلینڈ جیسے خوبصورت خطے رکھنے کے باوجود کس قدر پیچھے ہیں۔ ہم اپنے ادارے کو مضبوط کرتے ہوئے اس سطح پر لا رہے ہیں کہ پوری دنیا سے ٹورسٹ ادھر کا رخ کرتے ہوئے دلکشی محسوس کریں لیکن اس کیلئے ملک میں امن وامان کے ساتھ سیاسی استحکام شرط اولین ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین