• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ(ن) کی حکومت جاتے جاتے اپنے دور کا چھٹا بجٹ قومی اسمبلی سے پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے جس میں قابل ذکر ایمنسٹی اسکیم کی منظوری شامل ہے۔ اس بجٹ کو نگران حکومت آگے لے کر چلتی ہے یا اس کے کچھ حصوں پر عملدرآمد کو روک دیتی ہے، پھر نئے مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے بعد عام انتخابات کے انعقاد کے نتیجہ میں قائم ہونے والی نئی حکومت کا رویہ اس بجٹ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو آنے والے حالات اور حکمران ہی بتاسکیں گے لیکن اس وقت تو سیاسی حالات میں حددرجہ ارتعاش کی وجہ سے بجٹ کے حوالے سے اسلام آباد میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ ہمارے ممبران اسمبلی کی اکثریت تو ماشاء اللہ پہلے ہی بجٹ دستاویز اٹھانے سے بیزار رہتی ہے تو ایسے میں وہ انہیں پڑھنے میں کیا دلچسپی لےگی۔ ویسے بھی اسلام آباد میں موجود حکومت کے چل چلائو کی باتیں ہورہی ہیں، بیوروکریسی کا رویہ وزراء اور ممبران اسمبلی کے ساتھ وہ نہیں رہا جو چند ہفتے قبل تھا۔ یہی صورتحال پنجاب میں ہے، جہاں کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی دہشت سے کم از کم سرکاری کارروائیاں تو جاری رہتی ہیں، چاہے وہ چند خاندانوں یا گروپوں کے فائدے ہی کے کیوں نہ ہوں۔ اب پنجاب میں بھی عملاً سارا کام ٹھپ ہوچکا ہے اور کرپٹ مافیا اپنے معاملات خراب ہونے کی ذمہ دار نیب کو قرار دے کر یہ تاثر دے رہا ہے کہ ہم کیا کریں، نیب ہی نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے جس معاشرے میں انتظامی گورننس کمزور ہوتی ہے وہاں جب وزیر عظم یا وزرائے اعلیٰ پر سیاسی حالات بدلنے کے حوالے سے دبائو بڑھتا ہے تو پھر کرپٹ عناصر یہی پروپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ ان کی گردن وفاداری کی قیمت ادا کرتے کرتے کسی مشکل میں نہ پھنس جائے۔
اسلام آباد اور ہر جگہ سیاسی بحران دن بدن بڑھتا نظر آرہا ہے، ایسے لگ رہا ہے کہ سیاسی مارکیٹ میں دن بدن مسلم لیگ(ن) کے حصص کی قیمت گرتی جارہی ہے اور اس کے گولڈ پرائس والے شیئرز کی ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں منتقلی ایک چالیس سالہ تاریخ کے معمول کی بات ہے ، کبھی یہی پھل میاں نواز شریف کھایا کرتے تھے، جب وہ 1985ءمیں پہلی قومی سیاست میں نمودار ہوئے، پھر وزیر اعظم مسز بینظیر بھٹو نے انہیں اپنا سیاسی طور پر دشمن نمبر ایک بنا کر سیاست شروع کی تو ان کی پیپلز پارٹی جو پنجاب میں ہمیشہ لیڈ کرتی تھی، وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی اور میاں نواز شریف اپنے اس وقت کے بہتر اخلاق اور رویے کی بنیاد پر آگے بڑھتے گئے۔ اس وقت ان کے بھائی میاں شہباز شریف کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ یہ تو 1988ء کے بعد انہیں صوبائی اور قومی سیاست میں اپنے بھائی کے سر پر آگے نکلنے کا موقع ملا جس طرح مسز بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کی بلاوجہ کی مخالفت سے میاں نواز شریف وزیر اعظم کے طور پر ابھرے ،عین اسی طرح عمران خان کی جس قدر مخالفت میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ(ن) کی اکثریت نے کی اس سے سماجی حلقوں میں مقبول کرکٹر عمران خان 20سال کے بعد قومی سطح پر ایسے ابھرے کہ اب اسلام آباد کی بیوروکریسی انہیں سلام کرنے اور وزیر اعظم ہائوس میں ایک نئی مسکراہٹ کے ساتھ ریسو کرنے کے لئے بےچین نظر آرہی ہے۔ یہ سب مکافات عمل یا تقدیر کے کھیل ہیں۔ اب مسلم لیگ(ن) اور سابق وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نہ چاہتےہوئے بھی اپنے سامنے اپنا ووٹ بنک مخالف پارٹیوں میں جاتے دیکھ رہے ہیں یہ سب کیوں ہوا اور کیسے ہوا، اس پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور حالات کے مطابق اپنا انداز سیاست بدلنا ہوگا۔ اس لئے کہ جو مرضی کرلیں، کوئی نیا این آر او ملنے کے امکانات کافی کم ہیں۔ ایسے میں بجٹ کی منظوری یا کوئی اور بڑا اعلان اس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ یہ پارٹی سوچے کہ عوام اور سول سوسائٹی سے زیادہ عمران خان ان کی غلط پالیسیوں اور غلط رویوں کی وجہ سے ابھرے ہیں اور اب ہر کوئی انکے گھر کا راستہ دیکھ رہا ہے آخر کیوں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین