• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیورو سرجن پروفیسرڈاکٹر آصف بشیر نے بے تکان بو لنا شروع کیا ۔انداز بیان نہایت ہی پرجوش اور دلچسپ تھا ۔وہ بولے۔ ایک واقعہ سنیے امریکہ کی ریاست نیو جرسی میں برپا محفل میں موضوع گفتگو تھا ایشیا میں میڈیکل ٹورازم کا مستقبل۔ ایک بھارتی اپنے ملک کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا تے ہوئے انتہائی متکبرانہ لہجے میں بول رہا تھا کہاں میڈ یکل ٹورازم اور کہاں پاکستان ؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ ؟ غیر ملکیوں کو چھوڑ یں پاکستانی ڈاکٹر تو اپنے غریب مریضوں کا ہی علاج کر لیں تو بڑی بات ہے۔پاکستان میں نیورو اور ریڑھ کی ہڈی کے ہزاروں مریض ہر سال نا مناسب حالات میں آپریشن کے بغیر ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔یہ سنتے ہی میرے دماغ کی بتی گل ہوگئی اور مایوسی کےاندھیرے کنویں میں گرتا چلا گیا ۔تقریب ختم ہوگئی لیکن اس بھارتی کا فقرہ ہتھوڑے کی مانند میرے دماغ پر برستا رہا اور مسلسل کچھ کرنے کیلئے ابھارتا رہا ۔اور آخر کار میں نے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ دوستوں کی رائے یہ تھی کہ ایک سال قبل ہی فل پروفیسر بنے ہو ایک دہائی تک نیورو سرجری اور ریڑھ کی ہڈی کے پیچیدہ کیس کامیابی سے ہینڈل کررہے ہو اور بیس سالہ پرکشش ڈائریکٹرشپ چھوڑ نا حماقت ہوگی ۔ میرا جواب تھا وطن کی مٹی مجھے پکار رہی ہے سب کچھ قربان کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ نو سال تک میو کلینک ، سونی یونیورسٹی ، ہارورڈ اسپتال امریکہ میں حاصل کی گئی امراض دماغ و ریڑھ کی ہڈی کے علاج کی تربیت کا پاکستان میں استعمال کروں گا ۔پاکستان میں اتنا مہنگا علاج کون کروائے گا ایک دوست بولا۔میں نے کہا میں پاکستان جا کر میڈیکل ٹورازم کی بنیاد رکھوں گا ۔آپ کو پتہ ہے کہ میڈ یکل ٹورازم کیا ہے ؟ میں بولی آپ بتائیں تو وہ بولے۔میڈیکل ٹورازم کی تاریخ کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔1900 سے 1997 تک کےپہلے 97 سالہ دور میں امریکہ اور یورپ نے اعلیٰ ترین علاج کے لئے کمرشل مراکز قائم کئےجہاں صرف امرا ہی علاج کی سہولتیں حاصل کر سکتے تھے۔1933 میں امریکن بورڈ آف میڈیکل اسپیشلٹیز قائم کیا گیا جس کے ذمہ تعلیمی اور پیشہ ورانہ پالیسیاں بنانا تھا ۔پچیس سال بعد اسی مقصد کیلئے 1958 میں یورپین یونین آف میڈیکل اسپیشلیٹزکا قیام عمل میں آیا ۔ٹھیک دو سال بعد بھارت کو بین الاقوامی مریضوں کے سستے علاج کی آماجگاہ بنانے کی پالیسی بنا تےہوئے1960 میں بھارتی حکومت نےفلاور چائلڈ موومنٹ شروع کردی ۔وہاں یوگا، آیورویدک طریقہ علاج بھی متعارف کروایا گیا ۔ بھارتیوں نے برطانیہ اور امریکہ کے ان شہریوں کو متوجہ کرلیا جواچھا اور سستا علاج کروانے کے متمنی تھے۔1980 سے 1990 کی دہائی میں امریکہ میں علاج اس قدر مہنگا ہوگیا کہ بڑی تعداد میں امریکیوں نے آف شورآپشنز تلاش کرنا شروع کرد ئیے ۔قریب ترین آپشن کیوبا تھا ۔دوسرا چار سالہ دور 1997 سے 2001 کا تھا۔ ایشیا میں کرنسی کی قیمتیں روبہ زوال تھیںلیکن یہ بحران تھائی لینڈ کیلئے رحمت بن گیا اور وہ پلاسٹک سرجری کا بڑا مرکز بن گیا۔ مریضوں کی بیرون ملک اڑان امریکہ کیلئے تشویشناک تھی لہٰذا اس نے 1997 میں بیرون امریکہ علاج کے معیار کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بین الاقوامی جوائنٹ کمیشن بنا ڈالا ۔کمیشن کی تحقیقات سامنے آئیں تو ایشیا میں تھائی لینڈ ، سنگا پور اور انڈیا علاج کے بڑے مراکز بن گئے ۔تیسرا پانچ سالہ دور2001 سے 2006 تک کا ہے۔صرف 2006 میں لاطینی امریکہ سے ڈیڑ ھ لاکھ امریکیوں نے دانتوں اور کاسمیٹک سرجری کی خاطر ایشیا کا رخ کیا۔2007 سے شروع ہونے والا چوتھا دور تاحال جاری ہے ۔ملائشیا ، سنگا پور ، بھارت ، تھائی لینڈ اور ترکی مغرب سے آنے والے لاکھوں غیر ملکی میڈیکل ٹورسٹ سے سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ کما رہے ہیں ۔تھائی لینڈ میں ایک سال میں بارہ لاکھ تک میڈ یکل ٹورسٹ آئے جن میں تیس ہزار سےزائد امریکی مریض تھے۔ ملائشیا میں طبی سہولتوں کیلئے اعلیٰ ترین انفراسٹرکچر بن چکا ہے جہاں ہر سال پانچ لاکھ میڈ یکل ٹورسٹ آتے ہیں۔بھارت کے پانچ شہروں بنگلور، چنائی ، حیدر آباد، ممبئی اوردہلی میں آنے والے غیر ملکی مریضوں کی سالانہ تعداد ڈھائی لاکھ سالانہ تک جاپہنچی ہے۔ترکی کی خوبصورت سرزمین پر کینسر، آنکھوں ، دل اور ہڈیوں کا بہترین علاج میسر ہے جہاں ہر سال تیس ہزار میڈ یکل ٹورسٹ آتے ہیں۔صرف 2014 میں امریکہ کےمیڈیکل ٹورسٹ کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہو گئی جو پلاسٹک سر جری اوربارآوری کے علاج کیلئے بیرون ملک گئے ۔پچھلی ایک دہائی میں سینکڑوں ہیلتھ انشورنس کمپنیاں بھی وجود میں آگئی ہیں جو دنیا کے ہر ملک میں علاج کی سہولتیں فراہم کررہی ہیں ۔مقام افسوس ہے کہ میڈ یکل ٹورازم میں میرے وطن کا کہیں بھی کوئی نام و نشان نہیں ہے ۔ہم وطنوں کیلئے نیورو اور ریڑھ کی ہڈی کے پیچیدہ امراض کے اسٹیٹ آف دی آرٹ علاج اور میڈ یکل ٹورازم کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم لئے وطن واپس آیا ہوں ۔ اسی سرکاری لاہور جنرل اسپتال کو چنا جس کی بنیاد والد مرحوم سرجن پروفیسر بشیر احمد نے رکھی تھی ۔نومبر 2017 سے لیکر اب تک ہماری ٹیم ہزاروں غریب مریضوں کا علاج کر چکی ہے ۔خیبر پختونخوا ،سندھ ، بلوچستان اور افغانستان سے آئے ہوئے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے پیچیدہ مریضوں کا بھی لاہور میں بخوبی علاج ہورہا ہے۔لاہور جنرل اسپتال میں پہلے مریضوں کو علاج کیلئے تین ماہ کا وقت دیا جاتا تھا اب یہ وقت کم ہو کر تین ہفتے کا رہ گیا ہے۔ پاکستانی ڈاکٹروں کو جد ید ترین تربیت دینے کیلئے نئے سرے سے پروگراموں کو ترتیب دیا جارہا ہے۔ریڑھ کی ہڈی اور نیورو کےوہ مریض جو بیرون ملک علاج افورڈکرسکتے ہیںان کیلئے اچھی خبر ہے کہ انھیں علاج کیلئے باہر جانے کی ضرورت نہیں انکا اعلیٰ علاج لاہور میں ہی ممکن ہے ۔ تاہم یہ مہنگا علاج چین کی مدد سے غریب مریضوں کیلئے سستا کیا جاسکتا ہے۔ لاہور کے مرکز میںایک نیاا سٹیٹ آف دی آرٹ نیورو انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کرنے کا ارادہ ہے۔بلا امتیاز رنگ و نسل ہر مریض ویسے ہی علاج کا مستحق ہے جیسا ہم اپنے عزیز کا چاہتے ہیں۔میرا ماننا ہے کہ بہترین سرجن وہ ہےجو یہ جانتا ہو کہ کب سرجری کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین