• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات میں تقریباً دوماہ باقی رہ گئے ہیں لیکن کوئی بھی دوسری سیاسی پارٹی ابھی تک اپناانتخابی منشور عوام کے سامنے پیش نہیں کرسکی جبکہ تحریک انصاف نے الیکشن جیتنے کی صورت میں اپنی حکومت کے پہلے سودن کے 6نکاتی پروگرام کابھی اعلان کردیا ہے اوراس معاملے میں اپنے سیاسی حریفوںپرسبقت حاصل کرلی ہے۔پروگرام کی ترجیحات میں طرز حکومت کی تبدیلی، معیشت کی بحالی، زرعی ترقی،پانی کے تحفظ، سماجی خدمات میں انقلاب اورقومی سلامتی کی ضمانت شامل ہیں۔اور انہیں ایک ریٹائرڈ سینئر بیوروکریٹ کی زیرقیادت پارٹی کے پالیسی یونٹ نے تیارکیاہے۔ مجوزہ 6نکاتی ایجنڈے کااعلان پارٹی کے سربراہ عمران خان نےایک تقریب میں کیا۔انہوں نے دوسری اصلاحات کے علاوہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی مملکت بنانے، موجودہ ریاستی پالیسیاں تبدیل کرنے ، بیورو کریسی کوسیاست سے پاک کرنے اوراداروں میں میرٹ لانے کابھی وعدہ کیا۔ تقریب میں پارٹی کے دوسرے لیڈروں نے بھی تقریریں کیں اور کئی اعلانات کئے مثلاًفاٹاکو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے گا۔جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے گا۔ایک کروڑ نئی نوکریاں دی جائیں گی۔ 60لاکھ سستے گھر بناکردیئے جائیںگے۔ایک ارب درخت لگائے جائیں گے۔خارجہ پالیسی میں اصلاحات لائی جائیں گی۔بجلی اورگیس کی قیمتیں اورٹیکس کم کئے جائیںگے۔انکم سپورٹ پروگرام کو54لاکھ سے بڑھا کر80لاکھ خاندانوں تک وسیع کیاجائے گا۔زرعی ایمرجنسی لگائی جائے گی۔مشرقی اورمغربی ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لئے ٹھوس کلیہ اپنایاجائے گا۔پاکستان اسٹیل اورپی آئی اے کوٹھیک کرکے دکھایاجائےگا۔عمران خان کاکہنا تھا کہ اس پلان پرہرصورت عمل کیاجائے گا خواہ ان کی حکومت ہی کیوں نہ چلی جائے۔مغربی ممالک میں عام طور پر لیڈر الیکشن جیت کر حلف اٹھانے کے بعد اپنی حکومت کے سوروزہ پروگرام کااعلان کیاکرتے ہیں مگر عمران خان نے الیکشن شیڈول کے اعلان سے بھی پہلےاپنا ایجنڈا ظاہر کردیا ہے جودرحقیقت سوروزہ پروگرام سے زیادہ پانچ سالہ پلان اورجامع انتخابی منشور ہے۔انتخابات کاانعقاد اب زیادہ دور نہیں اس لئے مناسب ہوگا کہ دوسری سیاسی پارٹیاں بھی عوام کو بتائیں کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں وہ ملک اور قوم کےلئے بہتری کے کیا منصوبے رکھتی ہیں۔تمام سیاسی پارٹیوںکے انتخابی منشور سامنے آنے سے ان پر بحث مباحثے کا در کھلے گا اور ان کی خوبیاں اور خامیاں ظاہر ہونگی۔ مہذب مغربی جمہوریتوں میں انتخابات شخصیات کے بجائے ایشوز پر لڑے جاتے ہیں تھنک ٹینکس اپنی رائے دیتے ہیں کہ کس امیدوار کا پروگرام قوم کے مستقبل کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ امیدوار اپنے پروگرام پر عملدرآمد کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ پاکستان میں بھی وقت آگیا ہے کہ شخصیات سے زیادہ ایشوزکو اہمیت دی جائے۔ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں جبکہ جن اصولوں اور مقاصد کے حصول کے لئے پارٹیاں قائم ہوتی ہیں انہیں دوام حاصل ہوتا ہے انتخابی منشور انہی کو مدنظر رکھا کر ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنا اپنا انتخابی ایجنڈا سامنے لائیں تو ان کے نکات پر بحث مباحثے کے لئے ٹاسک فورسز قائم ہونی چاہئیں اہل الرائے ان کے حسن و قبح پر غور کرکے انہیں سامنے لائیں اور عوام اپنی صوابدید استعمال کر کے قیادت کے لئے ان لوگوں کو چنیں جو ملک و قوم کی بہتری کے لئےکام کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں، ہمیں ماضی کے ڈھول پیٹتے رہنے کے بجائے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور عملی مسائل کو مدنظر رکھنا چاہئے، سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ ملک اور قوم کے حقیقی مسائل کا قابل عمل حل پیش کریں۔ محض ووٹروں کوللچانے کے لئے بلند بانگ دعوے نہ کریں کیونکہ وہ پورے نہ ہونے سے معاشرے میں مایوسی پھیلتی ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ہمارے آئندہ پانچ سال گزرے ہوئے پانچ سالوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوں گے۔ملک محفوظ و مستحکم ہو گا اور عوامی مسائل حل ہوں گے۔

تازہ ترین