• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس مکتب فکر، اُن جماعتوں اور اُن افراد کا کیا نام ہے جنہوں نے احمد فراز کی فکر کو ملک دشمنی اور فیض کی دھرتی سے وابستگی کو الحاد سے وابستہ کرنے کی مہم جوئی میں جنونیوں کی طرح شب و روز ایک کر دیا؟ وہ کون لوگ تھے جن کے سبب یہاں سے قرۃ العین حیدر اور ساحر لدھیانوی جیسے استثنیٰ بھارت چلے گئے۔ حضرت جوش ملیح آبادی کے شب و روز ذہنی جہنم بنا دیئے گئے، سر سیّد جیسے عظیم ترین محسن مسلماناں اپنی روایتی مذہبی رجعت پسندی کے تختہ دار پر آج تک چڑھائے جا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی وادی تک لے جائے بغیر ’’اسلام اور مسلمانوں‘‘ کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس مکتب فکر کا کیا نام ہے؟ ہم پاکستان کی تقریباً گزری 70برس کی تاریخ کے جھمیلوں میں غرق تو ہو سکتے ہیں اس کے حوالے سے ’’سچ‘‘ نہیں بول سکتے، بولنے پر بچ نہیں سکتے، یہ مکتب فکر دایاں بازو ہے۔ جس نے پنجاب سمیت پورے ملک میں 14اگست 1947ء سے ہی قدرتی قوانین کے تحت روٹین کی زندگی گزارنے، ملک کو ملک اور قوم کو قوم کے معنوں میں لے کر آگے چلنے کا راستہ بند کر دیا تھا۔ اس گروہ اور اس کے افراد کو کوئی ’’آسمانی فریضہ‘‘ تفویض ہوا تھا جس کا صرف انہیں ’’ادراک‘‘ ہو سکا، اس کے بعد آج 71برس ہونے کو ہیں ملک دو حصوں میں بٹ گیا، اُس ’’فریضے‘‘ کی تکمیل کے بغیر یہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے، دنیا بھر میں روشن خیالی، ترقی پسندی، اشتراک انسانیت جیسے نعروں والے ممالک، تہذیبوں اور مسلمانوں کے اندر موجود ترقی پسند طبقات کو شکست فاش دے کر پوری دنیا میں کوئی ’’پرچم‘‘ لہرانا ان کا عزم ہے، ان کے مطابق وہ ’’پرچم‘‘ اس کائنات کی تخلیق اور پاکستان کے قیام کی بنیادی اینٹ ہے، وہ ’’پرچم‘‘ کونسا ہے؟ کس کا ہے؟ یہ دائیں بازو اور ان مذہبی عناصر سے پوچھیں یا اُن سے جو قیام پاکستان کے ’’الہامی واقعات‘‘ کی ایک مکمل تاریخ کے حافظ و نگہبان ہیں۔ آغا شورش کاشمیری کے انتقال پُرملال کے بعد حضرت احسان دانش نے ایک نظم کہی تھی، آپ پہلے اُس کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے۔ آپ محسوس کریں گے ان اشعار کا جاننا ہمیں اپنا مطلوب اظہاریہ ارزاں کرے گا۔ حضرت احسان دانش نے ارشاد کیا
لاریب وہ میدان صحافت کا دھنی تھا
باطل کے لئے آہنی دیوار تھا شورش
پڑھتا تھا رذیلوں کی جبینوں نوشتے
اس خواب کے موسم میں بھی بیدار تھا شورش
رکتی ہی نہ تھی اس کی زباں کلمہ حق سے
ہر چند مصائب میں گرفتار تھا شورش
وہ لوگ کہ جو دشمن ارباب وفا تھے
ان کے لئے اک زحمت و آزار تھا شورش
آگاہ تھا وہ دین فروشوں سے بخوبی
حق بات یہ ہے حق کا طلبگار تھا شورش
دیکھا نہ ادیبوں نے کہیں اس کو سرنگوں
اک شاعر مست مئے اشعار تھا شورش
روکی نہ زباں اس کی کہیں جبر و ستم نے
خونریز حوادث کا خریدار تھا شورش
دور سے نظر آتا تھا اک جنوں مند
نزدیک سے دیکھو تو خبردار تھا شورش
اونچا تھا مقام اس کا سلاطین سے زیادہ
جاروب کش احمدؐ مختار تھا شورش
اب حق گو شورش کہاں سے ڈھونڈیں، جو دال ساگ ہے اُسی پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ اور یہ دال ساگ اپنی بات صرف وقوعہ تک محدود رکھنے کا خواہاں ہے۔ پاکستان کی گزری تاریخ کے حوالے سے حق گوئی کا درد سر مول نہیں لینا چاہئے چنانچہ وقوعہ کیا ہے؟ وہ ہے نواز شریف، وطن اور دھرتی؟ ایک شورِ بے کنار کے ذریعہ نواز شریف کی اس وطن اور دھرتی سے وفا و ایمان کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا، بعض کم نگاہ فیصلہ دے کر سزائیں بھی تجویز کر رہے ہیں۔ ان متشدد نقادوں کو نواز شریف کا ایک بہت ہی ہولناک چیلنج یاد نہیں رہا، یہ کہ ’’قومی کمیشن‘‘ بنا لو جو غدار ثابت ہو اُسے سرعام پھانسی پر لٹکا دو۔
کہانی کے مرکزی اور تاریخی فنامنے کو ترقی پسند نہیں، ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی مخالف ظاہری اور باطنی قوتیں دھیان میں نہیں لا رہیں یا واقعتاً اُن کے لاشعور سے وہ انتہائی آتش فشانی فنامنا (عنصر) اُن کی شعوری سطح پر ابھی تک ابھر نہیں سکا، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار پنجابی قومیت کے آج کے ایک مقبول ترین قومی اور بین الاقوامی لیڈر نے اُن تمام قوتوںکو ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا چیلنج دیدیا ہے۔
مرکزی اور تاریخی ’’فنامنے‘‘ (عنصر) سے ہی جڑا دوسرا عنصر نواز شریف کے حامی دائیں بازو کے قلمکاروں، دانشوروں اور ان کے نظریاتی حلیف مذہبی افراد اور جماعتیں ہیں۔ ملک میں آج بھی اُن کی اکثریت ہی قطعی فیصلے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ محمد خان جونیجو، ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید جیسی بے آسرا سیاسی عظمتوں سے مقابلہ نہیں جنہیں اس دائیں بازو کے لکھنے والوں کی اکثریت نے اپنے تہمت آمیز غیظ و غضب اور جارحیت آمیز ناشائستہ تحریروں کے انباروں تلے دبا دیا۔ یہ نواز شریف ہے، پنجاب کا مقبول ترین قومی اور بین الاقوامی لیڈر! نواز شریف کے پس منظر میں تاریخ نے غالباً فتح و شکست کے لئے پنجاب کے سیاسی میدان کے گرد ہی اپنا دائرہ بنا لیا ہے اور نواز مخالف قوتوں کا خود اپنے ہی لیڈر سے جوڑ پڑنا ہے۔ ہو سکتا ہے اس بار پنجابی قومیت ان طاقتور ریاستی اور غیر ریاستی قوتوں کی صف سے علیحدہ ہو جانے والے ’’نواز سیاسی لشکر‘‘ سے مزاحمت میں دانتوں پسینہ آ جائے اور وہ پسینہ نواز کی جیت اور مخالفین کی شکست مکمل کئے بغیر بہنے سے باز آنے پر آمادہ ہی نہ ہو۔
کالم کے اختتام پر پنجابی قومیت کی اس باہمی سیاسی رزم آرائی کے سلسلے میں اب تک شائع شدہ تجزیوں میں سے سب سے حیرت انگیز اور منطقی ترین قیاس آرائی کی چند سطریں پیش خدمت ہیں۔ صاحب نظر اس کے آئینے میں خود بھی مستقبل پر بات کر سکیں گے۔ یہ ایک مقامی معاصر سے مستعار لی گئی ہیں۔
’’نواز شریف اب واقعی نظریاتی ہو گئے ہیں جیسے وہ خود کہہ رہے ہیں، اگر مستقبل میں یہ وجہ درست ثابت ہوئی تو ہمارے سیاسی نظام میں ’’پولر شفٹ‘‘ جیسی تبدیلیاں آ سکتی ہیں یعنی سائنسی مفروضے کے مطابق اگر سائوتھ پول اور نارتھ پول ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں جگہ تبدیل کر لیں تو مقناطیسی کشش کے باعث زمین پر زلزلے، طوفان،سیلاب اور سورج کی گرمی کے ناقابل بیان واقعات رونما ہوں گے جسے موجودہ انسان شاید برداشت کرنے کے قابل نہ ہو، نواز شریف نے شست لے کر جس گولہ باری کا ارادہ کیا ہے اُس حوالے سے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا داغا ہوا سب بارود واپس اُن پر ہی آ کر گرے گا لیکن وہ یہ پیمائش کر چکے ہیں کہ اس بارود سے اٹھنے والی آگ، دھواں اور گرد و غبار بہت بڑے علاقے تک پھیل جائے گا۔ ‘‘ افسوس ! ’’جنگ‘‘ کی ادارتی پالیسی کے تحت لکھاری کا نام شائع کرنے سے اعراض کرنا پڑتا ہے۔
بیان کردہ فارمولے کی روشنی میں پاکستان کے قلب پنجاب کی سرزمین پر پہلی بار پنجابی قومیت کی اس باہمی سیاسی لڑائی کا اجتماعی کینوس قومی تاریخ ہے جس کے دھارے میں کوئی چوہدری نثار، کوئی عمران خان اور اپنی صفوں سے نکل کر اپنی آبادیوں میں واپس جانے والے معدوم ہو جایا کرتے ہیں۔
کالم کی دم:پاکستان پیپلز پارٹی نے ممبئی حملوں پر نواز شریف کا بیانیہ مسترد نہیں کیا البتہ اُن کی مجلس عاملہ نے اُن سے ’’وضاحت‘‘ مانگی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین