• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری پاکستانی قوم خصوصاً ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو مبارک ہو ۔2008-18بالآخر ’’عشرہ جمہوریت‘‘ ثابت ہوا قطع نظر اس کے کہ کتنے ہی اعتبار سے آپ دونوں (ن لیگ اور پی پی ) کی حکومتوں نے ایک سے بڑھ کر ایک بدترین جمہوریت کی مثالیں قائم کیں۔اس کے باوجود واقعی یہ ڈیزاسٹر پر ختم ہونے والے بہترین آمرانہ دور سے بہتر ہی رہا ہے۔ایسے کہ ہر دو حکومتوں کی پالیسی لیس،مایوس کن گورننس اور پارلیمان کی بدترکارکردگی نے جمہوری عمل کو ادھورا، بیمار اور عوام مخالف ہی بنائے رکھا جس میں وہ نئے چیلنجز اور مشکلات سے دوچار ہوئےوہ ٹیکس کے بوجھ تلے دبے ہی رہے اور امیرطبقہ پھر ریل پیل میں بھی ٹیکسزسے مستثنیٰ رہا۔ ہر دو باریوں میں پاکستان کے امیر، امیر تر اور غریب ،غریب تر ہوئے۔فارن ریزروسکڑ گئے اور برآمدات زمین سے لگ گئیںکرپشن نے ملک کو دیوالیہ کر دیا اور حکومت ہی کیا قوم کی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ۔تھانہ، کچہری کلچر بدترین شکل میں قائم دائم رہا عدلیہ نے بلدیاتی نظام بحال کیا لیکن حکومتوں نے اسے فعال نہ ہونے دیا ۔
قومی معیشت عالمی اداروں کے ظالمانہ قرض پر ہی چلائی گئی صنعتیں بیمار ہی رہیں نئی قائم نہ ہوئیں امن عامہ کی صورتحال 8-7سال تو تشویشناک ہی رہی بہتر اب بھی نہیں بیروزگاری انتہا پر پہنچی ، بے نظیر انکم ٹیکس سپورٹ پروگرام، قومی بھیک پروگرام کے طور ہی پرچلتا رہا لیکن جیسی تیسی جمہوریت کا ڈنکا بجتا رہا ۔دھرنے، احتجاج، جلسے جلوس ہوتے رہے۔ پی پی بڑے ترقیاتی منصوبوں سے تو گریزاں ہی رہی تاہم کرپشن حج اسکینڈل تک پہنچ گئی۔ ادھر ن لیگ نے صحت و تعلیم کی عوامی ترجیحات و ضروریات کے یکسر برعکس غیر ملکی بینکوں قرضوں اور محکمہ جاتی بجٹ کی کٹوتیوں اور نہ جانے کہاں کہاں سے وسائل جمع کرکے بھی یہ مسلط منصوبے تادم مکمل نہ کئےاور متنازعہ اور مشکوک قرار پاتے پاتے نیب اور عدالتوں کی پکڑ میں آ گئے۔ اڑھائی کروڑ بچے آج بھی اسکولوں سے باہر معاشرے اور ماں باپ پر بوجھ ہیں حتیٰ کہ سستی روٹی اور صاف پانی کے منصوبوں کے نام پر اربوں کھا گئے ۔تھر میں بچوں کی میل نیوٹریشن، ہلاکتوں تک پہنچ گئی اور بار بار پہنچی گویا دور افتادہ علاقے مصنوعی قحط میں مبتلا کر دیئے گئےا سکول اوراسپتال اجڑ گئے شور مچا تو دوچار دکھاوے کے اقدامات کرکے ان سے فلاح کم ہو ئی، تشہیر پر اربوں بہا دیا گیا تھر ہی نہیں کراچی پانی کو ترس گیا روشنیوں کا یہ شہر کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا گیا ۔
پاکستان کی پیشہ سفارت میں اچھے نام اور کارکردگی کی وزارت خارجہ کو جان بوجھ کر عشرے کے دوسرے نصف میں مفلوج کرکے اجاڑ دیا گیا اور یہ کام دانستہ کیا گیا کہ جمہوری حکومت یہاں بھی ترقی یافتہ جمہوریتوں کی طرح مشاورت ، اشتراک اور باہمی اقدامات کے بجائے اپنی من مانی سے خارجہ اور سلامتی کے امور چلانا چاہتی تھی جبکہ تیزی سے ملکی اور خارجی بدلتی صورتحال وزارت کی تشکیل نو اور کیپسٹی بلڈنگ کا شدت سے تقاضا کر رہے تھے۔حالت یہ تھی کہ حکومت سوائے یمن کے کسی خارجی موضوع کو پارلیمان میں لانے پر تیار نہ ہوئی ۔ لائی تو قومی امنگوں کا عکاس درست فیصلہ ہوا۔امر واقع یہ ہے کہ اس عشرے میں قوم کو جمہوریت کی بدترین شکل دکھانے اور بنانے کے لئےروایتی بڑی پارلیمانی قوتوں نے ’’ووٹ کی عزت کرتے ‘‘ اپنی اپنی حکومت تشکیل تو دے لی اور دھما چوکڑی سے باریاں پوری کر لیں۔ لیکن ووٹر کی تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔ جو عوامی نمائندے عوام یا مشکوک اور بیمار نظام انتخاب نے منتخب کرکے یا جیسے تیسے پارلیمان میں بھیجے انہوں نے عوام کے بنیادی حقوق کا سودا کرکے پورا عشرہ مکمل خاموشی، پارلیمان سے بیزاری اور مقتدر خاندان سے اظہار وفا کے ساتھ اللے تللوں میں گزارا انہوں نے ہاتھ اور منہ باندھے بڑے خلوص اور وفا کے پیکر بن کر خلق خدا کے راج کی دشمن خاندانی ملوکیت کو مضبوط کرنے میں اپنا حصہ اتنا ہی ڈالا جتنی عوام سے نظریں چرائیں ۔نئی نسل لیڈر شپ کے لئے میدان میں اتری ہی تھی کہ پانامہ نازل ہوگیا۔اب خاندانوں کے اقتدار کی شمع کا شعلہ تبدیلی کی چلتی ہوا میں ڈگمگا رہا ہے یہ وہ شمعیں ہیں جن کے جلنے سے ملک میں جمہوریت کا ماضی اور حال تاریک رہا اور خاندانی سیاست کی لرزتی شمعیں اسلامی جمہوریہ میں جمہوریت کے مستقبل کے روشن ہونے کا پتہ دے رہی ہیں ۔ہمارے خالی خولی ماند پڑے خزانے کی جو چمک دمک پانچ براعظموں میں حکمرانوں کی پوشیدہ اور سرعام اثاثوں میں تبدیل ہوئی وہ ہی ناممکن احتسابی عمل کو ممکن بنانے کا اسباب بن گئی ۔
گویا ’’پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے سے شروع ہونے والا ’’عشرہ بدتر جمہوریت‘‘ اپنے اختتام پر ’’تابناک پاکستان ‘‘ کا پیغام چھوڑے جا رہا ہے ۔صرف پیغام نہیں علامتیں بھی جیسے خزاں کی انتہا سے آمد بہار ہو رہی ہے۔ عدلیہ بمطابق آئین و قانون سرگرم، احتسابی ادارے اپنے آئینی کردار میں جاری و ساری ٹاپ ڈائون احتسابی عمل سکڑتی ،سمٹتی ،بدلتی سیاسی جماعتیں جاتے آتے موسموں کی طرح نظام بد اور مطلوب تبدیلی کی آخری ہاتھا پائی ،بکری، سائیکل اور کھیتوں کے لئے پانی چوری کرنے والے تو سینکڑوں، ہزاروں چور پہلے ہی جیلوں میں ہیں یہ ایسا عشرہ گزرا دو وزراء اعظم نے قانون شکنی کی سزا پائی۔ ان کے وزراء وزارتوں سے گئے معاون بابو پکڑے گئے اور پکڑے جا رہے ہیں قوم کو پتہ چلا ہمارے حاکم ہمارے حکمران ہی نہیں یہ قریبی ملکوں میں کمپنیوں کے ملازم بھی ہیں ۔
اے عشرہ جمہوریت! تمہاری بدصورتی، تمہاری دھما چوکڑی، تمہاری مچائی گئی اقتصادی تباہی اور سیاسی انتشار نے بھی ہم پر آشکار کر دیا کہ یہ سب ہوتے ہوئے آئین و قانون کو جتنی عزت دی جائے گی اتنے ہم ووٹر سنبھلتے اور گرتے پڑتے ، لڑھکتے دم توڑ دیں گے لیکن پاکستان حقیقی جمہوریت کی طرف گامزن ہو جائے گا ۔گویا آئین و قانون کی تکریم، ووٹر کی حقیقی عزت بھی اور استحکام بھی ملکی صورتحال کے پس منظر میں میرے گھر کے تین اطراف لگے امل تاس کے درختوں پر لدے پھندے ،ہنستے کھیلتے پیلے پھولوں کی اطراف میں مسحور کن مہک پیغام دے رہی ہے کہ پاکستان کے امراض کا علاج ہوا چاہتا ہے۔
امل تاس جسے ماہرین نباتات میڈیسن ٹری کہتے ہیں جیسے خبر دے رہے ہیں کہ چترال سے کراچی و گوادر تک انتخابی امیدواروں کا کوئی ٹکٹ ہاٹ کیک بن رہا ہے۔لگ رہا ہے امل تاس کے پیلے گچھے جب ہری ہری پھلیوں میں تبدیل ہوں گے تو پاکستان بھر میں ہاٹ کیک کی خوشبو بس جائے گی اور جب ہری پھلیاں کتھئی رنگت پکڑ جائیں گی تو دوا بن جائیں گی۔
آشکار ..پہلے سو دن کے پالیسیزپر مبنی پروگرام کے تجربوں سے اندازا ہو گا کہ مفلوک ملک میں گرم کیک کی خوشبو ہی پھیلے گی جو غریبوں کو اور ترسائے گی یا اوون سے نکلا ہاٹ کیک سب میں بٹے گا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین