• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت لقمان رضی اللہ عنہ کا فرمانا ہے کہ جب خلقت میں جائو تو اپنی زبان کی نگہداشت کرو اور باب العلم حضرت علی کرم علی وجہہ نے تو یہ تنبیہ کر کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا کہ زبان وہ درندہ ہے جسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے ممبئی حملوں سے متعلق جو الفاظ ادا ہوئے وہ کمان سے نکلے ہوئے ایسے تیر بن چکے ہیں جو واپس نہیں ہو سکتے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ تین بار ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پہ فائز رہنے والے نواز شریف کو اس موقع پر یہ الفاظ ادا کرنے چاہئیں تھے یا نہیں۔ ہم یہ تکرار بھی نہیں کرتے کہ وہ بات جو اس سے قبل اہم عہدوں پرفائز مختلف شخصیات اور صف اول کے سیاسی رہنما مختلف مواقع پہ کر چکے ہیں تو اگر میاں صاحب نے یاداشت کو کنگھال لیا تو کون سی قیامت برپا ہو گئی۔ ہم یہ جاننے کا تردد بھی نہیں کرتے کہ سابق وزیر اعظم کے اس بیان سے قومی سلامتی کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے ،ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ میاں صاحب کے بیان کو لے کر دشمن ملک نے کیا بھد اڑائی ہے۔ ہم اس پربھی مغز ماری نہیں کرتے کہ اس بیان کی بنیاد پردنیا کی پاکستان سے ڈو مور کی منترا میں کتنی شدت آ جائے گی۔ ہم اس گتھی کو بھی سلجھانے کی کوشش نہیں کرتے کہ میاں صاحب کے اس بیان کی وجہ سے ممبئی حملوںکے بارےمیں پاکستان کا مقدمہ کتنا کمزور ہو جائے گا۔ ہم اس الجھن کو رفع کرنے کا جتن بھی نہیں کرتے کہ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کے بیان کے بعد دنیا کو کیسے یقین دلائیں گے کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیگا۔ ہم اس پربھی سر دھننے کی سعی نہیں کرتے کہ خود احتسابی کے ا س مطالبے کے بعد عالمی طاقتیں پاکستان کی گڈ کاپ اور بیڈ کاپ پالیسی نہ ہونے کے دعوے پر کیسے یقین کریگی۔ ہم اس پر بھی وقت اور صلاحیتیں ضائع نہیں کرتے کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی اس نصیحت کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کے ٹھیکیدار ہماری نان پراکسیز کی پالیسی کے بارےمیں کیسے آنکھیں بند کر لیں گے اور تو اور ہم سابق وزیر اعظم کی طرف سے اپنے ہائوس کو ان آرڈر کرنے کے اس مطالبے پرغداری کے فتووں یا حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس کے اجراکو بھی زیر بحث نہیں لاتے۔ ہم یہاں صرف سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ممبئی حملوںکے بارےمیں متنازعہ بیان کا اس پاکستان مسلم لیگ ن پرمرتب ہونیو الے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں جس کے وہ قائد ہیں۔ اس امر پہ بھی غور کرتے ہیں کہ کیا اٹھائیس جولائی کے نا اہلی کے فیصلے کے بعد نواز شریف کے’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے جس بیانیے نے مسلم لیگ ن کو مقبولیت کی بلندیوں پرپہنچا دیا تھا ، اب اس بیان کے بعد کیا پارٹی مقبولیت کے اسی مقام پر فائز ہے۔ سب سے پہلے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ میاں صاحب کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ نے انہیں اسی پوزیشن پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور بانی ایم کیوا یم کے متنازعہ بیانات نے انہیں پہنچا دیا تھا۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور کارکنوں کا وہی حال تھا جو آج مسلم لیگ ن کے رہنمائوں اور کارکنوں کا ہے۔ نواز شریف کے نام سے جڑی پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ ان کے بیان کی حمایت کریں یا مخالفت، وہ تو یہ فیصلہ تک بھی نہیں کر پا رہے کہ وہ اس بیان کو لیکر عام انتخابات میں جائیں یا اس سے فاصلہ پیدا کر لیں۔ نواز شریف کے بیان سے پارٹی کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کل تک جو نواز شریف کی ترجمانی کرنے کیلئے پیش پیش تھے اس بیان کے بعد وہ بار بار درخواستوں کے باوجود چینلزپر آ کر دفاع کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ سب سے زیادہ جس چیز نے پارٹی میں کنفیوژن پید اکیا وہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پارٹی صدر شہباز شریف سمیت مرکزی رہنمائوں کی طرف سے جاری وضاحتوں کے باوجود میاں صاحب کا اپنے بیان کے ایک ایک لفظ کو درست قرار دینا اور اس پر قائم رہنے کا اعلان کرنا تھا۔ شہباز شریف کی طرف سے بطور پارٹی صدر فوری جاری کردہ وضاحتی بیان ہو یا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کیا جانے والا اعلامیہ ، ڈیمج کنٹرول اس لئے ممکن نہ ہو سکا کیونکہ پارٹی قائد نے نہ صرف اپنے الفاظ واپس لینے سے انکارکر دیا بلکہ قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر کے کشتیاں جلا دینے کا پیغام بھی دے دیا۔ وزیر اعظم کو طلب کر کے میاں صاحب نے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے پر جس خفگی کا اظہار کیا اور انہیں مخصوص ہدایات دے کر پریس کانفرنس کرنے کا حکم دیا اس پر عمل نے شاہد خاقان عباسی کی بطور وزیر اعظم پوزیشن کو بھی نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے نزدیک میاں صاحب کے اس فعل کا دفاع کرنا اتنا نا ممکن تھا کہ جہاں ان سے پہلے سے خائف چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان جاری کر کے بطور وزیر داخلہ ممبئی حملوں اور بھارتی روئیےکے بارےمیں حقائق آشکار کر دئیے وہیں آج بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی تاسف کا اظہار کرتے کہہ دیا کہ میاں صاحب کو یہ انٹرویو نہیں دینا چاہئے تھا۔ اس انٹرویو نے پارٹی کے اندر پائی جانے والی متضاد آراء اور پالیسی کو بھی پوری طرح بے نقاب کر دیا کیونکہ بطور پارٹی صدر پارلیمنٹ ہاوس میں منعقدہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شہباز شریف نے خود یہ انکشاف کیا کہ جب اس انٹرویو کیلئے میاں صاحب کو ٹیلیفون کال آئی تو تب وہ اور وزیر اعظم شاہد خاقان موجود تھے، انٹرویو کرنے والے صحافی کا نام سن کر وزیر اعظم اور انہوں نے میاں صاحب کو منع کیا تھا کہ وہ اس صحافی کو انٹرویو دینا تو دور کی بات اس سے بات تک نہ کریں۔اس موقع پر انہوں نے دو ہزار سولہ کی اس لیکس کا بھی ذکر کیا جس کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑا تھا۔ شہباز شریف کے مطابق میاں صاحب نے ان کے منع کرنے کا باوجود یہ انٹرویو دیا جو اب گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ شہبا زشریف کے اس انکشاف نے واضح کر دیا کہ سابق وزیر اعظم اور ان کے بڑے بھائی جو کل تک ان کے مشورے کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھاتے تھے اب اہم فیصلوں کیلئے بھی ان سے مشاورت کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ بڑے بھائی اور قائد کی محبت میں شہباز شریف نے ایک بار پھر انٹرویو کرانے والے کو ان کا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر ان کی مشکلات میں کمی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ پارٹی رہنمائوں ،کارکنوں اور عوام کو یہ کیسے سمجھا پائیں گے کہ انٹرویو میں صحافی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات تومیاں صاحب نے خود ہی دئیے تھے جن پر وہ بدستور قائم ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بعض ارکان نے میاں صاحب سے اس متنازع بیان کے ساتھ آئندہ الیکشن میں جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جو بذات خود اس امر کا ثبوت ہے کہ میاں صاحب کی بے وقت کی اس راگنی نے کلین سویپ کے دعوے کرنے والی پارٹی کو کس مشکل سے دوچارکر دیا ہے۔ یہ بھی اسی بیان کا شاخسانہ ہے کہ جن لوٹوں کو سیاسی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے تھوڑی بہت ندامت کا سامنا تھا وہ بھی اب اس بیان کی آڑ میں اپنے سیاسی مفادات پر حب الوطنی کی ملمع کاری کر کے نئی منزل کو سدھار رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی وہ سوشل میڈیا ٹیم جو اپنے قائد کے دفاع میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی تھی نواز شریف کے بیان کے بعد کچھ دیر کیلئے تو اسے بھی سانپ سونگھ گیا تھا اور وہ تاحال فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ عین انتخابات سے پہلے سامنے آنے والے اس دوراہے پر وہ پارٹی صدر کی صلح جو پالیسی پر عمل پیراہو یا اپنے قائد کے جارحانہ بیانیے پر گامزن رہے۔ اس پوری بحث کا حاصل یہی تلخ حقیقت ہے کہ نواز شریف کے بیان نے عوام کے دلوں میں گھر کر جانے والے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کے بیانیے اور پارٹی کو انتہائی نازک وقت پر نقصان پہنچایا ہے اور بقول منیر نیازی
کْج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین