• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہوگیا ہے لوگوں کا اپنے عقیدے کا اظہار اور اس پر تبصرے کرنا اصل عبادت کرنے سے زیادہ آسان ہوگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب انٹرنیٹ پر دستیات مختلف پلیٹ فارمز پر مذہبی معاملات پر بحث کا ایک ایسا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اب تھمنے والا نہیںہے
کفر اور اسلام کے دعوے اور فتوے صنعتی پیداوار کی طرح نت نئے لیبلوں کے ساتھ دستیاب ہیں۔ اس طرح کی بورڈ سے لیس دین کے خدائی خدمتگار اور اپنے آپ کو عالم دہر سمجھنے والوں کی قدر میں اتنی بہتات ہو گئی ہے کہ لگتا ہے کہ اب ہر ایک مسئلے سے رجوع کیلئے معتبر علماء اور فقہاء کی بلامبالغہ ایک فوج دستیاب ہے۔ اسی کی مقدار اور مناسبت سے اپنے آپ کو روشن خیال تصّور کرنے والوں کا ایک اژدہام بھی میدان میں آگیا ہے جو ان ’’اسلامی شدت پسندوں کیخلاف بڑی دلیری سے نبرد آ زما ہے تاکہ ملک میں روشن خیالی کی شمع بجھنے نہ پائے۔ اسلام بمقابلہ روشن خیالی میں ثانی الذکر طبقہ کے مالی حالات کافی بہتر ہیں کیونکہ ان کیلئے مغربی دنیا سے ملنے والے کفافوں یا این جی اوز میں بڑے ماہانہ مشاہروں پر ملنے والی نوکریوں کی صورت میں امداد کی وجہ سے راوی نے چین ہی چین لکھا ہے۔ اس صورتحال کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے رمضان المبارک کی آمد پر ایک غیر ضروری بحث چل پڑتی ہے۔ لبرل یا اپنے آپ کو سیکولر کہنے والے حضرات (اور خواتین) اس بات پر نوحہ کرتے نظر آتے ہیں کہ رجعت پسندی کی وجہ سے اب ’’رمضان‘‘ کو ’’رمادان‘‘ میں بدل دیا گیا ہے- ماضی قریب میں کچھ روشن خیالوں نے اخبارات کے ذریعہ اس بڑھتی ہوئی ’’عربائزیشن‘‘ پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ اس بحث میں ہر طرف سے طعن و تشنیع اور طنز و استہزا کا وہ رن پڑتا ہے کہ الامان و والحفیظ۔ اس صورتحال میں دین دار کہلانے والے اگر تھوڑا صبر اور برداشت سے کام لیں تو یقیناً رمضان المبارک کی روحانی کیفیات اور اسکی برکتوں میں اضافہ بھی ہوگا- ابھی پہلی رمضان کو تلفظ کی اس بحث کے بارے میں میں نے بھی خوشہ چینی کرتے ہوئے لکھا: ’’رمضان، رامادان‘‘ رمجان یا کشمیری میں کہلایا جانے والا ماہ صیام ایک ہی چیز ہے جس پر شاید بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کو اپنے مقدور اور عبادتوں کے مطابق ثواب مل جائیں گے‘‘- میرا یہ کہنا ہی تھا کہ کئی لوگوں کی طرف سے احتراز آیا کہ اصل تو رامادان ہی ہے اور یہی کہنا بہتر اور واجب ہے۔ ذرائع آمد و رفت اور ابلاغ کی وجہ سے جہاں ایک طرف مغربی تہذیب پوری دنیا پر چھا گئی ہے وہیں مذہب اور مذہبی اصطلاحات کے اصل تلفظ کے حوالے سے بھی چند لوگوں میں خواہش پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ والدین جہاں اپنے بچوں کو انگریزی کا صحیح تلفظ سکھانے کیلئے طرح طرح کی مہنگی اکیڈمیوں میں داخل کرتے ہیں وہیں اگر کچھ لوگ صحیح عربی سیکھنے اور بولنے کی کوشش کریں تو اسکو مذہبی شدت پسندی پر محمول کرنا بڑی زیادتی ہے۔ رمضان اور رامادان کا فرق میں نے پہلی بار یورپ میں سیکھا۔ اسی طرح نماز اور صلوات کا تفاوت بھی یہیں سمجھ میں آیا مگر جو بات یورپ کو پاکستان یا بھارت کے معاشرے سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے وہ یہ ہے ان باتوں پر کوئی خاص بحث نہیں ہوتی- خود دیندار حلقوں میں تراویح کے حوالے سے بیس اور آٹھ رکعتوں کی بحث بڑھ جاتی ہے جو کسی بھی صورت فائدہ مند نہیں۔ میرے بچپن میں کشمیر میں اس قسم کا کوئی معاملہ نہیں تھا مگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو یہ بحث سنی۔ ان مباحث کی بنیاد پر دیکھا جائے تو یورپ کی مساجد میں تراویح کے حوالے سے انتظام و انصرام میں کافی بہتری آئی ہے۔ ابھی چند دن پہلے برطانیہ سے کسی دوست کیطرف سے ایک مسجد کے پارکنگ لاٹ کی تصویر شیئر کی گئی جہاں واضح الفاظ میں آٹھ اور بیس رکعتیں پڑھنے والوں کیلئے الگ الگ پارکنگ کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس سے نظم و ضبط میں کافی بہتری کی امید ہے اور رمضان میں شیطان کی بندش کیوجہ سے لوگوں کے جو پارے چڑھے ہوتے ہیں انکو ضبط میں رکھنے میں بھی مدد ہوگی۔
ماہ مبارک کے آتے ہی مہنگائی کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے اس سے واقعی عبرت ہی حاصل کی جاسکتی ہے- پہلے روز ہی کھجور تیس فیصد مہنگے ہوگئے۔ ایک خبر کے ذریعے یہ بھی پتہ چلا کہ پاکستانی زیادہ تر غیر ملکی کھجوریں پسند کرنے لگے ہیں حالانکہ کئی مقامی اقسام بے انتہا لذیذ اور مقوی ہوتی ہیں۔ ان میں تربت کی بیگم جنگی،سکھر کی اصیل اور پنجگور کی مضافاتی عالی شان ہیں۔ کھجور کے ساتھ ساتھ پھل اور سبزیاں بھی اسقدر مہنگی ہوئی جاتی ہیں کہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوجاتی ہیں جس سے رمضان میں انکی مشکلات کافی بڑھ جاتی ہیں۔ چکن کے ریٹ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اگر جان کی امان پاؤں اور یار دوست اس سے کوئی سیاسی قسم کا مطلب نہ نکال دیں تو اسکو چکن شریف کا خطاب دیدنا چاہوں گا- رمضان سے ایک دن پہلے چکن کا ریٹ تین سو بیس روپے فی کلو دیکھا تو صدمہ سا ہوگیا۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ شیطان اس مبارک مہینے میں اب گھات لگاکر حملے کرنے کا ماہر بن گیا ہے اور لوگ بےبسی کے عالم میں کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔
پس نوشت
ریاست جموں و کشمیر میں ابتداء سے ہی روزہ اور عید کا تعین پاکستانی تقویم کے مطابق ہوتا ہے۔ پاکستان میں چاند نہ دیکھے جانے کی صورت میں نئی دہلی سے رویت ہلال کے کتنے ہی اعلانات کیوں نہ ہوں کشمیری پاکستانی اعلان کا ہی انتظار کریں گے اور پشاور کے مفتی پوپلزئی صاحب کی طرح اپنے طور سے الگ رمضان اور عید منائیں گے۔ اسکے باوجود کشمیر میں ایک عدد مفتی اعظم بھی موجود ہیں بلکہ اب تو انکے جواں سال فرزند کے میدان میں آنے کے بعد وہ دو ہوگئے ہیں جو بغیر کسی منطق اور وجہ کے چاند کی رویت کا اعلان فرماتے ہیں۔ کشمیر کے سب مشہور اور پرانے سیاسی کارٹونسٹ بشیر احمد بشیر نے اپنے حالیہ کار ٹون میں مفتی اعظم کو پی ٹی وی کی طرف منہ کرکے دکھایا ہے جس پر وہ رویت ہلال کا اعلان سنکر پھر اسے سرکاری ٹی وی دوردرشن پر دہراتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں جب ٹیلی ویژن کم قلیل ہی ہوتے تھے لوگ پاکستانی ریڈیو سے کان لگائے رہتے تھے۔ بشیر صاحب نے اس زمانے میں اسی طرح کے ایک کارٹون میں مفتی صاحب کو ریڈیو پاکستان سے خفیہ طور استفادہ کرتے ہوئے پھر ریڈیو کشمیر سے چاند دیکھے جانے کا اعلان کرتے ہوئے دکھایا تھا۔ اسی حوالے سے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر ایک معنی خیز پوسٹ لکھی: ’’کشمیریوں نے پاکستان میں رمضان کا چاند دیکھ لیا‘‘۔ کئی سال پہلے میں نے نہ جانے کیا سوچ کر یہ شعر لکھا تھا:
وصل کا رمضان شاید آگیا
آپ نے باتوں کے روزے رکھ لئے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین