• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:… ایم آئی احمد
جب بھی کوئی ترقی پذیر ملک مالی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے نقصانات کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے ممالک مالی مسائل سے تنگ آ کر آئی ایم ایف یا دیگر ذرائع سے مزید قرض حاصل کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر جلد ہی مالیاتی اصلاحات کے نام پر کئی اشیائے ضروریہ پر ٹیکس بھی عائد کر دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک ایشیائی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کچھ زیادہ ہی اضافہ کر دیا گیا کیونکہ قرض کی قسطوں کی ادائیگی کا معاملہ بھی درپیش تھا۔ اس طرح مہنگائی بھی بڑھ گئی۔ اب وہاں یہ ہوگا کہبرآمداتکی لاگت بڑھے گی۔ ایسے ترقی پذیر ممالک میں عموماً برآمدی مالیت کم اوردرآمدیمالیت زیادہ اور کہیں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے جیسا کہ پاکستان کیدرآمدیمالیت اببرآمداتسے دگنی ہوتی چلی جا رہی ہے لہٰذا رواں مالی سال کے 10 ماہ کے لئے جو ہدف برائے تجارتی خسارہ مقرر کیا گیا تھا وہ ہدف سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں شماریات کے پش کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اپریل 2018 کے دوران تجارتی خسارہ 30 ارب 21 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز رہا جبکہ اس کا ہدف 29 ارب 20 کروڑ ڈالرز مقرر کیا گیا تھا۔ ان 10 ماہ کے دوران 16 ارب ڈالرز کی ترسیلات زر بھی رہیں۔ جو گزشتہ مالی سال کے 10 ماہ کے مقابلے میں 3 فیصد ہی زیادہ رہا لیکن اس دوران برآمدات میں انحطاط کا سلسلہ ٹوٹکررہااور چند سالوں بعدبرآمدات میں اضافے کو قدرے بہتر کہہ سکتے ہیں۔ پی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2017 تا اپریل 2018 کی برآمدات19 ارب 20 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی رہیں۔ اگر اس کاموزانہ گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے سے کیا جائے تو کل برآمدی مالیت 16 ارب 89 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز کے ساتھ 2 ارب 29 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا اضافہ، ان حالات میں جبکہ دیگر حالات بدستور موجود ہیں کہ توانائی کا مسئلہ بھی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے، بجلی کی قیمت بھی قدرے زیادہ ہے لہٰذا برآمدات میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوا تو ہے۔ بلحاظ ڈالر یہ اضافہ 13.65 فیصد بتایا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران ڈالر کی قیمت بڑھی ہے روپے کی قدر گھٹنے کے باعث بلحاظ روپیہ برآمدات میں اضافہ 17.91 فیصد نوٹ کیا گیا۔ بلحاظ روپیہ برآمدات کی مالیت یہ بنتی ہے کہ رواں مالی سال کے ان 10 ماہ کے دوران پاکستانی برآمدات بلحاظ روپیہ 20 کھرب 85 ارب 55 کروڑ 40 لاکھ روپے رہی جبکہ گزشتہ مالی سال کے جولائی 2016 تا اپریل 2017 کی برآمدی مالیت بلحاظ پاکستانی کرنسی 17 کھرب 68 ارب 74 کروڑ 50 لاکھ روپے بنتی ہے۔ پاکستانی معیشت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہبرآمداتکے مقابلے میں درآمدات دگنی سے کہیں بہت ہی زیادہ ہونے کا ریکارڈ مسلسل چلا آرہا ہے۔ حالانکہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت حد سے زیادہ گر چکی تھی۔ جب بھی یہ ریکارڈ قائم رہا لیکن ابدرآمدات میں اس سے بھی زیادہ ہونے کے امکانات ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ سی پیک کے باعث درآمدات بڑھ رہی ہیں اور اب تو تیل کی قیمت بھی عالمی مارکیٹ میں بڑھ رہی ہے۔ بہرحال رواں مالی سال کے 10ماہ کے دوران پاکستان کی کل درآمدات49 ارب 41 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کی رہیں۔ جبکہ کل برآمدی مالیت جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ 19 ارب 20 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی ہونے کے باعث بیلنس آف ٹریڈ منفی رہا یعنی تجارتی خسارہ 30 ارب 21 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز اور بلحاظ پاکستانی روپے میں 32 کھرب 76 ارب 35 کروڑ 80 لاکھ روپے کا خسارہ ہوا۔ اب مالی سال جو کہ 30 جون کو ختم ہو رہا ہے خسارہ مزید بڑھے گا۔ رواں مالی سال کا تجارتی خسارہ بلحاظ ڈالر 14.30 فیصد نوٹ کیا گیا اور بلحاظ پاکستانی کرنسی 18.38 فیصد بتایا جاتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ ایک طرف بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ دوسری طرف مزید قرض کا حصول، اس طرح معیت مشکل ترین صورتحال میں آ جاتی ہے۔بالآخرحکومت کے مالی مسائل کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے جس کا معاشی حل نکالنا ضروری ہے۔
تازہ ترین