اسلام آباد (صالح ظافر) معاملہ ہندی فلموں کے اسکرپٹ کی طرح لگتا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے بیٹے عثمان درانی کو مئی 2015ء میں ممبئی میں گرفتار کیا گیا تھا، اسے کامیابی کے ساتھ بھارتی ایجنسی را نے بازیاب کرایا اور واپس پاکستان بھیجا۔ اس بات کا انکشاف حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’دی اسپائی کرانیکلز‘‘ میں کیا گیا ہے، یہ کتاب جنرل اسد درانی اور بھارتی را کے سابق چیف اے ایس دولت نے مشترکہ طور پر تحریر کی ہے۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2015ء میں جنرل درانی کے بیٹے عثمان درانی جرمن کمپنی کے کام کے سلسلے میں بھارتی شہر کوچی پہنچے۔ عثمان جس شہر سے یہاں داخل ہوئے تھے انہیں وہیں سے واپس جانا تھا لیکن ان کی کمپنی نے ممبئی سے ان کی فلائٹ کی بکنگ کی۔ انہیں ممبئی میں حکام نے روکا اور اس کے بعد 24؍ گھنٹوں تک انہیں ویزا کی خلاف ورزی کے باوجود بھارت سے باہر نکالنے کے راستے تلاش کیے جاتے رہے۔ درانی نے اس کتاب میں بتایا ہے کہہم افراتفری کا شکار تھے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب کیا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ممبئی اسپیشل برانچ کے لوگوں نے عثمان سے یہ نہیں کہا کہ تمہارے پاس بامبے کا ویزا نہیں ہے، تم یہاں کیا کر رہے ہو، پکڑو ، اندر کرو اسے۔ ایسا ہو سکتا تھا لیکن نہیں ہوا۔ اس تمام عرصہ کے دوران میری بیوی اور میں ایک اور پریشانی میں مبتلا تھے کہ کیا ہوگا اگر کسی نے یہ بات ظاہر کر دی کہ سابق آئی ایس آئی چیف کا بیٹا ممبئی میں گھوم رہا ہے، حالانکہ ممبئی والوں کے ذہنوں میں 26/11 کے واقعے کی یاد تازہ تھی۔ جب درانی کو معلوم ہوا کہ عثمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو انہوں نے دولت سے رابطہ کیا، دولت نے را چیف راجیندر کھنّہ سمیت کئی لوگوں سے رابطہ کیا۔ لیکن معاملات ٹھیک ہوگئے اور عثمان کو ایک دن بعد واپس جرمنی جانے دیا گیا۔ دولت کا کہنا تھا کہ اہم موقع وہ تھا جب میں نے کھنّہ سے رابطہ کرکے ان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے درانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو ہمارا فرض تھا کیونکہ آخر تو وہ ہمارے ساتھی ہی ہیں۔ اتوار کو دی نیوز سے مختصر بات چیت میں جنرل (ر) درانی نے اس واقعے کی تصدیق کی اور کہا کہ کتاب جلد پاکستان میں دستیاب ہوگی۔ کتاب میں آزاد کشمیر میں بھارت کی نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، نواز شریف، حافظ محمد سعید، مظفر وانی اور دیگر موضوعات پر بات کی گئی ہے۔ کتاب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ سابق بھارتی را چیف نے ملک کی قیادت کو یاد دہانی کرائی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پہلے بات کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی مہینوں کے تعطل کے بعد پاکستان اور بھارت نے 28 سے 30؍ اپریل کے دوران ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی شروعات ک اگرچہ سرکاری سطح پر اس بات پر اصرار کیا گیا کہ اس طرح کے غیر رسمی مذاکرات سے بھارتی موقف میں تبدیلی نہیں آئے گی کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے لیکن ایک سینئر بیوروکریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس طرح کے مذاکرات حکومت کی آشیرباد کے سوا نہیں ہوسکتے۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو عمومی طور پر نیمرانا ڈائیلاگ کہا جاتا ہے۔ ان کے حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان فعال مذاکرات کا تبادلہ ہوتا رہا ہے اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان عمومی مذاکرات کا تسلسل ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پاکستانی رکن پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ہونے والے مذاکرات بھارت کی طرف سے یہ جاننے کی کوشش تھی کہ ممکنہ طور پر پاکستان میں جولائی میں الیکشن کے بعد مذاکرات بحال ہو سکتے ہیں یا نہیں۔