• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نجانے اصغر خان کیس کا میڈٖیا، سیاستدان، عدالتیں، سول سوسائٹی سب کیوں اتنا پیچھا کر رہے ہیں اور اُسے ایسا بنا کر پیش کر رہے ہیں جیسے یہ ہماری تاریخ میں ایسا بُرا کام ہوا ہو جس کی نہ کوئی نظیر ملتی ہے۔ یعنی تاثر ایسا دیا جا رہا ہے کہ جو کام جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی نے کیا وہ بہت بُرا عمل تھا اور ویسا عمل ہمارے لیے کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔ اصغر خان کیس کے معاملے میں بحیثیت قوم ہم ایسے behave کر رہے ہیں جیسے یہاں بڑے اصولوں کی سیاست ہوتی ہو، جہاں آئین اور قانون کی عملداری ہو اور فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ اور حکومت سب اپنا اپنا کام کرتے ہوں اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کو گناہ سمجھا جاتا ہو۔ حقیقت میں ایسا یہاں کچھ نہ کل تھا اور نہ ہی آج ہے۔جنرل بیگ اور جنرل درانی تو پھر بھی اچھے ہیں کہ اُن دونوں نے کم از کم یہ تو تسلیم کیا کہ سیاسی معاملات میں انہوں نے مداخلت کر کے ایک ایسے سیاسی اتحاد کو بنانے میں مدد دی جس کا مقصد پیپلز پارٹی کو الیکشن جیتنے سے روکنا تھا کیوں کہ ایسا کرنا قومی مفاد میں تھا۔ ملکی و قومی مفاد کے لیے اُس وقت استعمال کیے جانے والے سیاستدانوں میں نواز شریف بھی شامل تھے۔ آج اُسی نواز شریف کو اور اُس کی جماعت کو قومی مفاد میں الیکشن ہرانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ کل اگر بے نظیر بھٹو کی پاکستانیت پر شک تھا تو اب نواز شریف کو ایسے ہی شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔ تین دہائیاں قبل نواز شریف کو بے نظیر کے خلاف اہمیت دی گئی تو آج 2018 میں نواز شریف کو کچلنے کے لیے عمران خان کی مدد کی جا رہی ہے۔ کل تک بہت کچھ جو چھپ چھپا کر ہو رہا تھا اب کھلم کھلا ہوتا ہے لیکن کسی کو بولنے کی اجازت نہیں سیاست اور صحافت گواہ ہیں اُس سیاسی توڑ جوڑ کے جو آج کھلے عام کارروائی جا رہی ہے لیکن ملکی مفاد میں آج اس معاملہ پر بات کرنے پر پابندی ہے۔ آئندہ سالوں میں جب قومی مفاد کے تناظر میں عمران خان بھی مشکوک بن جائیں گے تو پھر آج کے معاملات پر بات کرنے کی اجازت ہو گی۔ مشرف کے دور میں بھی گنگز پارٹی بنائی گئی جس کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا۔ اگر 1988 میں جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کا آئی جے آئی کو بنانے میں کردار تھا تو2002 میں جنرل مشرف اور جنرل احتشام ضمیر نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ٹکڑے کیے اور ق لیگ اور پی پی پی پیٹرائٹ کے نام سے کنگز پارٹیز بنائیں۔ آج بھی یہی کام خوب زور و شور سے جاری ہے لیکن اس آج کی کہانی پر آج بات کرنے پر پابندی ہے۔ اگرچہ کل تبصرہ کے لیے یہ معاملہ بھی کھل جائے گا لیکن یاد رہے کہانی وہی ہے جسے بار بار دُہرایا جا رہا ہے صرف کردار بدلتے ہیں۔ قومی مفاد میں اگر کل نیب کو استعمال کیا گیا تاکہ وہ سیاستدان جو گنگز پارٹی میں شامل ہونے سے گریزاں تھے اُنہیں یہ سمجھایا جا سکے کہ اُن کی اپنے ذات کے وسیع تر مفاد میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو خیر باد کہہ کر گنگز پارٹی میں شامل ہو جائیں، تو آج ایسا کرنے سے نیب کیوں ہچکچائے گی۔ کرپشن کا خاتمہ تو کبھی نیب کا مقصد تھا ہی نہیں۔ کرپشن تو بہانہ ہے اگر ایسا نہیں تو کوئی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کھربوں کی کرپشن کے این آر او مقدمات کو کھلے نو سال گزرنے کے باوجود ایک بھی اہم ملزم کو نہ جیل بھیجا گیا اور نہ ہی اُس سے مبینہ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی گئی۔ نیب تو سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتوں کو بنانے گرانے کے کام میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔ اب کوئی کیسے مان لے کہ باقی سب کو بھول کر ن لیگ کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات بنا بنا کر نیب واقعی کرپشن کے خاتمہ کا خواہاں ہے۔ نیب تو ایک مہرہ ہے۔ اس لیے جو لوگ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کا احتساب چاہتے ہیں وہ ضرور غور کریں کہ کیا آئی جے آئی کے بعد سیاسی معاملات میں مداخلت کا کام بند ہو چکا؟کیا سول حکومتوں کو کمزور کرنے اور اُنہیں بنانے گرانے جیسے معاملات ماضی کا حصہ بن چکے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی کے خلاف یہ شور و غوغا کیسا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین