• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اخبارات پڑھنے کی لت تو بچپن سے ہی ہے مگر جب نیوزچینلز سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے تو میں جنگلی اور آبی حیات سے متعلقہ چینل لگا لیتا ہوں جو بہت دلچسپ معلومات فراہم کرتے ہیں اور آپ کا بلڈ پریشر بھی ہائی نہیں ہوتا۔ایسے ہی ایک دن نیشنل جیوگرافک چینل دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ شکار کرنیوالے خطرناک جانوراگر اتنے ہی منہ زور اورطاقتور ہیں تو ان کی وجہ سے دیگر جنگلی حیات کی نسل ختم کیوں نہیں ہو جاتی ؟مثال کے طور پر شیر جنگل میں موجود تمام ہرن ہڑپ کیوں نہیں کر جاتا ؟
ہاتھی چھوٹے موٹے جانوروں کو حشرات ا لارض سمجھ کر روند کیوں نہیں ڈالتے ؟ شارک مچھلیوں کے کھانے سے دیگر مچھلیوں کی نسل مٹ کیوں نہیں جاتی ؟اور شہروں میں بلیوں کے کھانے سے چوہے ختم کیوں نہیں ہو جاتے ؟چونکہ اس وقت مگر مچھ کے شکار سے متعلق ایک دستاویزی فلم چل رہی تھی اس لئے میرے ذہن میں جوار بھاٹا پید اکرنیوالا یہ سوال مگر مچھ تک ہی سکڑ کر رہ گیا۔مگر مچھ کو رینگنے والوں جانوروں میں جسامت اورطاقت کے اعتبار سے فوقیت حاصل ہے ۔بعض اوقات مگر مچھ دریا کے کنارے جبڑے کھولے نہایت خوفناک دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ جارحانہ موڈ میں ہیں ۔منہ کھول کر دراصل یہ اپنے اندر کے درجہ حرارت کو ماحول کے مطابق لانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹھنڈے خون والے ریپٹائلز میں شمار ہونیوالا مگر مچھ گوشت خور ہے اور اس کی زندگی کا انحصار ان جانوروں پر ہے جنہیں یہ شکار کرتا ہے ۔مگر مچھ کے جبڑے میں 24دانت ہوتے ہیں مگر یہ چبانے کا کام نہیں کر سکتے ان خوفناک دانتوں سے محض شکار کو جکڑنے کا ہی کام لیا جاتا ہے اور پھر شکار کو لقموں کی صورت میں کھانے کے بجائے مگر مچھ اسے سالم اور ثابت ہی نگل لیتا ہے ۔جب کوئی نہنگ ،گھڑیال یا مگر مچھ نوکیلے دانتوں سے لیس جبڑے کیساتھ کسی جانور پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی گرفت سے بچنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔شاید آپ کے ذہن میں بھی خیال آتا ہو کہ دریا میں رہتے ہوئے مگر مچھ سے بیررکھنا واقعی حماقت ہے تو پھر مچھلیوں یا دریا کے کنارے رہنے والے جنگلی جانوروں کا وجود ختم ہوجانا چاہئے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مگرمچھوں کی نسل معدوم ہوتی جا رہی ہے ۔تحفظ جنگلی و آبی حیات کے عالمی ادارے بتاتے ہیں کہ مگر مچھوں کی 27میں سے 14اقسام ختم ہونے کے قریب ہیں ۔
مگر مچھ کا شمار دنیا کی قدیم ترین مخلوقات میں ہوتا ہے ۔ماہرین نے کئی سوسال پرانے مگر مچھ کے ڈھانچے دریافت کرکے یہ سراغ لگایا ہے کہ ایک دور میں ڈائنوسار اور مگر مچھ کی دہشت ہوا کرتی تھی مگر پھر ڈائنوسار مٹ گئے اور مگر مچھ باقی رہ گئے ۔ مگر مچھوں کی من مانیوں کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو کچھ بعید نہیں کہ ایک دن یہ بھی ختم ہو جائیں یا پھر ان کے دانت جھڑ جائیں اور ان کی حالت چھپکلیوں جیسی ہوجائے۔مگر مچھ کی قوت سماعت اس قدر تیز ہوتی ہے کہ یہ انڈوں میں پل رہے اپنے بچوں کی باتیں سن سکتے ہیں ۔انسان کا جبڑا فی مربع انچ کے حساب سے 100پونڈ پریشرڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ مگر مچھ میں یہ صلاحیت 5000پونڈ فی مربع انچ ہوتی ہے ۔مگر مچھ کے آنسو بہانا اردو کا بہت مشہور محاورہ ہے اور اس کا تناظر یہ ہے کہ جب مگر مچھ کسی جانور کو شکار کرنے کے بعد نگل رہا ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہوتے ہیں ۔ان آنسوئوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مگر مچھ کواپنے کئے پر کوئی پشیمانی ہے یا پھر اسے شکار ہونے والے جانور کے انجام پر رونا آرہا ہے بلکہ یہ ایک فطری اور اضطراری عمل ہوتا ہے ۔ایک گلینڈ کے زیر اثر اس کی آنکھوں سے چند قطرے ٹپکتے ہیں جو جراثیم کش ہوتے ہیں ۔دیکھنے والے کو یوں لگتا ہے جیسے مگر مچھ افسردہ ہے اور آنسو بہا رہا ہے ۔غالب نے بھی اپنی ایک شہرہ آفاق غزل میں مگر مچھ کا ذکر کیا ہے :
آہ کو چاہئے اِک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب ،اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون ِ جگر ہونے تک
جنگل ہو ،سمندریا پھر دریا، وہاں پرامن بقائے باہمی کا اصول تو ہوتا نہیں اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی آئین ،قانون یا ضابطہ ہوتا ہے اس لئے جس دیئے میں جان ہوتی ہے وہ دیا جلتا رہ جاتا ہے ۔جنگل کے قانون کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر کوئی بیک وقت شکار بھی ہوتا ہے اور شکاری بھی ۔بتایا جاتا ہے کہ مگر مچھ کے انڈوں سے جب بچے نکلتے ہیں تو ان کے زندہ رہنے کی شرح محض ایک فیصد ہوتی ہے جبکہ باقی 99فیصد بچے ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مچھلیوں کی غذا بن جاتے ہیں ۔جو اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ شروع میں مچھلیاں اور مینڈک کھاتے ہیں جبکہ بڑے ہو کر ان جانوروں کا شکار کرتے ہیں جو دریا کے کنارے پانی پینے کے لئے آتے ہیں ۔مگر مچھ محض ہرن اور گائے بھینس جیسے جانوروں کا ہی شکار نہیں کرتے بلکہ دریائی گھوڑے جیسے بڑے اور طاقتور جانوروں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں دریا کنارے پانی پینے کیلئےجانے والے ان جانوروں میں بھی ہماری طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہوتی تو ان کے دانشور ضرور سوال اٹھاتے کہ مگر مچھ بنیادی حیوانی حقوق کی پاسداری کیوں نہیں کرتا؟یہ امتیازی سلوک کیوں کرتا ہے ؟ایسا کیوں ہے کہ کچھ جانور تو دریا کے اندر تک چلے جاتے ہیں ،موج مستی کرتے ہیں مگر انہیں کچھ نہیں کہا جاتا جبکہ بعض جانورجیسے ہی دریا کے کنارے پہنچتے ہیں تاک میں بیٹھا کوئی مگر مچھ ان پرجھپٹ پڑتا ہے ۔جانور سوال کرنے یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کے باوجود اس حقیت سے واقف ہیں کہ مگر مچھ کی مرضی وہ جسے چاہے شکار کرے ،وہ کسی کو نگل جائے یا اُگل دے تو کسی کی کیا مجال کہ اس سے پوچھ سکے اور اگر باالفرض کوئی پوچھنے کی جسارت کر بھی لے تو اس سے کیا حاصل ؟جانور عملیت پسند ہیں ،ان کی تگ و دو کا محور یہی ہوتا ہے کہ مگر مچھ کے خونی جبڑے میںجکڑے جانے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ان جا نوروں نے مگرمچھ سے بیر کے باوجود زندہ رہنے کی یہ حکمت عملی تیار کی ہے کہ کوئی اکیلا نہ نکلے ۔اب یہ جانور غول ،ریورڑ یا جھنڈ کی شکل میں دریا کے کنارے جاتے ہیں ۔ایسی صورت میں اول تو کسی مگر مچھ کی ہمت نہیں ہوتی حملہ کرنے کی لیکن اگر باالفرض کوئی جھپٹنے کی غلطی کر بھی لے تو اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ۔مگر مچھ سے متعلق یہ دستاویزی فلم دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ جانور ہی انسانوں سے سیکھیں یہ ضروری تو نہیں ،انسان بھی جانوروں کی زندگی سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ جنگل میں خونخوار شکاریوں سے بچ کر کیسے زندہ رہا جا سکتا ہے دریا میں موج ہے یا پھر مگر مچھ ،اس سے بیر رکھنا ہے اور زندہ بھی رہنا ہے تو پھر غول ،گلہ ،ڈار،جُھنڈ،ریوڑ ،ٹولی یا جتھے کی شکل اختیار کرنا ہو گی ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین