• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدنام زمانہ این آر او کو سپریم کورٹ نے 2009میں کالعدم قرار دیا۔ پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے درمیان سودے بازی کے تحت ختم کئے جانے والے مقدمات دوبارہ کھول دیئے گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کی نگرانی میں متعارف طریقہ کار متعارف کرایا گیا تاکہ کرپٹ عناصر کے لئے سزا کو یقینی بنایا جاسکے اور لوٹی گئی رقوم بلاتاخیر قومی خزانے میں واپس لائی جاسکے۔ 9سال گزر گئے ،یہ 2018ہے ،لیکن این آر او کیسز میں ملوث کسی ایک بھی نامی گرامی شخص کو سزا دی گئی اور نہ جیل میں ڈالا گیا۔ اس کے متضاد انتہائی اہم این آر و مقدمات میں طاقتور ملزمان کو بری کردیا گیا۔ جواز یہ دیا گیا کہ احتساب عدالتوں کے رسوا رکن فیصلوں میں دستاویزی ثبوت موجود نہیں تھے۔ نیب اپنے رازداری کے دبیز پردے میں این آر او مقدمات کی تفصیلات دینے پر آمادہ نہیں ہے جس میں ان مقدمات کا انجام، برّیت اور سزائیں وغیرہ شامل ہیں۔ چیئرمین نیب اور نہ ہی اس کے ترجمان استفسار پر کوئی جواب دیتے ہیں اور نہ ہی موبائل فون کالز سنتے ہیں۔جبکہ نیب ذرائع کا اصرار ہے کہ این آر او کیسز کو اب دیکھنے کا مطلب نیب کےخلاف بڑے اسکینڈلز کو کھولنے کی راہ ہموار کرنا ہوگا۔ نیب میں ذرائع کے مطابق 9سال بعد این آر او مقدمات دوبارہ کھولے جانے کے باوجود 50این آر او مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرالتوا ہیں جن میں سے 12احتساب عدالتوں اور 34سپریم اور ہائی کورٹس میں زیرسماعت ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ این آر او کالعدم قرار دئے جانے کے بعدمجموعی طورپر عدالتی مقدمات، انکوائریز اور انوسٹی گیشنز کو دوبارہ کھولا گیا ہے جن میں 6کیسز سپریم کورٹ، 30ہائی کورٹس اور 99احتساب عدالتوں سے متعلق ہیں۔ ان کے علاوہ 5انکوائریز اور 15انوسٹی گیشنز بھی ہیں۔ ان 155میں سے 105کیسز کے انجام کا علم نہیں ہے۔ اس وقت صرف 50مقدمات زیرالتوا ہیں۔ آخری تین بڑے مقدمات میں سابق صدر کو ’’لاپتہ دستاویزی ثبوت‘‘کی بنیاد پر بری کیا گیا۔ ایس جی ایس، کوٹیکنا اور اے آر وائی گولڈ کیس میں اہم شخصیت کے ساتھ شریک ملزمان کو بھی بری کیا گیا۔ انہیں پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں دو احتساب عدالتوں کے انتہائی مشکوک فیصلوں کے تحت بری کیا گیا۔ سوئس مقدمات بھی نہیں کھل سکے کیونکہ پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت نے ہچکچاہٹ سے کام لیا اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار کی پاداش میں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وزارت عظمیٰ سے ہٹادیا۔ نیب کی جانب سے اس بات کی کوئی وضاحت دستیاب نہیں کہ 9؍ سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود مقدمات اپنے انجام کو کیوں نہیں پہنچے۔ ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی جو حساس نوعیت کے اہم مقدمات میں ثبوت اور شہادتیں گم کرنے میں ملوث تھے اور وہ جن کا رسوا کن مقدمات کے فیصلوں میں کردار رہا یا وہ جو دوستانہ استغاثہ اور این آر او مقدمات میں تاخیر کے ذمہ دار رہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں مانیٹرنگ سیلز بنانے کا حکم دیا تھا۔ تاکہ کیسز میں پیش رفت پر نظر رکھی جاسکے لیکن اس کےباوجود این آر او ملزمان کےفائدےمیں سنگین کوتاہیاں کی گئیں۔ این آر او فیصلے میں کہا گیا ’’سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یا ان کے مقرر کردہ سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل مانیٹر این آر او مقدمات میں کارروائیوں پرنظر رکھے (تفصیلی وجوہ میں وضاحت دی گئی ہے) اسی طرح تمام صوبوں کی ہائی کورٹس مانیٹرنگ سیلز بنائے جائیں۔ ان مقدمات پر نظر رکھی جائے جن میں ملزمان کو این آر او 2007کے تحت بری کیا گیا۔ اسی این آر او کیس میں سپریم کورٹ نے سیکرٹری قانون کو بھی ہدایت کی کہ وہ مقدمات کو سرعت کے ساتھ نمٹانے کے لئے احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافے کے لئے اقدامات کریں۔ تاہم عدالت عظمیٰ کی ان ہدایات کے باوجود این آر او کرپشن کیسز میں تمام متعلقہ ذمہ داران کی طرف سے تساہل کے ساتھ کام لیا گیا۔ پیپلزپارٹی حکومت کے دور میں نیب نے حکومت کواربوں روپے کی کرپشن میں ملوث 248؍ سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کی فہرست پیش کی لیکن جنہیں این آر او کے ذریعہ نیب نے چھوڑ دیا۔ اس فہرست میں سرفہرست پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت تھی جبکہ ان کے سیاسی و بیورو کریٹ متعدد قریبی معاونین بھی سامنے آئے۔ فہرست جس میں ہر نام کےساتھ ختم این آر او کے تحت مقدمات کا مختصر تعارف دیا گیا اس میں اس وقت حاضر و سابق وزرا، وفاقی اور صوبائی سیکریٹریز، سابق چیف سیکریٹریزموجودہ اور سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر شامل ہیں۔

تازہ ترین