اسلام آباد( محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) یہ امر خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف نے اقتدار ملنے کی صورت میں اپنے اولین ایک سو دنوں میں جن ارادوں کااعلان کیا ہے وہ موجودہ حکومت کی معاشی اور اقتصادی حکمت عملی کو برقرار رکھنے اور انہیں آگے بڑھانے پر مبنی ہیں، یہ یقین دہانیاں کم و بیش ان عزائم سے صدفیصد مطابقت رکھتی ہیں جن کا رواں پانچ سال کے دوران حکومتی کارپرداز وقتاً فوقتاً اعلان کرتے آئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ماہ رواں کے اوائل میں لاہور کے مینار پاکستان کے اپنے جلسہ عام میں گیارہ نکات کا اعلان کیاتھا بعد ازاں اس سے ملتی جلتی تقریر کراچی والوں کیلئے انہوں نے کراچی میں بھی کی تھی ہر چند یہ نکات بظاہر نصابی کتابوں سے اخذ کردہ معلوم ہوتے ہیں تاہم وعدے وعید کرنے اور یقین دہانیوں کے سلسلے میں غلو سے کام لیا گیا ہے تاکہ اعلانات جاذب نظر ہوں اور رائے دہندگان کیلئے باعث کشش ہوں۔ ان دنوں تحریک انصاف اور خان جس سرشاری میں مبتلا ہیں وہ تقریباً تقریباً 2013 میں ان کی سرگرمیوں سے پورے طورپر مشابہہ ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ 2013 کے اوائل میں لندن میں اپنے سسرالیوں اور بیٹوں کو یہ ’’نوید‘‘ سنا آئے تھے کہ اب ان سے آئندہ ملاقات پرائم منسٹر ہاوس اسلام آباد میں ہوگی۔ جمہوریت میں تسلسل ہوتو سیاسی جماعتیں انتخابات سے پہلے اپنی کارکردگی سے رائے دہندگان کو آگاہ کرتی ہیں جو انکے آئندہ وعدوں کیلئے بنیاد کا کام دیتی ہے اس طرح پہلے حکومت کا جزوی یا کلی طور پر حصہ دار رہی جماعتیں اپنی کارکردگی بیان کرتی ہیں اور پھر وعدوں کی جانب آتی ہیں، بد قسمتی سے تحریک انصاف نے پانچ سال تک اپنے حیطہ کار میں آئے صوبے کی بہتری پر توجہ دینے سے کہیں زیادہ وفاقی حکومت کی برائیاں بیان کرنے اوراس کے عہدیداروں پر جھوٹے سچے الزامات عائد کرنے پر صرف کئے، کیا ہی بہتر ہوکہ اب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے شہ دماغ قومی پیمانے پر نشر ہونے والے ٹیلی ویژن پروگراموں میں پوری سنجیدگی سے مباحثہ کریں جس میں ان جماعتوں کے ارادوں اور کارکردگی کے بارے میں غیر جذباتی انداز میں بحث و تمحیص ہو اور رائے دہندگان پر حالات کی تصویر درست طور پر آشکارا ہوسکے۔ تحریک انصاف نے جن ترجیحات کو اپنے لئے متعین کیا ہے شاید اس سے بہتر نصب العین جماعت اسلامی اپنے ہر انتخابی منشور میں شامل کرتی آئی ہے ایسے میں رائے دہندگان کے سامنے سوال ابھرتا ہے کہ دعوے کرنے والا اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنچانے کی کس قدر صلاحیت رکھتا ہے اور قبل ازیں اسے جب بھی موقع ملا وہ اپنے پیرو کاروں کی توقعات پر کیونکر پورا اترا تھا۔ سیاست میں تجزیے بڑی بے رحمی سے کئے جاتے ہیں کامیابی کیلئے امیدوں کا تناسب ہوتا ہے اگر کامیابی نہ ملے تو پھر کیا لائحہ عمل ہوگا اس بارے میں بھی عوام کو سنجیدہ سیاسی جماعتوں سے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھی اشارہ دیں گی۔ ان دنوں تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کی رفتار میں تیزی لائی گئی ہے یہ عمل عام انتخابات سے محض چند ہفتے قبل شروع کردیاگیا ہے۔ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے تحریک انصاف میں لوگ شامل ہورہے تھے اور وہ سلسلہ اکتوبر 2011 سے شروع تھا جب خان نے لاہور میں بڑا جلسہ منعقد کرکے توجہ حاصل کی تھی ، تحریک انصاف کی قیادت نے سودن کا ایجنڈا پیش کرکے درست طورپر مغربی جمہوری سیاسی جماعتوں کی نقالی کی ہے لیکن ایجنڈا پیش کرتے ہوئے بھی وہ اپنے مخالفین کو دشنام دینا نہیں بھولی جو پختہ کار قیادت اور جماعتوں کا وتیرہ نہیں ہوسکتا، نیب نے پاکستان مسلم لیگ نون کے تاحیات قائد اورسبکدوش وزیراعظم نواز شریف کیلئے ایک کے بعد دوسری ’’مصروفیت‘‘ ڈھونڈ نکال رکھی ہے اب انہیں لاہور کے نواح میں ایک سڑک کو کشادہ کرانے کی پاداش میں طلب کرلیا ہے یہ سڑک کم و بیش بیس سال پہلے تعمیر ہوئی تھی اگرنوازشریف کو سڑکیں تعمیر کرنے پر نیب نے ’’یاد‘‘ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو وہ آئندہ ڈیڑھ دو سوسال تک نیب کے دفاتر کے چکر لگاتے رہیں گے۔ لاہور کی اس سڑک پر نوٹس نے نواب کالا باغ مرحوم کی حکومت میں ساٹھ کے عشرے میں چوہدری شجاعت حسین کے مرحوم والد چوہدری ظہورالٰہی کیخلاف بھینس چوری کے مقدمے کی یاد تازہ کردی ہے جو بادی النظر میں فوجداری تھا لیکن اصلاًمقدمہ سیاسی تھا بات نہ بنی تو ہوسکتا ہے کہ نواز شریف بھی کسی دوسرے جانور کی چوری کے مقدمے میں دھر لئے جائیں۔