• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تراویح میں تلاوت کردہ قرآن کریم کی پارہ بہ پارہ تفہیم

فہم القرآن:مفتی عبدالمجید ندیم
والمحصنٰت …پارہ۵
چوتھے پارے کے اواخر میں محرمات کا ذکر کیا گیا ہے ۔پانچویں پارے کا آغاز دراصل اسی حکم کی تکمیل ہے جو اس با ت کی ہدایات جا ری کرتا ہے کہ محرمات کے علا وہ بقیہ عورتیں تمہارے لیے حلا ل ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ تم انہیں اسلا م کے بتا ئے ہوئے اصول و ضابطے کے مطا بق حصارِ نکا ح میں لا ؤ اور ان کا مہر بھی ادا کرو ۔نکا ح کا بنیا دی مقصد انسان کی عفت و عصمت کی حفاظت اور ایک پا کیزہ خاندان کی بنیا د ہے یہی وجہ ہے کہ یہ آیاتِ مبا رکہ آزاد شہوت رانی کے ہر عمل کو ممنوع قرار دیتی ہیں۔ان احکا ما ت کی تفصیل کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کا واضح اہتما م فر ما رہے ہیں تا کہ وہ ناروا پابندیوں سے آزادہوجا ئیں اس لیے کہ انسان بنیا دی طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔آیت نمبر ۲۹ سے ایک طرف تو اہلِ ایما ن کویہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ دوسروں کے اموال نا جا ئز طریقے سے ہتھیا نے سے با ز رہیں تو دوسری طرف معاشی ترقی کے لیے تجارت کو ایک جا ئز اور حلا ل طریقہ قرار دیا گیا ہے ۔خود کشی کو حرام قراردیا گیا ہے اس لیے کہ اس سے زیا دہ نا شکری کی کو ئی با ت نہیں ہے کہ اللہ کی عطا کردہ زندگی کو یوں ختم کر لیا جا ئے ۔کبیرہ گنا ہوں سے بچنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ صغیرہ گنا ہ خود ہی معاف فرما دیتے ہیں ۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ایک خوبصورت انداز ہے ۔ایک دوسرے کے معیار ِ زندگی کو دیکھ کر حسد و کینہ سے منع کیا گیا ہے اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم بھی ہے اور انسان کی اپنی محنت و مشقت کا نتیجہ بھی اس لیے ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل ما نگنا چا ہیے۔
خانگی زندگی میں مرد و عورت کے مضبوط تعلقات کی بڑی اہمیت ہے ۔خاندانی زندگی کے استحکا م کیلئے مرد اور عورت دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تب ہی ایک مضبوط معاشرہ معرض ِ وجود میں آسکتا ہے ۔ اس سلسلے میںاللہ تعالیٰ کی ہدایات یہ ہیں کہ مرد گھر کاسربراہ ہے کیوںکہ نا ن و نفقہ کی ساری ذمہ داری اُس کی ہے اور عورت سارے معاملا ت میں اُس کی ممد و معاون ہو گی ۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد اپنی سربراہی کا نا جائز استعما ل کر کے عورتوں کو غلام سمجھتا رہے ۔ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نگا ہ میں ایک نا جائز فعل ہو گا ۔نیکوکار عورتوں کی یہ صفات بیا ن کی گئی ہیں کہ وہ اپنے خاوند کی فرما نبردار اور اُس کی عدم موجودگی میں اس کے ما ل و عفت کی محافظ ہو تی ہیں ۔اگر بیویوں سے کسی نا فرما نی کا صدور ہو نے لگے تو انہیں انتہا ئی پیار و محبت کے ساتھ سمجھا ؤ،ان سے تعلقات ِ زن و شو ہرمنقطع کر لو یا انہیں ہلکی سی سزا دو تاکہ خانگی زندگی میں بہتری آجا ئے اگر تعلقات مزید بگڑ جا ئیں تو پھر مرد وعورت کی جا نب سے سے ایک ایک فیصلہ کرنے والا مقرر کیا جائے جو اپنی پوری کوشش کے ساتھ فریقین کا مؤقف سننے کے بعد اصلاحِ احوال کی کوشش کرےیہاں سے یہ با ت صاف معلو م ہو تی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکامات کے ذریعے ’’گھر کی بات کو گھر ہی میں حل کرنے کی کیسی حکمت اختیار فرما رہے ہیں‘‘۔
آیت نمبر ۳۶ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت ،شرک سے بیزاری اور حقو ق العباد کی تلقین کی گئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی تکبر و غرور کی ممانعت اور حرص و بخل کی مذمت بیا ن کی گئی ہے۔جو لو گ اپنے ما ل محض ریاکاری کے لیے خرچ کرتے ہیں انہیں شیطا ن کی راہ کے راہی قرار دیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتے ۔اگر انسا ن معمولی سی نیکی کرے تو بھی اللہ تعالیٰ انسان کو اجرِ عظیم سے ما لا ما ل فرما تے ہیں۔ ایک دن ایسا ضرور آنے والا ہے جب سارے انبیا ء اپنی امتوں کے با رےمیں گواہی دیں گے اور حضرت محمد ﷺ کا اعزاز یہ ہو گا کہ آپ ساری انسا نیت پر گواہ بنا کر پیش کیے جا ئیں گے ۔وہ دن ایسا ہو گا کہ کافر اپنے کسی عمل کو چھپا نے کی سکت نہ رکھتے ہو ں گے اور انجام ِ کار کو دیکھ کر یہ تمنا کریں گے کہ کاش آج زمین کا سینہ شق ہو جائے اور وہ ملیا میٹ کر دئیے جا ئیں۔ آیت نمبر ۴۳ سے نشے اور جنا بت کی حالت میں نما ز کے قریب جا نے سے منع کیا گیا ہے ۔اگر پا نی میسر نہ ہو تو تیمم کی سہولت کو استعما ل کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔اس کے بعدآیت نمبر ۴۴ سے لے کر آیت نمبر ۵۵ تک یہود کی ریشہ دوانیوںکا تذکرہ ہے ۔یہ وہ لو گ تھے جنہیں اللہ کی کتاب تورات دی گئی تھی لیکن انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس کی نا قدری کی بلکہ گمراہی کے سب سے بڑے علمبردار بن گئے ۔وہ نہ صرف خود راہِ راست سے بھٹکے ہو ئے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہے تھے۔مسلمانوں کو حوصلہ دیا گیا ہے کہ ان کی ریشہ دوانیاں کا میا ب نہیں ہو سکتیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے پشتیبا ن اور حما یتی ہیں۔اہلِ کتاب کی کتاب ِ الٰہی میں تحریف،الفاظ کا ذومعنی استعما ل ، دین میں طعنہ زنی اور اطاعت سے انکار ہی وہ جرائم تھے جن کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکا ر کے مستحق ہو ئے لہٰذا انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اس روش سے با ز آجائیں ورنہ انکے چہرے مسخ کر دئیے جا ئیں گے اور وہ رحمتِ الٰہی سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دئیے جائیں گے۔ان کا مسلمانوں سے حسد و رقابت اور مال و دولت کی حرص ایسی بیماریاں ہیں جو انہیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اور یہی ان کی تباہی کی بنیادی وجوہات ہیں۔انکار کرنے والوں کا انجام انتہائی خطرناک ہو گا ۔ان کے لئے ایسا عذاب ہے جو ان کے اجسام کو مسلسل جلا تا رہے گا جس سے ان کی تکلیف بڑھتی ہی جا ئے گی اس کے برعکس ایما ن و عملِ صالح سے مزین افراد سدابہار جنت میں رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کا اہلِ ایما ن کو حکم ہے کہ امانتیں ان کے اہل افراد کے سپرد کریں اور ہر معاملے میں عدل و انصاف کی پاسداری کریں۔اللہ ،اس کے رسول ؐ اور اجتما عی معاملات کے ذمہ داران کی اطاعت کریں ۔اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جا ئے تو آخری حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا چلے گا ایسے میں کسی کو من مانی کرنے کی اجازت ہر گز نہ ہو گی۔منافقین کے بارے میں کھل کر بتا یا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات کے فیصلے طاغوت سے کرانے کے خواہاں ہیں۔وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقت میں شیطان کے پیروکار ہیں۔ان کے باطن کی حقیقی تصویر یہ ہے کہ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں ۔اللہ ان کے با طن کا حال خوب جانتا ہے ۔یہ اگر سچے دل سے توبہ کر لیتے تو اللہ انہیں معاف کرنے کے لئے تیار تھا لیکن یہ اپنی ہٹ دھرمی پر مسلسل ڈٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے رحمتِ الٰہی ان سے دور ہو چکی ہے ۔آیت نمبر ۶۵ اللہ تعالیٰ کی جا نب سے ایک ایسا اعلا ن ہے جو اپنے شانِ نزول کے لحاظ سے اس نا م نہاد مسلمان (منافق)کے بارے میں ہے جس نے رسولِ اکرم ﷺ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا تھا اور حضرت عمر نے اس کی گردن اڑا دی تھی ۔ یہ اعلا ن یہ بھی بتا رہا ہے ایما ن کی اصل پہچا ن یہ ہے کہ ایک مسلمان ہو نے کے نا طے زندگی کے سارے معاملات میںرسولِ کریمﷺ کے ہر حکم کی اتبا ع اس طرح کی جا ئے کہ گردن کے ساتھ ساتھ دل بھی جھکا ہوا ہو۔ جو لو گ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی اطا عت کریں گے انہیں قیامت کے دن اللہ کے انعام یا فتہ لوگوں یعنی انبیاء،صدیقین،شہداء اور صالحین کا ساتھ نصیب ہو گا ۔یہ لوگ اللہ کی رحمت اور جنت میں بلندی درجات سے مالا مال ہوں گے۔ایک مسلما ن کی ساری زندگی عملی جدوجہد سے عبارت ہے ۔وہ مظلوموں کے حقوق کی نگہداشت کے لیے لڑتا ہے اور عدل وانصاف کا نظام برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس ساری جدوجہد میں اسے قدم قدم پر تکالیف کا سامنا کرنا پڑتاہے لیکن وہ راستے کے سارے کانٹوں کی چبھن خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کا م آجا ئے یا زندہ پلٹ آئے اس کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہو چکا ہے ۔اہلِ ایما ن ہمیشہ اللہ ہی کی راہ میں لڑتے ہیں جب کہ اہلِ کفر کی ساری جدوجہد طاغوت کی راہ میں ہو تی ہے ۔منافقین بہانے تراشنے کے ما ہر ہیںجب جہاد و قتال کی با ت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں نما ز و زکوٰۃ کی طرف رہنے دو لیکن جب انہیں نما ز و زکٰوۃ کے ساتھ ساتھ قتال کے لیے کہا جا تا ہے تو لوگوں کا خوف ان کے دل و دما غ پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ موت سے ڈرنے لگتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موت تو کسی بھی جگہ آسکتی ہے ۔مضبوط قلعے بھی اسے روک نہیں سکتے۔انسان جس بھی اچھی یا بری صورتِ حال سے دوچار ہو تا ہے وہ اللہ ہی طرف سے ہو تی ہے لیکن اس میں انسان کے اعما ل و افعا ل کا دخل بھی ہوتا ہے ۔رسولِ اکرم ﷺ کی اطاعت ،اللہ ہی کی اطا عت ہے ۔ان منا فقین کی ایک بڑی تعدادزبانی اطاعت کا دم بھرتی ہے لیکن ان کی زندگی کے شب وروز اس کی مخالفت میں بسر ہوتے ہیں ۔کیا انہوں نے قرآن میں تدبر نہیں کیا ؟اگر یہ قرآن غیراللہ کی جانب سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات ہو تے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے اور یہی بات اس کے کلا مِ الٰہی ہو نے پر واضح دلیل ہے ۔نبی اکرم ﷺ کو اللہ پر توکل کی تلقین کے ساتھ ساتھ اہلِ ایمان کو جہاد و قتال کی ترغیب دینے کی تلقین کی گئی ہے ۔جو بھی اچھے کام کی سفارش کرے گا اسے ثواب ملے گا اور جو برے کا م کی سفارش کرے گا وہ اس کی سزا میں حصہ دار بنے گا ۔مسلما نوں کو باہم ملتے وقت ایک دوسرے کو سلام کرنے کی تلقین کی گئی ہے جو نیکی میں اضافے اور تعلقات کی مضبوطی کا بہترین ذریعہ ہے ۔
ان آیات کے نزول تک مسلمان ،منا فقین کے با رے میں تذبذب کا شکا ر تھے کہ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جا ئے ۔اللہ تعالیٰ نے اس پر تنقید کرتے ہو ئے واضح ہدایات دی ہیں کہ منافقین اسلام کے لئے سب سے خطرنا ک گروہ ہیں لہٰذا وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔ اسلا م میں انسانی جان کا احترام بہت زیا دہ ہے ۔اسی لیے قتلِ عمد اور قتلِ خطا کے حوالے سے مسائل کا تذکرہ کیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا یا گیا کہ جوکسی مسلمان کو ناحق طو ر پر جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے اور وہ اللہ کے غضب سے دوچار ہو گا ۔جو شخص میدانِ جنگ میں مسلمان ہو نے کا اعلا ن کر ے اس کا اعتبار کیا جا ئے اور اس کی جا ن کو تحفظ دیا جا ئے ۔اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو چکا ہے ان کے لیے اللہ کے ہاں بلند درجات،مغفرت و بخشش اور رحمت ہی رحمت ہے۔ساری زمین اللہ کی ملکیت ہے ۔اگر زمین کے کسی حصے میں اہلِ ایما ن کو اپنا دین بچانا مشکل ہو جا ئے تو انہیں ہجرت اختیار کر لینی چاہئے اس لئے کہ ان کا دین و ایمان ان کے وطن سے کہیں زیادہ قیمتی ہے ۔اگر وہ اس راہ میں چلتے ہو ئے موت کی آغوش میں چلے جائیں تو ان کا اجر اللہ کے ہاں ثابت ہو جا ئے گا اور اگر وہ اپنی منزل پر پہنچ جا ئیں تو ان سے زیادہ خوش نصیب کو ئی نہیں ہو گا ۔آیت نمبر ۱۰۱ میں نماز خوف اور نمازِقصر کا تذکرہ ہے جو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ نماز کسی بھی حال میں معاف نہیں اور یہ بات بھی اپنی جگہ انتہائی اہم ہے کہ نماز کو بہانہ بنا کر اسلامی سرحدوں کی حفاظت سے غافل نہیں ہوا جا سکتا۔آیت نمبر ۱۰۵ میں قرآنِ مجید کی حقانیت کا تذکرہ کرنے کے بعد اس کا مرتبہ یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ کتاب ہماری زندگی کے معاملات کے فیصلے کرے گی اور یہی حکم رسولِ اکرم ﷺ کو دیا گیا ہے کہ آپ ایسا نظام قائم فرمائیں جہاں آپ ؐ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے صادر فرما ئیں۔اس نظام میں خیانت کار اپنے انجام کو پہنچیں اور انہیں کسی طرح کی مدد حاصل نہ ہو ہاں جو برائی کرنے کے بعد توبہ واستغفار کا رویہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمانے والے غفور الرحیم ہیں لیکن جو شخص اپنا جرم کسی اور کے سر تھوپنے کی کوشش کرے گا وہ بہت بڑا بہتان با ندھے گا اور یہ بہتان اسے گنا ہ کی وادی میں لے جا کر تباہ و بربا د کر دے گا ۔لوگوں کی سرگوشیوں میں عام طور پر خیر کا پہلو کم ہی ہوتا ہے سوائے اس کے نیکی کا حکم دیا جا ئے یا لوگوں کے درمیان صلح و صفا ئی کروائی جا ئے۔یہ بات انتہائی واضح ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے رسول ﷺ کے طریقے کی مخالفت کرے گا اور مسلمانوں کے اجماع کے برعکس چلے گا وہ گمراہی کا شکار ہو کرجہنم کا ایندھن بنے گا ۔شرک سے بڑا کو ئی گناہ نہیں اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی توہین اور ظلمِ عظیم ہے ۔شیطان انسان کو راہِ راست سے ہٹا کر گمراہی کی طرف لے جاتا ہے اوراس کا یہ چیلنج با لکل واضح ہے کہ وہ لوگوں کی اکثریت کو گمراہ کرنے کی جدوجہد کرتا رہے گا لیکن یہ با ت بھی واضح ہے کہ شیطان کی دوستی واضح خسارے کے سوا کچھ نہیں ۔وہ آرزؤں اور تمناؤں میں الجھا کر انسان کی منزل کھوٹی کر دیتا ہے۔اس کے برعکس اہلِ ایما ن اپنی زندگیوں کو عملِ صالح سے مزین کر کے اللہ تعالیٰ کی جنت اور رضا سے ہمکنار ہو جاتے ہیں اور شیطا ن کا کو ئی وار ان پر کارگر ثابت نہیں ہوتا ۔ وہ ملتِ ابراہیمی کے پیروکار ہیں اور ابراہیم ؑ تو وہ ہستی ہیں جنہیں اللہ نے اپنا دوست بنا دیا تھا ۔آیت نمبر ۱۲۷ سے عورتوں کے حقوق کا دوبارہ تذکرہ فرما کر عدل و نصاف کرنے کاحکم دیا گیاہے۔خاص طور پر یتیم بچیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرما ئی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے جدوجہد کرو لیکن اگر کہیں ایسا ممکن نہ رہے تو ظلم کی اس داستا ن کو طُول دینے کی بجا ئے ایک دوسرے سے طلا ق یا خلع کے ذریعے الگ ہو جا ؤ ۔
آیت نمبر ۱۳۵ میں اہلِ ایما ن سے خطاب فر ما کر انہیں کہا گیا ہے کہ تم انصاف کے علمبردار بن کر میدانِ عمل میں آجاؤ اور اس با ت کی ہر گز پرواہ نہ کرو کہ حق کی اس گواہی کی زد میں کون کو ن آتا ہے اس لئے کہ تمہارامقصد عدل و انصاف کا قیا م ہے ۔ ایما ن کا محض دعویٰ کا فی نہیں بلکہ دل و جا ن سے ایما ن لا کر عمل کی دنیا میں سرگرم ہو جا ؤاور جو بھی ایمانیات کا انکاری ہو اس کا مقدر ضلالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں ۔کبھی ایما ن اور کبھی کفر کی وادیوں میں گھومنے والے راہ راست سے بھٹک جاتے ہیں ۔یہ کیسا مذاق ہے کہ کبھی مو من ہو نے کا دعویٰ اور کبھی کفر کا اعلا ن!یہ کو ئی مذاق نہیں لہٰذا ایسے افراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور ہدایت سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔رہے منافق تو اے نبی ﷺ انہیں سخت عذاب کی خبر دے دیں اس لئے وہ کفار سے جھوٹی عزت کے متمنی ہیں حالانکہ حقیقی عزت تو اللہ کے پاس ہے ۔عنقریب ایسا دن آنے والا ہے جب اللہ تعالیٰ منا فقوں اور کفار کو جہنم کی آگ میں اکٹھا فرما دے گا ۔یہ گردشِ ایام کے منتظر رہتے ہیں ۔مسلمانوں پر اچھا وقت آجائے تو کہتے ہیں یہ سب کچھ ہماری حمایت کی وجہ سے ہوا ہے اور اگر کفار کا پلڑا بھا ری ہو جا ئے تو ان کے ساتھ مل جا تے ہیں ۔ان کے دوغلے پن کی وجہ سے وہ کفر و اسلا م کے درمیان لٹک رہے ہیں ۔ان کی نما زیں ریاکاری کا ایسا شاہکار ہیں جس میں ذکرِ الٰہی ہر گز مقصود نہیں ہوتا ۔اس لئے اے اہل ِ ایمان اب تمہارا مؤقف بالکل واضح ہونا چاہئے کہ تم مسلمانوں کے سوا کسی کو بھی اپنادوست اور ولی نہ بناؤ۔یہ منافق جو بظاہر بڑے چالاک اور زیرک نظر آتے ہیں جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ان کا کو ئی حامی و ناصر نہیں ہوگا سوائے ان کے جو توبہ و اصلاح کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہوکر دین کو اللہ کے لئے خالص کر لیں تو انہیں صاحبِ ایمان ہی سمجھا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب دے کر خوش نہیں ہو تے ۔وہ تو ایمان و شکر کی روش اپنا نے والوں کی ہمیشہ قدردانی فرماتے ہیں اور انہیں مغفرت اور بخشش سے مالا مال فرماتے ہیں۔
تازہ ترین