• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تراویح میں تلاوت کردہ قرآن کریم کی پارہ بہ پارہ تفہیم

فہم القرآن:مفتی عبدالمجید ندیم
لن تنا لوا البر… پارہ ۴
چوتھے پارے کا آغاز انتہائی اہم نکتے سے ہوتا ہے کہ ’’تم نیکی کو اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی سب سے زیادہ پیاری چیز اللہ کی راہ میں قربا ن نہ کر دو‘‘۔اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام نے اپنی محبوب جا ئیدادیں اللہ کی راہ میں قربا ن فر ما کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کا ٹھوس ثبوت دیا ۔اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو طلحہ نے اپنا بیرحاء کا قیمتی باغ اور حضرت عمر فاروق نے اپنی خیبر کی زمین اللہ کی راہ میں وقف کر دی۔بنی اسرا ئیل کو حلا ل وحرام کے حوالے سے یہ بتا یا گیا کہ اُن کے لیے ساری چیزیں حلال ہی تھیں لیکن حضرت یعقوب ؑ نے چند چیزیں استعما ل نہ کرنے کا فیصلہ فر ما لیا تھا لیکن یہ سب کچھ تورات کے نزول سے پہلے ہوا تھا ۔ملتِ ابرا ہیمی کی پیروی کاحکم دینے کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی عظمت اور مقام کو واضح فرما یا گیا ہے کہ روئے زمین پر اللہ تعا لیٰ کی عبادت و بندگی کے لیے جو گھر تعمیر کیا گیا وہ بکہ(مکہ) میں ہے جو برکت و سعادت کا ذریعہ بھی ہے اور ہدایت کا مرکز بھی ۔بقول اقبال ؒ
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسبا ں ہیں اس کے وہ پاسبا ں ہمارا
بیت اللہ شریف میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بہت سی نشا نیاں ہیں ۔یہاں پر مقامِ ِ ابرا ہیم،چاہِ زمزم اور نورِ الٰہی کی تجلیات اور وہ سب کچھ ہے جو دکھی دلوں کو سکون اور بے قرار روحوں کو راحت و آرام سے ما لا مال کرتا ہے لہٰذا جو بھی اس گھر تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو اسے چا ہیے کہ وہ اس گھر کی زیارت کے لیے ضرور آئے۔رہے وہ لوگ جو استطا عت کے با وجود اللہ کے گھر کی زیا رت کے لیے نہیں آتے اللہ تعالیٰ کو اُن کی کو ئی پرواہ نہیں ہے۔اہلِ کتاب کو اس با ت پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اُن کی آیاتِ الٰہی سے انکار کی روش اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے اس لیے کہ ان کا یہ رویہ لا علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ واضح عناد کی وجہ سے ہے ۔آیت نمبر ۱۰۲ سے اہلِ ایما ن کو تقوٰی کی نصیحت اور پوری زندگی اسلا م اور ایمان پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔انہیں یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ ’’شہادت علی الناس‘‘ کے عظیم منصب پر فائز کیے گئے ہیں ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی رسی یعنی قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں ۔انہیں یہ کا م با ہم متحد ہو کر کرنا ہے اور اس سلسلے میں تفرقہ و تنازعات تبا ہ کن ہیں ۔دوسرے لفظوں میں انہیں یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ لوگوں کو حق کی طرف بلا نے، نیکی کا حکم دینے اور برا ئی سے روکنے کا فریضہ با ہم اتحاد سے ہی ممکن ہے ۔اوس و خزرج کو مخاطب کر کے ساری دنیا کے مسلمانوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ باہمی افتراق تبا ہی وبربا دی کاپیش خیمہ ہو تا ہے لہٰذا اگر تم اللہ تعالیٰ کی نصرت و تا ئید کے مستحق بننا چا ہتے ہو تو تمہیں با ہم متحد رہنا ہو گا ۔قیا مت کے دن انہی لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی ہو گی ۔وہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ بندگانِ خدا کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم رہے ہوں گے ۔رہے وہ لو گ جنہوں نے ایما ن کے بعد کفر کا رویہ اختیار کیا اور اللہ کے اس عظیم انعام کی قدر نہ کی وہ رحمتِ الٰہی سے محروم کر دیے جا ئیں اور ان کی نا کا می ان کے چہروں کی روسیا ہی سے ظاہر ہو گی۔اہلِ کتاب کی محرومی اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے امر با لمعروف ا ور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دیا تھا ۔وہ آیاتِ الٰہی کا انکار کرتے رہے اور انبیاء کو قتل کرتے رہے۔اب وہ اہلِ ایما ن کے درپے آزار ہیں لیکن ان کی ساری چا لبا زیا ں مسلمانوں کا با ل بھی بیکا نہیں کر سکتیں اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہیں۔انکار کرنے والے اپنے ما ل و دولت کے گھمنڈ میں مبتلا ہیں لیکن یہ مال و دولت ا نہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے اس لیے اے اہلِ ایما ن کو چا ہیے کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنا رازداں مت بنائیں۔ان کی عداوت و دشمنی ان کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے لیکن جوغیظ و غضب ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی زیادہ خوف نا ک ہے ۔
اللہ تعالیٰ اہلِ ایما ن کو اس با ت سے آگاہ فرمارہے ہیں کہ انہوں نے ہر مرحلے پر اہلِ ایما ن کی غیبی مدد فرما ئی ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم اشارہ غزوہ بدر کی جا نب ہے جب مسلما نوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی اور وہ ساز و ساما ن سے بھی محروم تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ہزار کے لشکرِ جرار پر فتح عطا فرما ئی ۔لیکن یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطا عت اور نبی اکرم ؐ کی اتبا ع میں ہوا اس کے برعکس مسلما نوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے غزوہ احد میں ذرا سی سستی دکھائی تو فتح کا پانسہ شکست کی طرف پلٹ گیا ۔ آیت نمبر ۱۲۱ سے آیت نمبر ۱۸۰ تک ۵۹آیات میں غزوہ احد پر پر تبصرہ ہے ۔ سب سے پہلے تو مسلما نوں کو یہ بتلا یا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں نورانی فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کا فیصلہ فر ما لیا تھا تاکہ وہ تمہیں کامیاب اور کفار کو نا کا م کردے اور جنگ کے آغاز میں ہی تمہاری فتح کے آثار روشن ہو گے تھے لیکن تم نے اطا عت سے منہ پھیراا ور دنیوی لا لچ میں مبتلا ہو ئے توتم نصرتِ الٰہی سے محروم ہو گئے لہٰذا تمہارے لیے ضرروی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو،سود کو چھوڑ دو اور اللہ اورا س کے رسول ؐ کی اطا عت کرو تا کہ تم دوبارہ رحمتِ الٰہی کے مستحق بن جا ؤ۔تمہاری تگ و دو کا مرکز و محور اس جنت کا حصول ہو نا چا ہیے جس کی چوڑائی آسمان و زمیں سے زیا دہ ہے ۔اس جنت کو حاصل کرنے کے لیے تمہیں خوشحالی وبدحالی میں انفاق،غصے پر قابو، عفوو درگذر،ذکرِ الٰہی اور استغفارجیسے پاکیزہ افعال اختیار کرنا ہوں گے تب ہی تم جنت کے مستحق اور رحمتِ الٰہی کو پاسکتے ہو۔ اس سے پہلے کی نا فرما ن اقوامِ کا ہو لنا ک انجا م دیکھنا چاہتے ہوزمین میں چل پھر کر دیکھ سکتے ہو کہ ان کا ما ل و دولت اور اختیارات ان کو عذابِ الٰہی سے نہ بچا سکے۔اے اہلِ ایما ن دل شکستہ اور غمگین نہ ہو اگر تم ایما ن کی دولت سے مالا ما ل رہے تو آخری کامیابی تمہاری ہی ہو گی ۔یہ جو وقتی آزما ئش ہے اس کا مقصد کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنا تھا ۔یہ بات بھی جا ن لو کہ اسلا می تحریک میں شخصیات آتی جا تی رہتی ہیں ۔سارے رسولوںکا آنا اور پھر چلے جانا اس کی بین مثالیں ہیں ۔اب اگر حضرت محمد ﷺ شہید کر دیے جائیں یا طبعی موت سے ہم کنار ہو جا ئیں تو کیا تم اسلا م کو چھوڑ دو گے ؟ ظاہر ہے کہ ایسا ہر گز ایسا نہیں ہو گا ۔ آیت نمبر ۱۴۴ نازل تو غزوہ احد کے بعد ہو ئی تھی لیکن حضرت ابوبکر نے اسے حضور ﷺ کی وفات کے موقع پر اس کما ل حکمت کے ساتھ تلاوت فرمایا کہ حضرت عمر جیسا عظیم الشان شخص بھی پکار اٹھا’’ یوں لگتا ہے جیسے یہ آیت آج ہی نا زل ہو ئی ہے‘‘۔تاریخ میں بارہا انبیا ء کے پیروکار ان کی سربراہی میں طاغوتی طاقتوں سے نبرد آزما رہے ۔ان کی کامیابی کا راز مصائب پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی طاقت پر توکل تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے عمل اور دعا کے نتیجے میں ثابت قدم رہے اور میدانِ جہاد سے کامیاب و کامران پلٹے۔اے اہلِ ایمان ہم اہلِ کفر کے دلوں میں تمہارا رعب اُن کے شرک کی وجہ سے ڈال رہے ہیں ان کا ٹھکا نہ جہنم کی آگ ہے۔اُس منظر کو مت بھولو جب اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو میدانِ احد میں پورا فرما رہا تھا اور کفار شکست کھا کر بھا گ رہے تھے لیکن تم مال و دولت کی محبت میں مبتلا ہو چکے تھے ۔یہی وہ مر حلہ تھا کہ تمہاری فتح شکست میں بدلنے لگی یہاں تک کہ تم نے رسولِ اکرمﷺ کی آواز پر بھی کا ن نہ دھرا تو تمہیں ایسے چرکے لگے جس کی شدت کو تم نے خود محسوس کیا لیکن جا ن لو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری اس لغزش کو معاف فرما دیا ہے۔یہاں یہ با ت بھی جا ن لو کہ ما ل و دولت کی یہ وقتی محبت اور فتح سے فطری پیار شیطا ن کا ایک بہلاوا تھا جس نے تمہارے قدم میں ایک رعشہ پیدا کر دیا لہٰذا شیطا ن کی چا لوں سے آگاہ رہو۔کچھ لوگ یہ بھی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ موت کی آغوش میں جا نے والے اگر احد کے میدان میں نہ آتے تو ان کی زندگی بچ جا تی سوائے ایک زعمِ با طل کے کچھ بھی نہیں ہے ۔پہلی با ت تو یہ ہے کہ موت کا وقت اٹل ہے جس میں ایک لمحے کی تقدیم یا تاخیر نہیں ہو سکتی۔ ۔دوسری با ت یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا اور شہادت کے رتبے پر فا ئز ہو نے والا اللہ کی رحمت سے مالا ما ل ہو کر حیاتِ ابدی کو پا لیتا ہے ۔اس کے لیے اللہ کی جنت میںاستقبا ل ہوتا ہے اور اسے وہ رزق دیا جا تا ہے جس کا کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا ۔نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کی نرمی اور رحمت کا تذکرہ فرما کر اس با ت کی تلقین کی گئی ہے کہ راہنما یانِ ملت کو ہر وقت نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجو ہونا چا ہیے۔اہلِ ایما ن کو اس احسانِ عظیم کے با رے میں یاد دہا نی کروائی گئی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کی بعثت اس کا ئنا ت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے وگرنہ انسانیت گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہوتی۔آیت نمبر ۱۷۲میں غزوہ حمراء الاسد کا تذکرہ ہے جو غزوہ احد کے ساتھ ہی اُس وقت پیش آیا جب آپ ؐ کو اطلا ع ملی کہ کفارِ مکہ جاتے جا تے دوبارہ حملہ کر سکتے ہیں چنا نچہ آپؐ نے زخموں سے چُور تھکے ما ندے صحابہ کو ساتھ لے کر دشمنوں کا پیچھا کیا ۔یہ وقت انتہا ئی مشکل اور کٹھن تھا لیکن صحابہ کرام نے آپ کی پکار پر لبیک کہا ۔اللہ تعالیٰ نے ان تما م صحابہ کو اجرِ عظیم کی بشارت سنا ئی ہے ۔کفارِ مکہ کی مستقل ریشہ دوانیوں پر تبصرہ کرتے ہو ئے فرما یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا اور آخرت میںرسو اکر دے گا ،انہیں وقتی ڈھیل اس لیے دی جا رہی ہے کہ یہ با ت ثابت ہو جا ئے کہ آخرت میں ان کا کو ئی حصہ نہیں ہے اور وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔اس آزما ئش کا ایک مقصدیہ بھی ہے کہ پاک و نا پاک کو الگ کر دیاجا ئے لہذا اے اہلِ ایما ن! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایما ن کو مزید مستحکم کرو اور تقوٰی اور خشیتِ الٰہی کے رنگ میں رنگ جا ؤ تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں اجرِ عظیم ہے رہے وہ لو گ جو آج بخل کر کے اپنا ما ل سینت سینت کر رکھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے لیے بہت ہی اچھا ہے عنقریب انہیں معلو م ہو جا ئے گا کہ ان کی یہ سوچ سراسر غلط تھی جب یہ مال ان کی گردنوں کا طوق بنا دیا جا ئے گا ۔اس لیے جان لو کہ زمین و آسما ن کی ہر چیز اللہ ہی کی ملکیت ہے ۔وہ ما لکِ حقیقی ہے اور تم عارضی طور پر اس ما ل کے ما لک بنا ئے گے ہو ۔ایک ایسا وقت ضرور آئے گا جب ساری ملکیتیں پلٹ کراللہ ہی کی جا نب آ جا ئیں گی۔ آیت نمبر ۱۸۱ سے رخ یہود کے لغو اور بیہودہ تبصروں اور الزامات کی طرف ہے ۔یہود کا کہنا تھا کہ حضرت محمد ﷺ چندے کی اپیل اس لیے کرتے ہیں کہ ان کا رب نعو ذ با للہ غریب ہو گیا ہے اور ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ ہم نبی ﷺ پر اس وقت ایما ن لا ئیں گے جب قربا نی کے گوشت کو کسی پہاڑ پر رکھ دیا جا ئے اور آسما نی آگ آ کر اسے اچک لے ۔فرما یا تمہارے یہ دونوں تبصرے اور اعتراضات لغو ہیں اس لیے کہ اللہ سے بڑھ کر کو ئی غنی نہیں ہے جو اپنے دونوں ہا تھ کھول کھول کر ساری کا ئنا ت کو ما لا ما ل فرما رہا ہے اور اس کے خزانوں میں کو ئی کمی واقع نہیں ہو تی۔جہاں تک قربا نی کے معاملے کا تعلق ہے یہ تو ایک معمولی مطالبہ ہے جسے پورا بھی کر دیا جا ئے تو تم ما ننے کے لیے تیا ر نہ ہو گے اس لیے کہ تمہاری ساری تاریخ معجزوں کو دیکھنے کے با وجود انکا ر ہی سے بھری پڑی ہے لہٰذا جا ن لو کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، تمہارے اعما ل کا پورا پورا حساب لیا جا ئے گا ۔وہاں کامیابی کا معیا ر یہ ہو گا کہ جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت کا پروانہ عطا کیا گیا وہی کامیاب و کا مران ہے اس کے علا وہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی دھوکے کا ساز و ساما ن ہے۔
’’کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیا ں لا الہ الا اللہ‘‘
اے یہود تم اس وعدے کو کیوں بھول گئے ہو جو تم اپنے رب سے کر چکے ہو کہ تم اللہ کی کتاب کو دنیا کے سامنے واضح الفاظ میں پیش کرو گے اور اس کی کسی با ت کو نہیں چھپاؤ گے ۔لیکن تم ہو کہ اس وعدے کو پسِ پشت ڈال کر دنیا کے عوض آیاتِ الٰہی کا سودا کر رہے ہو تو جا ن لو کہ یہ بہت بری تجارت ہے جو تم کر رہے ہو ۔سورہ آلِ عمران کا آخری رکوع اہلِ خرد کی عبادت و ریاضت،تسبیح و تھلیل، تفکر و تدبر اور دعا و مناجا ت کو بیان کرتے ہو ئے اس وعدے کو یاد دلا رہا ہے کہ جن اہلِ ایما ن نے ہجرت اور جہاد کی زندگی کو اختیا ر کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں مغفرت اور جنت سے ما لا ما ل فرما کر سرخرو فرما ئیں گے اور یہی معاملہ ان اہلِ کتاب کے ساتھ ہو گا جنہوں نے نبی اکرم ﷺ پر ایما ن لا کر آپ کی تصدیق کی ہے ۔سورت کے اختتام پر اہل ایما ن کو حق پر ڈٹے رہنے ،دوسروں کو صبر کی تلقین کرنے ،اللہ کی رحمت سے وابستہ رہنے اور تقوٰی اختیا ر کرنے کا درس دیا گیا ہے ۔
سورہ نساء
سورہ نسا مدنی ہے ۔اس کی ایک سو پچھتر آیتیں اور بیس رکوع ہیں۔اس سورت میں خاندانی ، معاشرتی اور قومی مسائل کے ساتھ ساتھ یہود و نصارٰی کے ساتھ تعلقات پر بحث کی گئی ہے ۔معاشی مسائل کے علاوہ ہجرت اور جہاد کا تذکرہ بھی ہے۔ منا فقین کی چالوں سے پردہ بھی اٹھا یا گیا ہے ۔جماعتی زندگی کے اصول اور گھریلو زندگی کو بہتر بنا نے کی ہدایات دی گئی ہیں۔تعزیری قوانین کا اجراء اور طہارت و نجاست کے اصول بیا ن کیے گئے ہیں۔ سورت کے آغاز میں خطا ب ساری انسا نیت سے ہے اور انہیں یا د دلا یا جا رہا ہے کہ تم سب کی اصل ایک ہی ہے لہٰذا جا ن لو کو تم سارے انسا نیت کی اسی برادری سے تعلق رکھتے ہو جس کے جد امجد حضرت آدم ؑ تھے لہٰذا تم معاشرے میں عدل و انصاف کے نما ئندے بن جا ؤ اور معاشرے کے کمزورطبقات بالخصوص یتیموں کے ساتھ حسنِ سلو ک کے ساتھ پیش آئو ۔عرب کے معاشرے میں تعدد ازواج کا کوئی قانون موجود نہیں تھا ۔اسلا م نے اسے اتنی خوبصورتی کے ساتھ جاری کیا کہ عورت کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو گیا ۔یتیموں کے حوالے سے یہ ہدایات جا ری کی گئیںکہ ان کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ ان کی جا ئیداد کی حفاظت کرو اور جب وہ شعور کی عمر کو پہنچ جا ئیں تو ان کی اما نتیں ان کے سپرد کر دو ۔یاد رکھو کہ یتیم کا ما ل ناحق طریقے سے کھانا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرنے کے مترادف ہے ۔آیت نمبر ۱۱ سے میراث کے قوانین بیان فرما ئے گئے ہیں ۔یہ قوانین اتنے واضح ہیں کہ انہی کی بنیاد پر نظام ِ میراث کا قیا م عمل میں آیا ہے ۔زنا اور لواطت کے ابتدائی قوانین بیان فرما کر اس طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ اسلا م معاشرے سے جرائم کا خاتمہ چاہتا ہے ۔زبردستی کے نکا ح پر پابندی لگا ئی گئی ہے اور اس با ت سے منع کیا گیا ہے کہ عورتوں کے مہر میں خیانت کی جا ئے ۔پارے کے آخر میں ان محرمات کا تذکرہ ہے جن سے نکاح حرام اور ناجائز ہے۔
تازہ ترین