• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بطورسیاستدان عمران خان موجودہ پوزیشن کیلئے کافی سفر طے کرچکے ہیں، عام انتخابات میں فتح کودیکھتےہوئے اگر پی ٹی آئی اقتدار میں آتی ہے تو الکشن سے تقریباً ڈھائی ماہ قبل انھوں نےبطور وزیراعظم پہلے 100روزہ منصوبے کااعلان کردیاہے۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانےکیلئےان کی پارٹی کوکم از کم 120سے130 نشستیں جیتنا پڑےگا۔ اس بار ایک تبدیل شدہ حکمت عملی کے ساتھ خاص طورپرپنجاب میں پی ایم ایل(ن) اور پی پی پی کے امیدواروں کے ساتھ کیا وہ ایساکرسکتےہیں۔ جب پی ٹی آئی آئندہ ماہ مکمل منشور کا اعلان کرےگی ، ان کا 100روزہ منصوبہ اگرچہ قبل ازوقت ہےلیکن ایک ایسے وقت میں پاکستان مسلم لیگ(ن) پردبائوڈالنے کیلئےکافی ہےجب حکمران جماعت آئندہ الیکشن سے قبل ایک ’مشترکہ بیانیے‘کیلئےجدوجہد کررہی ہے۔ 2013کے برعکس عمران اور پی ٹی آئی کو 2018کے انتخابات میں فائدہ ہے۔ پی ایم ایل(ن) نےگزشتہ انتخا با ت میں پنجاب میں فتح حاصل کی کیونکہ پی پی پی اقتدارمیں تھی اور ان کی بری گورننس پی ایم ایل(ن) کے فائدے میں گئی جبکہ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت قدرے بہتر تھی۔ 2018میں ووٹرزکو10سال کے دوران پی پی پی اورپی ایم ایل (ن) کی حکومتوں کےدرمیان فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی، یا پھرایک خیبرپختونخوا کارکردگی کےساتھ تسرامتبادل بھی ہےجہاں زیادہ تر سروے کارکردگی کے باعث پی ٹی آئی کے حق میں ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو نواز شریف کے نااہل ہونے سے اور پانامہ لیکس کےبعدکی صورتحال سےہوا۔ جب ماہرین ان کے 100روز پر گفتگواوربحث کریں گےتو یہ تجزیہ کرنا اور جانچنا آسان ہوگا کہ پی ٹی آئی پنجاب میں کیسے اپ سیٹ کرےگی، جہاں 2013کے انتخابات یا گزشتہ بلدیاتی انتخابات یا ضمنی انتخابات اورسابق وزیراعظم نواز شریف کے نااہل ہونےکےبعداچھی کارکردگی نہیں دکھائی۔ عمران، پی ٹی آئی اور حتیٰ کہ پی ایم ایل(ن) کے چند رہنماوں کا مانناہےکہ ممبئی حملوں سےمتعلق اور اسٹیبلشمنٹ مخالف نوازشریف کےیکے بعد دیگرے بیانات سے پی ایم ایل (ن) کو نقصان پہنچنے کااندیشہ ہے۔ نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور ان کے داماد کیپٹن(ر)صفدرکےخلاف کرپشن کیس میں نیب عدالت کے فیصلے کےبعدعمران کوپی ایم ایل(ن) میں مزید پھوٹ پڑنےکی امیدہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین اور ان کی پنجاب کی ٹیم نے پنجاب میں فتح کیلئے تین نکاتی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ پی ٹی آئی کو پنجاب میں 60سے70نشستوں کی ضرورت ہے۔ (1) پنجاب میں ایسےامیدوارتلاش کیے جائیں جو سیاسی وابستگی سے قطع نظرروایتی طورپراپنی سیٹیں جیتتےہیں۔ ابتدائی طورپر عمران اس کی حمایت میں نہیں تھے لیکن بلدیاتی انتخابات اور ضمنی الیکشن میں یکے بعد دیگرے شکستوں نے انھیں جہانگیر ترین، چوہدری سرور اور علیم خان جیسے لوگوں کا بیانیہ ماننےپرمجبور کردیا۔ لہذا پی ٹی آئی میں اب 15سے20 فیصد ایسے امیدوار ہیں اور مزید آنے کی امید ہے۔ (2) شریف برادران اور پی ایم ایل (ن) پر جارحانہ حملےجاری رکھےجائیں۔ 2014کادھرنا اسی حکمت عملی کا حصہ تھا اور اگرچہ عمران کافی پُرامید تھے کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کےبعدنئےانتخابات ہوجائیں گے لیکن مایوسی کے باجود انھوں نے دبائو برقراررکھا۔ (3) نیوٹرل ووٹ حاصل کیے جائیں، نئے ووٹربنائے جائیں اور اس طریقہ کار میں عملی طور پرپنجاب سے پی پی پی غائب ہوگئی جس کا زیادہ تر ووٹ بینک اب پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ پہلے نکتے کاآئندہ الیکشن میں اہم کردارہوگاکیونکہ کے پی کے میں فتح کے باوجود بلو چستا ن میں اس کا انحصار آزاد امیدواروں پر ہوگا اور سندھ میں بھی چند ایسے ہی ہوں گے۔ لہذا عمران کو پنجاب میں مکمل فتح کی ضرورت ہے اور پہلے قدم میں انھوں نے جنوبی پنجاب میں شریفوں کو بڑی کامیابی سے حیران کردیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے فیصل آباد،جھنگ اور سیالکوٹ میں بھی پی ایم ایل(ن) کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ شریفوں کے گڑھ لاہور میں بھی ان کی پوزیشن بہتر ہونے سے ان کااعتماد بڑھ رہاہے۔ تاہم شریف برادران کی جانب سے کی جانے والی غلطیوں پر بہت کچھ منحصر ہے اس کے باعث عمران خان کو فائدہ ہوسکتا ہے جیسا کہ ممبئی حملوں کے بارے میں دیئے گئے بیان کے باعث ہوا۔ نواز شریف کا عدلیہ مخالف بیانیہ اوران کے انٹرو یو کےبعد ان کا مزید جارحانہ انداز کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن الیکشن 2018جیتنے کی حکمت عملی نہیں ہوسکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپریل 2016میں پانامہ آنے سے قبل دھرنے اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد پی ایم ایل (ن) مضبوط ہوگئی تھی۔ شریف برادران اور ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت نےپانامہ کے ممکنہ نقصان کا غلط اندازہ لگایا۔ جب سندھ میں کارروائیوں کے باعث آّصف زرداری نے نواز شریف کے ساتھ تعلقات ختم کیے تو چندماہ بعد یہ لیکس ہوئیں۔ نواز شریف کی جانب سے پانامہ معاملے کےساتھ غلط طریقے سےنمٹنے کے باعچ پی ٹی آئی کےپست حوصلہ لوگوں کو نئی زندگی ملی، جوالیکشن میں ہار رہے تھے۔ پی ایم ایل (ن) اور نواز شریف نے ایک کے بعد ایک کئی غلطیاں کیں اور پانامہ کافیصلہ پارلیمنٹ میں کرنے کےپی پی پی اوردیگرپارٹیوں کےمشورےپرکان نہ دھرے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں یہ بحران کی ابتداتھی۔ ایسے میں سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا نام نواز شریف کے فیصلے کی مخالفت کرنے والوں میں نمایاں طورپرسامنے آیا۔ یہ سب پی ٹی آئی اور عمران خان کیلئے بہت اچھا ثابت ہوا۔ خود کا دفاع کرنےکیلئے پی ایم ایل (ن) اور نواز شریف کی جانب سے پیدا کردہ ماحول بھی عمران خان کی حمایت میں گیا۔ لیکن نواز شریف کیلئے سب ختم نہیں ہوا تھا اور لاہور میں ان کی نااہلیت کے بعد ان کی اہلیہ کلثوم نوازکی خراب صحت کے باوجود ان کی جیت انھیں دوبارہ ہمت دلانےکیلئے کافی تھی۔ بعد میں عمران کو ایک اور جھٹکا لگا جب ان کے قابلِ اعتماد ساتھی جہانگیر ترین کو نااہل قراردے دیاگیا اور پی ٹی آئی وہ سیٹ پی ایم ایل(ن) کے امیدوار کے سامنے ہار گئی۔ عمران خان ایک قریبی ساتھی اور بڑے پارٹی رہنمانے اتوار نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرمجھےبتایاکہ پی ٹی آئی نے یقیناًاپنی حکمت عملی بدل لی ہےلیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہ سب جنھوں نے حال ہی میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے ان سب کو ٹکٹ بھی مل جائے گا۔ یہ 70-30 یا 60-40کا فارمولا ہوگا۔ عمران خان کی مشہور کہاوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ’ میں بڑے مقصد کیلئے اپنے اصولو ں پر سمجھوتا کرسکتاہوں لیکن اپنے بنیادی اصول پر سمجھوتا نہیں کرسکتا‘‘، پی ٹی آئی رہنما نے کہاکہ عمران خان پنجاب میں پرانےپی ٹی آئی رہنماوں کو مایوس نہیں کریں گے لیکن بعض اوقات اگر آپ کو جیتنا ہوتا ہے تو آپ کو اہل امیدواروں پر غور کرنا ہوتا ہے۔ عمران جانتے ہیں کہ پی ایم ایل(ن) کے ساتھ جنگ ختم نہیں ہوئی اور وہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ایک بڑا چیلجنرمانتے ہیں اور انھیں پنجاب کوپی ایم ایل (ن) کاگڑھ سمجھنے والی کہانی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ گزشتہ 10ماہ کی سیاسی پش رفت نے انھیں جیت کیلئے کافی پرامید کردیاہے اس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلیت نیب کیس کا متوقع فیصلہ بھی شامل ہے۔ اگر عید سے پہلے نواز شریف کے خلاف فیصلہ آگیااوراگر انھیں مجرم قراردے دیاگیا تو تو پی ایم ایل(ن) کے عوامی جلسوں میں ردِ عمل کا انتظار کرنا ہوگا۔ تاحال انھوں نے متنازع بیان کے بعد پنجاب میں کسی عوامی جلسے سے خطاب نہیں کیا اورپہلے صرف مردان میں ہی انھیں اچھا ردعمل دیکھنے کوملاتھا۔ نواز شریف اپنے بھائی اور پی ایم ایل کے صدرشہبازشریف کیلئے ایک مشکل کام چھوڑ کر جارہے ہیں، ان کی مہم پنجاب میں ان کےدورِ اقتدار کے دوران ہونے والی ترقی پرمبنی ہوگی۔

تازہ ترین