• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے پنجاب میں نعرے میاں صاحب کے گونج رہے ہیں۔
پنجاب کی نئی نسل میاں صاحب کے ساتھ ساتھ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سننے کے لیے بھی بے تاب رہتی ہے۔ مجھے بھی ملتان میں تین روز میں یہ تاثر سننے کو ملا اور دوست احباب جو پنجاب کے مختلف شہروں میں کسی کام سے جارہے ہیں۔وہ بھی یہی احساس لے کر آرہے ہیں۔ مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ میاں صاحب جن قوتوں کو للکار رہے ہیں کیا وہ میاں صاحب کی الیکشن میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ واپسی کی متحمل ہوسکتی ہیں۔
میاں صاحب نے ریاست کے خلاف جس بیانیے کو اپنی مقبولیت کا وسیلہ بنایا ہے اس کو خود ان کی اپنی پارٹی کے سنجیدہ حلقے بھی خطرناک تصور کررہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میاں صاحب کو کہیں اس بیانیے کو لگام دینی پڑ جائے۔اب رمضان کا آغاز ہوگیا ہے۔ بڑے جلسے تو ان دنوں نہیں ہوسکیں گے اس لیے بیانیے کا زور کسی حد تک ٹوٹ جائے گا۔ صرف احتساب عدالت کے باہر پیشیاں میڈیا سے گفتگو میں بیانیے کو کچھ تقویت دے سکیں گی اور 31مئی کے بعد تو سرکاری گاڑیاں سرکاری سیکورٹی اور دائیں بائیں وزرا بھی نہیں ہوں گے۔
میاں صاحب کے ایک قریبی کہہ رہے ہیںکہ بڑے میاں صاحب زندہ ہوتے تو وہ کبھی بھی نواز شریف کو یہ خطرناک خود کش راستہ اختیار نہ کرنے دیتے۔
ان دنوں جو مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں ان کی آرزو تو ہر پاکستانی کو مدت سے رہی تھی۔ دورِ حاضر کے فرعون محتسبوں کے حضور پیش ہورہے ہیں۔ کوئی تصور کرسکتاتھا کہ ایک بھاری مینڈیٹ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والا وزیر اعظم عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے پر سیاست سے باہر ہوجائے گا۔ ہر دوسرے تیسرے روز اسے احتساب عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔ وزیرا عظم کے لاڈلے وزیر اعلیٰ کے منظور نظر۔ پولیس کی حراست میں عدالتوں میں لائے جارہے ہوں گے۔ چیف سیکرٹری جن کی ہیبت سے صوبے لرزتے تھے وہ ضمانتیں کروارہے ہوں گے۔ لیکن یہ سب ہونے کے باوجود قوم خوف زدہ ہے۔ ایک بے یقینی ہے۔ کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے نہ کوئی سیاسی جماعت جو عام پاکستانیوں کو اطمینان دلاسکے۔ عوام اعتماد کرسکیں کہ وہ ان ہاتھوں میں محفوظ ہیں۔ لا محالہ نظریں غیر سیاسی قوتوں کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔
پاکستان کو اپنے اور غیر سب ہی مشکل ملک قرار دیتے آئے ہیں۔ 70سال میں طاقت ور حکمراں جاتے وقت جس طرح ریزہ ریزہ نظر آتے ہیں وہ اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔ ایک درد مند پاکستانی اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر کئی رپورٹوں کتابوں کے مصنّف ڈاکٹر عشرت حسین کی تصنیف Governing the Ungovernable ’ ناقابل حکمرانی کی حکمرانی‘۔ ایسے میں سرنگ کے آخر میں روشنی کی نوید لے کر آتی ہے۔ ملک کے سبھی حلقوں میں ڈاکٹر عشرت کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ ملک کی خرابیوں کی اصلاح کے لیے کمیشن کی سربراہی بھی انہوں نے کی۔ حکمرانوں کو بھی انہوں نے قریب سے دیکھا ہے۔ بیمار محکموں کی نبض پر بھی ان کی انگلیاں رہی ہیں ۔ باتیں دل کی گہرائی سے کی گئی ہیں۔ اس لیے دل میں اتر بھی جاتی ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر بالکل مختلف، غیر جذباتی، معروضی اور حقیقت پسندانہ ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق مملکت پاکستان کے پہلے چالیس سال (1947 سے 1987) عروج کے سال ہیں۔ اور آخری 25برس (1993سے 2018) زوال کے ۔ ان کے مطالعے کی بنیاد مملکت اور مارکیٹ کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہے۔بہت سے پاکستانیوں کو یہ بنیاد عجیب سی لگے گی لیکن آج کی دنیا میں اصل رشتہ یہی ہے۔ ہمارے سب سے قریبی دوست چین کا عروج بھی مملکت اور مارکیٹ کے درمیان بہتر تعلقات کے باعث ہی ہے۔ ڈاکٹر موصوف بڑی دردمندی سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مارکیٹ پر چھوٹی سی اشرافیہ نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ گنتی کے انہی لوگوں نے مملکت پر بھی فتح پالی ہے۔ایسے ہاتھوں میں جب مملکت ۔ اس کے وسائل اور اقتصادی طاقت آجائے تو خدا کی پناہ جو انجام ہوسکتا ہے وہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ معیشت میں مقابلے کی سکت نہیں رہی۔ آمدنی کی تقسیم غیر مساوی اور غیر منصفانہ ہوچکی ہے۔ قواعد و ضوابط کی جمہوریت تو ہے لیکن معروضی اور معقول جمہوریت نہیں ہے۔ ان کی تشخیص یہ بھی ہے کہ مارکیٹ اور مملکت دونوں پر پنجاب کا غلبہ ہے۔ ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کہ دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب نے اپنے ہاں غربت کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔لیکن سول سروس کے معیار میں کمی آئی ہے۔ سیاست بیورو کریسی پر بہت زیادہ اثر انداز ہورہی ہے۔جس سے آزادانہ فیصلہ سازی کے امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے خیال میں 1991کے بعد جو حکمراں بھی آرہے ہیں وہ اختیارات پر گرفت مضبوط کرنے اور حکومت بچانے میں لگے رہے ہیں۔ مسائل کے حل پر توجہ مرکوز نہیں کرسکے ہیں۔
ڈاکٹر عشرت دوسرے ماہرین معیشت کی طرح اپنی سوچ صرف اقتصادی ترقی تک محدود نہیں رکھتے۔ ان کا فلسفہ سماجی ۔ اقتصادی اور دیر پا مسلسل ترقی پر محیط ہے۔
اب تک عوام اور دانشوروں کی طرف سے یہ گلہ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی زبوں حالی کی تصویر تو سب پیش کردیتے ہیں۔ مسائل کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کردیتے ہیں۔ لیکن مسائل کے حل کا راستہ نہیں سجھاتے۔ اس کتاب کا مقصد بھی صاحب دل عشرت حسین یہ قرار دے رہے ہیں کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو تجاویز دی گئی ہیں ان پر عوام اور درسگاہوں میں بحث ہو اور ملک کے اداروں میں جو انحطاط غالب ہے اس پر قابو پاکر اداروں کو ترقی کی طرف لے جایا جائے ان کی ٹھوس تجویز یہ ہے کہ 2017کی مردم شُماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں۔ مقامی حکومتوں کو وسائل اور اختیارات دیے جائیں ۔ یہ مراحل اتنے آسان نہیں ہوں گے۔ طاقت ور حکمراں طبقے مزاحمت کریں گے لیکن اس کا آغاز تو کیا جائے اب پارلیمنٹ میں زیادہ نمائندگی دیہی کی بجائے شہری ہوگی۔ اس لیے منتخب نمائندے بھی اصلاحات پر مجبور ہوں گے۔ یہی بہترین ممکن راستہ ہے۔ زمینی حقائق پر نظریاتی اور مذہبی اثرات غالب ہیں۔ اس لئے پاکستان ایک نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ( قومی سلامتی مملکت) کے طور پر ابھر رہا ہے۔ جہاں خوف اور عدم تحفظ کے احساس سے مملکت کی صورت گری ہورہی ہے۔
بہت ہی واضح۔ اور وقیع حکمت۔ مسائل کی درست شناخت ۔ منزل کا تعین اور راستے کا نقشہ بھی۔
ہر طرف جو خوف اور انتشار نظر آرہا ہے اس میں سے باہر نکلنے کا راستہ یہی ہے۔ پاکستان میں بہت سے اچھے دماغ بے توجہی سے ضائع ہوجاتے ہیں ۔ دوسرے ممالک ان کے مشوروں سے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں چند حکمران خاندان خود کو عقل کُل سمجھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں ’کہ ایہہ ساڈے نال ہے یا نہیں‘ان کی صلاحیتوں کو نہیں دیکھا جاتا۔ ایک حکمراں جماعت کے سربراہ یہ کہہ کر با صلاحیت افراد کو رد کردیتے ہیں۔ ’نہیں یہ اپنی عقل استعمال کرتا ہے۔ یہ ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا‘۔ یہ چھوٹی سی اشرافیہ مملکت پر بھی قابض ہے اور مارکیٹ پر بھی۔ جو پاکستان کا درد رکھتے ہیں۔ مسائل کے اسباب سے بھی واقف ہیں اور ان کے حل کے راستے بھی۔ ان کا راستہ روکا جاتا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کے استعمال سے ملک کے حالات بہتر کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین