• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس صاحب کچھ دن کے لئے ملک سے باہر کیا تشریف لے گئے کہ ہر طرف سناٹا سا چھا گیاجیسے انصاف کا پہیہ رک گیا ہویا احتساب ہوتا نظر نہ آرہا ہو۔ کسی سرکاری افسرکی طلبی ہو رہی ہے نہ ہی کسی کی سرزنش، کسی غریب کی داد رسی تو ایک طرف ایسے محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے کوئی فریادی ہی نہ رہا ہو۔ اس سناٹے کا بڑے میاں صاحب نے کیا خوب فائدہ اٹھایا کہ آج ہر طرف ان کی جارحانہ روش کے چرچے ہیں۔ ہر فورم پر ان کی فکری کج روی کی باتیں ہیں۔ ابھی تو انہوں نے دھرنے کے کرداروں کو بے نقاب کرنا ہے۔ چھوٹے میاں صاحب آخر کب تک اورنج لائن ٹرین کی آزمائشی سروس کو رواں دواں رکھیں گے۔ وہ (ن) لیگ کی پٹڑی سے اتری ٹرین کو ایک بار پھر ٹریک پر لانے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنے مایوس اراکین پارلیمنٹ اور کارکنوں کو یقین دہانیاں کرارہے ہیں کہ یہ مشکل وقت گزر جائے گا آپ ڈٹے رہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ یہ گرین لائن ٹرین (ن لیگ) اب پٹڑی پر نہیں چڑھے گی ۔ حالات مٹھی سے ریت کی طرح نکلے جارہے ہیں۔ اب تو ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سب کچھ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ جہاں اختلافات اور مایوسیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ ن لیگ کے بہت قریب کے لوگ جنہیں وفاداروں کا نام دیا جاتا ہے وہ تو بڑے میاں صاحب کے بیانیے کے خوف سے انتخابات سے ہی دور رہنے کی سوچ رہے ہیں اور چھوٹے میاں صاحب ہیں کہ انہیں حوصلہ دیئے جارہے ہیں۔ بڑے میاں صاحب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے اور نعرے کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا ہے، ووٹ کی عزت تو درکنار یہاں جس انداز میں پاکستان اور پاکستانی قوم کی عزت دائو پر لگا دی گئی ہے اسے بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ احساس کمتری اور اقتدار کی ہوس میں اور کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ بے موقع دھرتی ماں کو ہی للکارنے لگیں۔ ایک ووٹ کی خاطر ماضی کے کامیاب تجربات کی بنیاد پر ایسے بیانیے کی کیا ضرورت پڑی تھی جو ماضی کا قصہ بن چکا ہو اور اس پر بھی متضاد آراء اور شواہد موجود ہوں۔ دنیا کہتی ہے کہ بڑے میاں صاحب ہمیشہ اندرونی و بیرونی قوتوں کے میل ملاپ سے ہی اقتدار میں آتے رہے ہیں مگربڑے میاں صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ اب ایسا ممکن نہیں۔ اب عوام بھی جاگ رہے اور قومی سلامتی کے ادارے بھی اور انصاف کی زنجیر بھی کسی حد تک ہلتی نظر آرہی ہے۔ بڑے میاں صاحب کی بوکھلاہٹ عیاں ہی نہیں زبان پر بھی آگئی ہے۔ قوم کو تو مجھے کیوں نکالا کا جواب مل گیا مگرمیاں صاحب کو ابھی بھی جواب درکار ہے۔ پہلے تو لوگ شکوک و شبہات میں تھے اب کھل کر بات کرتے ہیں ۔ اپنے راستے پر تو آپ نے پہلے ہی پہاڑ کھڑے کر لئے تھے مگر یہ جو آپ نے دوسروں کی راہ میں کانٹے بکھیرے ہیں وہ انہیں پلکوں سے چننے پڑیں گے۔ یہ بھی زبان زد عام ہے کہ اس میں بڑے میاں صاحب کا کوئی قصور نہیںبس اللہ کی پکڑ ہی ایسی ہے۔ یاد رکھئے جہاں اپنی ذات حائل ہو جائے انا شامل ہو ، بغض اور غصہ دماغ پر سوار ہو جائے تو پھر بڑوں بڑوں کی عقل پر پردہ پڑ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت سے نوازے۔ چھوٹے میاں صاحب نے ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کی صدارت کرتے ہوئے جس تدبر اور حکمت کا مظاہرہ کیا ہے وہ (ن) لیگ کی ہی نہیں پوری قوم کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب بڑے میاں صاحب کے ایک ہاتھ میں پٹرول کی بوتل اور دوسرے میں ماچس ہو تو چھوٹے میاں صاحب کے ہاتھ میں پانی کی بالٹی ہی بھلی لگے گی۔ اچھی حکمت عملی سے چھوٹے میاں صاحب ن لیگ کی ساکھ بحال کرسکتے ہیں اور ملک کو چیلنجوں سے نکالنے کے لئے بھی مثالی کردارادا کرسکتے ہیں۔ ان کے کندھوں پر تاریخ کا بھاری بوجھ آن پڑا ہے، اب یہ ان کی بساط پر منحصر ہے کہ وہ کتنا بوجھ اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں۔ اگرچہ حالات چھوٹے میاں صاحب کے حق میں اتنے اچھے نہیں ہیں۔ (ن)لیگ کے اندر ایک بڑی بغاوت جنم لے چکی ہے جسے روکنا کسی ایک کے بس کی بات نہیں۔ شریف برادران کے درمیان بیانیے کا ٹکرائو بھی پارٹی کے لئے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ پرویز رشید، چودھری نثار چپقلش عروج پر ہے۔فریقین نے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے ایک دوسرے کی موجودگی میں پارلیمانی بورڈ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا ہے۔ دھمکیاں دی جارہی ہیں، بلیک میلنگ ہو رہی ہے۔چودھری نثار علی خان کاایک مضبوط دھڑا مناسب وقت کے انتظار میں ہے کہ کب گرین سگنل ملے اور وہ علم بغاوت بلند کریں۔ یہ دھڑا صرف میاں شہباز شریف کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ کوئی واضح پالیسی لائن اختیار کریں۔ دوسری طرف بڑے میاں صاحب کی موجودگی میں ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کے بیانیہ پر خواجہ سعد رفیق اور آصف کرمانی کے درمیان تکرار نے بھی ن لیگ کے دو بڑوں اور ان کے حواریوںکے درمیان واضح خلیج پیدا کر دی ہے۔ بڑے میاں صاحب کے ممبئی حملوں بارے بیان کے اثرات امریکہ سے آنے شروع ہو چکے ہیں۔ یعنی امریکہ بہادر جس موقعے کی تلاش میں تھا سبحان اللہ وہ میاں صاحب نے فراہم کر دیا۔ امریکہ بہادر نے نواز شریف کے بیانیے کو لے کر ایک بار پھر پاکستان پر سفارتی یلغار کر دی ہے۔ اس بار یہ سفارتی حملہ پہلے سے زیادہ شدید ہوگا۔ اب بھی موقع ہے بڑے میاں صاحب اپنے بھارت نواز بیانیے پر ہاتھ جوڑ کر قوم سے معافی مانگیں، مودی سرکار کے بارے میں واضح پالیسی بیان جاری کریں۔ ہوسکے تو دو حرف کلبھوشن کے بارے میں بھی فرما دیں اور تحریک آزادی کشمیر کے شہداء کے حق میں نعرہ بلند کریں۔ اگرچہ تیر کمان سے نکل چکا ہے یہ سب تدبیریں صرف زخم پرمرہم رکھنے کی ہو رہی ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین