• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میںغربت، مہنگائی،بیماری اور بے روزگاری نے غریب عوام کو زندہ در گور کرکے رکھ دیا ہے، بہتری کے آثار تاہم دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وطن کی مٹی اس قابل نہیں کہ وہ اپنے باسیوں کورزق و وسائل نہ دے سکے، بلکہ سب کچھ کی موجودگی کے باوصف اگر صورت حال دگرگوں بلکہ حالت نزاع میں ہے، تو اس کی اصل وجہ قحط الرجال اور نفسا نفسی کا وہ دور دورہ ہے جس کے پیچھے وہ سیاسی و غیر سیاسی طاقتور ہیں ، جو عوام کو غلام در غلام رکھ کر اپنی ہوس گاہیں آباد رکھنا چاہتے ہیں۔یہ طاقتور اپنے اختیارات کی جنگ کو لامحدود رکھ کر درحقیقت بنیادی عوامی مسائل کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ طاقتوروں کی اس کربلا میں اگر کوئی حق کی خاطر آواز بلند کرتا بھی ہے، تو اس شور میں اُس کی آواز صدا بہ صحرا کے ماسوا کچھ اور نہیں ہوتی۔مختلف ایشوز اُٹھتے ہیں، اُٹھائے جاتے ہیں، یہ سلسلہ عرصے سے دراز ہے،او ر یوں عوامی مسائل کے حل، پائیدار ملکی ترقی اور جمہوری استحکام کیلئے کی جانے والی تھوڑی بہت کوششیں منزل سے قبل ہی دم توڑ دیتی ہیں۔معروضی صورت حال بھی لاحاصل جنگ کا نقشہ پیش کررہا ہے،لہذا مہنگائی کی طرف کس کی توجہ جائے۔عوام خود اب مسائل کے انبار تلے اس قدر دب کر رہ گئے ہیں کہ وہ کسی تحریک کی سکت ہی نہیں رکھتے، یہی اس ملک کےاصل خودمختاروں کا ایجنڈاتھا ، جو لگتا ہے کہ اب پورا ہونے کو ہے، اور اس ایجنڈے کی تکمیل میں میڈیا اور بعض مذہبی رہنمائوںکا کردار کلیدی ہے، جنہوں نے عوام کو بیگانگی کے مرض میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔حالانکہ یہ وہ ملک ہے جس نے وہ تحاریک دیکھی ہیں ، جس سے جان تو کیا جہان کو تبدیل کیاجاسکتاتھا، لیکن ایسی تمام تحاریک بھی پاکستانی زورآوروں کی مدد سے بین الاقوامی قوتوں نے ہائی جیک کرلیں۔ بے اعتباری بھی ایک وجہ ہے کہ عوام اب کسی تحریک کیلئے اس لئے بھی تیار نہیں ہوتے کہ مبادہ اس کا انجام کیا ہو! اور یہ کہ کہیں ماضی کی طرح اس کے راہ بر راہ زن ثابت نہ ہوجائے۔ خواہ اب کوئی اسلام کا مقدس نام بھی لے لے، لیکن لوگ اس خاطر تیار نہیں ہوتے کہ قبل ازیں دھوکے کھا چکے ہوتے ہیں۔ہم بات کررہے تھے کہ مہنگائی کا طوفان رمضان کے مقدس مہینے میں بھی پورے جوبن پر ہے، مسلمان ہی مسلمان کو لوٹ رہا ہے، دیار غیر یہاں تک کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی رمضان میں اشیائے خوردونوش ارزاں کردی ہیں ، لیکن ہماری اسلامی جمہوریہ میں ذخیرہ اندوزوں کیلئے یہی رمضان مبارک ہی کمائی کا ’’سیزن ‘‘ ہے۔دوسری طر ف زورآور باہمی طور دست و گریبان ہیں ، تو مہنگائی مافیا پر ہاتھ کون ڈالے۔
مہنگائی کے حوالے سے آئیے دیکھتے ہیں کہ خود حکومت پاکستان کا ادارہ کیا کہتا ہے۔اس سلسلے میں محکمہ شماریات کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور درآمد شدہ اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ملک میں گزشتہ برس 2017 کے اختتام تک افراط زر کی شرح 4 اعشاریہ 6 فیصد بڑھی۔پاکستان شماریات بیورو نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ کچھ ماہ میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافے کا امکان ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ روپے کی قدر میں کمی کے ثمرات آئند ہ مہینوں میں درآمد شدہ سامان کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں سامنے آئیں گے۔دوسری جانب حکومت نے رواں مالی سال میں متعین کردہ آمدن کا مجموعی ہدف پورا کرنے کے لیے اشیاء خوردونوش سمیت کئی عام استعمال کی اشیاء پر ریگولیٹری ٹیکسز عائد کردیئے ہیں۔
پی بی ایس نے بتایا کہ جولائی تا دسمبر 2017 میں مہنگائی کی شرح 3.75 فیصد رہی جبکہ سال 2016 میں اسی عرصے میں مہنگائی 3.88 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
پی بی ایس نے خبردار کیا کہ رواں مالی سال میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 6 فیصد ہوجائے گی۔
مہنگائی کی سالانہ اور ماہانہ شرح کے حوالے سے پی بی ایس نے بتایا کہ سال 2017 میں غذائی مہنگائی کی شرح 3.8 فیصد رہی جبکہ ماہانہ شرح مہنگائی اعشاریہ 6 فیصد تھی۔پی بی ایس نے بتایا کہ غذائی اشیا مثلا مرغی پر 23.67 فیصد، چھالیہ پر 4.67 فیصد، خشک میوہ جات پر 1.76 فیصد، چاول پر 1.18 فیصد اور آٹے پر 1.09 فیصد قیمتوں میں اضافہ ہوا۔دوسری جانب گیس سلنڈر کی قیمتوں میں 8.3 فیصد، مٹی کے تیل پر 4.4 فیصد، پیٹرول پر 1.9 فیصد اور ڈیزل پر 1.6 فیصد قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے اضافے کے اثرات ملک کے صارفین پر پڑیں گے جس کے نتیجے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا ۔تمباکو اور شراب کی قیمتوں میں 18.1 فیصد کمی جبکہ کپڑوں اور جوتوں پر 3.64 فیصد اور ہاؤسنگ، پانی، بجلی، گیس اور دیگر ایندھن کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 4.86 فیصد اضافہ ہوا۔.محکمہ شماریات کے یہ اعداد وشمار کچھ چار ماہ پرانے ہیں، اب تو پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں اور بڑھ گئی ہیں، جبکہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے جہاں بیرونی قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے، وہاں منگائی بھی طوفان خیز ہوگئی ہے۔اب ایسے عالم میں اس سال وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ارب 73کروڑروپے کا رمضان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے لیکن رمضان پیکیج سبسڈی والی اشیا یوٹیلیٹی اسٹور کے ذریعے فروخت کرنے کے فیصلے سے پورے ملک کے صارفین استفادہ حاصل نہیں کرسکیں گے ، یہ اطلاعات عام ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے یو ٹیلیٹی اسٹورز کے ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے مافیا کے ساتھ ساز باز کرکے کروڑوں روپے کمالیتے ہیں ۔ملک کی آبادی 21کروڑ ہے اور ملک بھرمیں یو ٹیلیٹی اسٹورزکی کل تعداد 5491ہے ۔ اب ذرا تصورکریں کس طرح ملک کے کروڑں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ۔ ہونا یہ چاہیے کہ حکومت رمضان میں اوپن مارکیٹ میں فروخت ہونے والی اشیائے صرف کی قیمتوں میں سبسڈی کا اعلان کرتی تاکہ عام صارف کو اپنے ہی محلے کی دکانوں پر کم قیمت میں اشیا دستیاب ہوتیں اور صارفین یوٹیلیٹی اسٹوروں پر لمبی لمبی لائنوں میں لگنے سے بھی بچ جاتے۔ الغرض اس ملک میں کسی بھی طاقتور نے عوام کے مسائل کو اہمیت ہی نہیں دی ہے، ظاہر ہے اُنہیں اپنے بالادست طبقے کا جو خیال ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک میں اب متوسط طبقہ ختم ہوچکا ہے، یا تو وہ لوگ ہیں جو کروڑوں ، اربوں میں کھیلتے ہیں اور یا وہ غالب اکثریت ہے ، جنہیں، تعلیم ، صحت تو کجا دو وقت کی روٹی کی فکر زندہ در گور کئے ہوئے ہے۔یہ ہے وہ اسلام کا قلعہ جہاں اداروںکو باہم لڑنے سے ہی فرصت نہیں۔کاش وہ اس ملک کے عوام کو اپنا جانیں، اور اُن اژدھوں کا بھی احتساب کریں، جو غریب عوام کا استحصال کرکے اپنی تجوریاں بھر چکے ہیں۔
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پائوں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین