• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خواجہ محمد سلیمان…برمنگھم
برطانیہ میں بسنے والے کشمیری گزشتہ نصف صدی سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے برطانوی حکومت کو لابی کررہے ہیں کہ وہ بھارت پر دبائو ڈالے کہ وہ بات چیت کے ذریعے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرے لیکن برطانیہ کی ہر حکومت نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ یہ پاکستان اور انڈیا دونوں ملک اس مسئلہ کو حل کریں۔ اب یہ موقف بھارت کے حق میں جاتا ہے کیونکہ اس طرح انٹر نیشنل سطح پر بھارت پر کوئی دبائو نہیں، وہ تو کشمیر کے بہت بڑے حصے پر غیر قانونی قابض ہے، اس کو اس مسئلہ سے یہی دلچسپی ہے کہ اپنا قبضہ جاری رکھے، ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابسطہ کرچکے ہیں اور وہ پاکستان سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے لیے حمایت حاصل کرسکیں گے، لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا، حال ہی میں لندن میں کامن ویلتھ کانفرنس ہوئی ہے لیکن اس اہم پلیٹ فورم پر یہ مسئلہ اٹھایا نہیں گیا، لندن میں18اپریل کو برطانیہ میں رہنے والے کشمیریوں اور ان کے حمایتوں نے مظاہرہ کیا۔ لوٹن سے ریاض بٹ صاحب نے اس مظاہرہ کے کمزور پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ واقعتاً ہمیں اپنی لابی کو موثر بنانے کے لیے سوچنا ہوگا تاکہ ہم اپنے کاز کے لیے حمایت حاصل کرسکیں۔ ہم نے اس مظاہرے پر کتنے وسائل خرچ کیے۔ کوچز کے ذریعے لوگ آئے، آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت بھی آئی، لیکن مظاہرے کے وہ اہداف حاصل نہ ہوسکے جس سے ہمارے کاز کو مزید سپورٹ ملتی، ہمیں اپنی تحریک کو منظم کرنے کیلئے سوچ و فکر کرنے کی ضرورت ہے جو لوگ دنیا میں کامیابی حاصل کرتے ہیں وہ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہر وقت وہی غلطیاں نہیں دہراتے، سب سے پہلے ہمیں تحریک آزادی کشمیر کی کیمپین کو پاکستان اور آزاد کشمیر کی سیاست علیحدہ کرنا ہوگا۔ وہاں کی سیاسی قیادت کا بے شک ہم احترام کرتے ہیں، لیکن ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم اس ملک کے سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہوں اور یہاں کی مقامی سیاسی صفوں میں اس مسئلہ کے مختلف پہلوئوں کو متعارف کریں، تاکہ مقامی انگریز آبادی ہماری حمایت کرے، پارلیمنٹ کے اندر ایک آل پارٹیز پارلیمانی کشمیر گروپ موجود ہے لیکن وہ گروپ برطانوی حکومت کو لابی کرنے کے بجائے زیادہ تر ہماری سیاسی قیادت کے ساتھ انٹرایکشن کرتا ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ممبر آف پارلیمنٹ کا یہ کام نہیں کہ ہماری تقریب میں آکر ہمیں کشمیر پر تقاریر سنائے، بلکہ اس کا کام تو یہ ہے کہ وہ اس مسئلہ کے مختلف پہلوئوں کو پارلیمنٹ کے اندر اجاگر کرے۔ بھارتی وزیراعظم کے موجودہ دورے کے دوران کسی بھی ممبر آف پارلیمنٹ نے نریندر مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کا تذکرہ نہیں کیا، بلکہ الٹا نریندر مودی برطانیہ سے مطالبہ کررہا ہے کہ جن لوگوں نے مظاہرہ کے دوران بھارت کا جھنڈا پھاڑا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ نریندر مودی قاتل ہے اور اس کو گرفتار کرکے عالمی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ کامن ویلتھ کانفرنس ایک اچھا موقع تھا کہ پاکستان اس مسئلہ کو وہاں اٹھاتا لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت آپس میں دست و گریبان ہے۔ وہاں پر اقتدار کیلئے رسہ کشی چل رہی ہے۔ کشمیر ان کے لیے اتنی اہمیت نہیں رکھتا، اب صورت حال کو بدلنے کے لیے ایک بہت بڑی جدوجہد کی ضرورت پاکستان میں ہے تاکہ وہاں پر جو بھی اقتدار میں آئے وہ کشمیر کو اولیت دے۔ مسئلہ کشمیر پر ایک قومی موقف ہو جو بھی حکومت آئے اس کو اس موقف کے اردگرد پالیسی بناکر حالات کے مطابق چلنا چاہیے لیکن پاکستان کی تاریخ دیکھی جائے تو ایسا نہیں ہو، ہر حکمران نے اپنی ضرورت کے مطابق اس مسئلہ کو لیا اور یہی وجہ ہے کہ70سالوں میں ہم وہاں ہی کھڑا ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے۔ کشمیریوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، یہ قربانیاں جہاں کشمیر کی آزادی کے لیے ہیں وہاں پر یہ پاکستان کے دفاع کے لیے بھی ہیں۔ ان کو ضائع نہ کیا جائے آخر کب تک کشمیریوں کو قربانی کا جانور سمجھ کر بھینٹ چڑھایا جائے گا۔ اگر پاکستان کی حکومت اور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ کشُمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تو پھر اس شہ رگ کو دشمن کے قبضے سے چھڑانے کیلئے قربانیاں دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت ایک ایسا بھوت ہے جو باتوں سے نہیں مانتا، اس کو لاتوں کی مار پیٹ سے گفت و شنید کے لیے راضی کرنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ساری قوم متحد ہو۔
تازہ ترین