• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے اور نج ٹرین کا افتتاح کر دیا۔ اور آزمائشی طور پر اس ٹرین کو اسلام چوک جی ٹی روڈ سے لکشمی چوک تک چلایا گیا ہم بھی مدعو تھے ہمارا خیال تھا کہ بڑے ڈسپلن انداز میں لوگ آئیں گے اور انہیں بڑی عزت کے ساتھ ٹرین میں پہنچایا جائے گا مگر یہاں تو ایسانہیںتھا ۔ پھر بجلی نہیںتھی ٹرین کے اندر اے سی کام نہیں کر رہا تھا باہر سے ایک اے سی رکھ کر اس کی ہوا ٹرین کے اندر پہنچائی جا رہی تھی اگر ٹرین کے دروازے نہ کھولے جاتے تو یقیناً بے شمار افراد بے ہوش ہو جاتے بدنظمی انتہا کی تھی۔ وزیر اعلیٰ خود دو مرتبہ ٹرین کے اندر آ کر پھر باہر چلے گئے اور انہوں نے بدنظمی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا۔ شہباز شریف نے واقعی نا ممکن کام کو ممکن کر دکھایا ہمیںان کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن اختلاف اس پر ہے کہ بعض منصوبے بغیر سوچے سمجھے اور اسٹڈی کئے بغیر شروع کئے جاتے ہیں اورنج ٹرین لاہور کے شہریوں کےلئے ایک خوبصورت تحفہ اور اضافہ ضرور ہے مگر اس منصوبے پر جس قدر بھی رقم خرچ ہوئی اس سے آدھی رقم پر لاہور میں موجود ریلوے کے نظام کو جدید خطوط پر چلایا جا سکتا تھا۔ہم نے پورے لاہور میں بچھائی گئی انگریزوں کے دور کی ریلوے لائنوں کا جائزہ لیا۔ تو حیران رہ گئے کہ لاہور کی کون سی بستی ہے جس کے اندر یا باہر سے قریب ریلوے لائن نہیں گزرتی۔ لاہور کے گنجان آباد علاقوں میں دھرم پورہ، کیولری گرائونڈ، وسن پورہ، بادامی باغ، والٹن اور کوٹ لکھپت ، شاہدرہ ، ہربنس پورہ میاںمیر اسٹیشن، رائے ونڈ، لاہور کینٹ، جلو موڑ یہاں پر نہ صرف ریلوے لائن بچھی ہوئی ہے بلکہ ان تمام جگہوں پر اسٹیشن بھی ہیں جہاں پر اورنج لائن کے منصوبے پر لگنے والے 250ارب سے نصب رقم سے تمام ریلوے لائنیں اور ان جگہوںکے اسٹیشن کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔بہرحال یہ شہباز شریف کی اپنی سوچ اور منصوبہ تھا اور وہ جس کام کے بارے میں ٹھان لیں انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ اور نج ٹرین میںسیٹیں بالکل آرام دہ نہیں البتہ کھڑے ہو کر سفر کیا جا سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ حکومت کے اس مہنگے ترین منصوبے پر جو رقم خرچ ہوئی ہے کیا وہ مسافروں کے سفر کرنے سے کرایہ کی صورت میں وصول ہو سکے گی؟ کیا اس ٹرین کو بھی سبسڈی پر چلانا پڑے گا! قرضوں کے ذریعے کبھی خوشحالی اور سکون نہیں آتا۔اور نج ٹرین کا دوسرا ٹیسٹ رن تھا ہم جس طرف سے بھی گزرے راستے میں لوگوں نے بھرپور انداز میں ہاتھ ہلا کر خیر مقدم کیا۔ خاص طور پر مکانوں پر چھتوں پر کھڑے بچوں اور خواتین نے خوشی کا اظہار کیا لیکن جو بات دکھ اور افسوس کی تھی کہ کوئی بھی سائیڈ سین ایسا نہیں تھا جس کو دیکھ کر انسان خوش ہوتا، غربت کی واضح تصویرہر جگہ نظر آئی۔ دنیا کے دیگر ممالک میں آپ اس قسم کی ٹرین میں سفر کریں تو آپ کو انتہائی خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں مگر یہاں کچھ ایسا نہیں تھا ہم نے بے ہنگم بستیاں بسا کر سارے شہر کا حسن اجاڑ دیا ہے ۔ حالانکہ باغبانپورہ کا علاقہ تاریخی اعتبار سے بڑا RICHعلاقہ تھا۔ اور اب بھی ہے مگر یہاں پر جو تاریخی عمارتیںنظر آئیں۔ انہیں دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔
محمد شہباز شریف نے اس وقت اورنج ٹرین کا افتتاح کیا ہے جس وقت مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن اور گراف کافی کمزور ہو چکا ہے۔اور شاید یہ اورنج ٹرین لاہور میں ان کے ووٹ بنک کو کچھ تقویت دے سکے ، ہمارا یہ خیال ہے کہ اس وقت اور نج ٹرین لاہوریوں کی توجہ دوسرے معاملات سے کچھ عرصہ کے لئے ہٹانے کے لئے ایک اچھی کاوش ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی انجینئرز ، بلڈرز اور ماہرین تعمیرات یہ اور نج ٹرین خود نہیں بنا سکتے تھے۔70برس میں ہم ایسے انجینئر پیدا نہیں کر سکے جو یہ ٹرین خود بناتے۔ چین ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا۔ اس قوم نے 69 برسوں میں دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا ہے اور ہم جو 1947ء میں چین سے زیادہ بہتر پوزیشن اور ترقی یافتہ تھے آج ہم دنیا بھر میں مختلف درجہ بندی میں سب سے آخری نمبروں پر چلے گئے ہیں۔ قرض میں قوم کے ہر فرد کا بال بال ڈوبا ہوا ہے۔ ہمارے انجینئر اور ڈاکٹرز باہر کے ممالک میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیتے ہیں اور یہاں پر ہم ان کو آگے نہیں آنے دیتے۔
اورنج ٹرین کے دوسرے رن ٹیسٹ کے موقع پر شہباز شریف کے چہرے کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی اور وہ بالکل نوجوانوں کی طرح پرجوش طریقے سے چل رہے تھے۔ منصوبہ تو اچھا ہے بشرطیکہ یہ بعد میں بھی مین ٹین رہے کیونکہ کسی چیز کی MAINTENANCE ہی اصل بات ہوتی ہے۔ کیا آنے والے برسوں میں یہ ٹرین اسی طرح رواں دواں رہے گی، اس کی بوگیاں اسی طرح صاف ستھری رہیں گی؟ اس کا اے سی کا نظام اور دیگر چیزیں درست انداز میں کام کرتی رہیں گی؟۔
اس الیکٹرک ٹرین کے لئے دو علیحدہ گرڈ اسٹیشن بنائے گئے ہیں ۔ امید ہے یہ اورنج ٹرین لوڈشیڈنگ سے متاثر نہیں ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اورنج ٹرین کے ارد گرد کے ماحول اور عمارتوں کو بھی خوبصورت بنایا جائے تاکہ جو لوگ اور سیاح اس ٹرین پر سفر کریں انہیں خوبصورت مناظر نظر آئیں۔یہ بات تو طے شدہ ہےکہ اورنج ٹرین پر ایلیٹ کلاس کو تو سفر کرنا نہیں لہٰذا جس طرح امریکہ، یورپ اور برطانیہ میں ٹرام اور سٹی ٹرین صاف ستھری اور اچھی ہوتی ہیں یقیناً یہ ایسی نہیں رہے گی کیونکہ ہمارے لوگوں کو خودشعور نہیں کہ وہ صفائی رکھیں اور ہمارے ہاں عملہ بھی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتا۔ جب اس اورنج ٹرین میں روزانہ دو لاکھ مسافر سفر کریںگے تو MAINTENANCE کے مسائل بھی پیدا ہوںگے۔
لیں جی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک اور اچھا کام کردیا۔ انہوں نے پی آئی اے کی دم پر پاکستانی پرچم کی جگہ مارخور کی تصویر لگانے سے روک دیا ہے۔ صرف ایک جہاز پر یہ تصویر لگانے پر 34 لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ پی آئی اے کے چیئرمین کا عدالت میں یہ کہنا ہے کہ مارخور کی تصویر لگانے سے دنیا میں ہمارا سافٹ امیج جائے گا؟۔ ارے اللہ کے بندے جہازوں کی دم پر مارخور ا سٹکر لگانے سے دنیا کے سامنے ہمارا سافٹ امیج کیسے جائے گا۔ ذرا اس کی بھی وضاحت فرما دیں۔ اس سے قبل بھی ایک مرتبہ کسی کو خوش کرنے کے لئے جہازوں کی دم پر رنگ برنگے اسٹکرز لگائے گئے تھے، اب شاید پھر کسی کو خوش کرنا مقصود ہو۔
اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ جوبھی کسی ادارے کا سربراہ بنتا ہے وہ اس ادارے کو تباہی سے بچانے کی کوشش نہیں کرتا ۔ 400 ارب خسارے میں پی آئی اے ہے اور بجائے اس کے جہازوں کے اندرونی حالات، سروس اور کھانا بہتر کیا جائے ا سٹکر لگا کر سافٹ امیج بنایا جارہا ہے۔ جناب پہلے لیز پر لئے ہوئے جہازوں سے جان تو چھڑا لو، پھر مارخور لگانے کی بات کرنا۔ ادارہ تباہ ہو چکا ہے اور نخرے ختم نہیں ہوتے۔
پلے نئیں دھیلا تے کر دی میلہ میلہ
کاش اس ملک کے حالات اچھے ہو جائیں، کاش اچھے حکمراں مل جائیں ، کاش ہر ادارہ ترقی کرے، کاش لوگ خوشحال ہو جائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین