• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی اہم ضرورت تعلیم و تربیت ہے جس کی اہمیت کو ہمیشہ سے تمام مہذب قوموں نے تسلیم کیا ہے اور اس کے فروغ میں بہت تندہی سے کام کیا ہے۔ قدیم تاریخی معلومات بھی ہم تک تعلیم و علم کے ذریعے ہی پہنچی ہیں۔ پہلے تورات و انجیل نے اور پھر قرآن نے ہزاروں سال قبل احکامات الٰہی اور بندوں کے حقوق و فرائض سے بندوں کو آگہی بھی تعلیم کے ذریعے حاصل ہوئی۔ اسلام نے تو علم و تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے اور ہمارے پیارے رسول کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرنے کے لئے خواہ تم کو چین (جو اس وقت دور دراز ترین ملک تصور کیا جاتا تھا) ہی کیوں نہ جانا پڑے جاؤ اور علم حاصل کرو۔ مغربی ممالک نے مسلمانوں سے زیادہ اس کی اہمیت پر توجہ دی اور عمل بھی کیا۔ جیو ٹی وی کے ذریعہ پرانی اچھی باتیں عوام کے سامنے لائی جاتی ہیں اور ہمارے اعمال کی کوتاہیوں کو بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ جب اکبر بادشاہ فتح پور سیکری کی تعمیر پر کثیر رقم خرچ کر رہا تھا اس وقت مغربی دنیا میں آکسفورڈ، لائیڈن اور لیوون کی یونیورسٹیوں کی بنیادیں ڈالی جا رہی تھیں۔ ہندوستان میں مغل حکمراں زیادہ تر تعمیرات میں دلچسپی لیتے رہے، محلات، باغات اور مقبرے بناتے رہے اور اپنے زوال، تباہی کی بنیاد رکھتے رہے۔ ایک زمانہ میں مسلمان سائنسدانوں کی دھوم مچی ہوئی تھی اور البیرونی، ابن ہشام، خوارزمی، عمر خیام جیسے جید عالم اپنا لوہا منوا چکے تھے مگر جونہی مسلمانوں نے تعلیم اور علم کو نظر انداز کیا ہمارا زوال شروع ہوگیا۔ تعلیم و ترقی کے ساتھ مغربی دنیا میں صنعتی ترقی بھی تیزی سے ہوئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ہم ان کی غلامی میں آگئے۔
صدیوں پیشتر سرزمین ہند میں ہمیشہ تعلیم کا دور دورہ رہا، ٹیکسلا اور مالندہ جیسے قدیم مقتدر ادارے ہندوستان میں قبل مسیح دور کی یادگاریں ہیں لیکن اس دور میں ایک مخصوص طبقہ یعنی برہمن ہی اس سے استفادہ کرتے تھے اور حکمراں طبقہ کو اپنے مشوروں سے نوازتے تھے اور ان کا معزز مقام تھا جیسے چندر گپت موریہ کے وزیر چانکیہ کا، اسی طرح انتظامی معاملات میں بھی یہی طبقہ پیش پیش تھا۔ یہ طریقہ برسوں بعد بھی رائج رہا۔ شیر شاہ سوری کے وزیر مالیات راجہ ٹوڈرمل اکبر بادشاہ کے دور میں بھی ممتاز وزیر تھے۔
اسلامی دور میں عباسی خلفاء کے دور میں علم و فن نے بہت ترقی کی تھی اور تقریباً اُسی دور میں اندلس کی یونیورسٹیاں یورپ میں شہرت حاصل کررہی تھیں۔ خلفائے راشدین کے زمانے سے ہی قرآنی آیات، تفاسیر اور احادیث کو محفوظ رکھا گیا جو ہم تک پہنچیں اور انشاء اللہ قیامت تک محفوظ رہیں گی۔ مزید ان کا ترجمہ دوسری زبان میں کیا گیا جس سے دنیا کے کروڑوں عوام مستفیض ہو رہے ہیں۔ بغداد علم و فن کا وہ مرکز تھا جس سے مستفیض ہونے کا مغربی دنیا بھی اعتراف کرتی ہے لیکن منگولوں نے نہ صرف تمام علماء کو قتل کر دیا بلکہ نہایت قیمتی کتب سے پُر لائبریریوں کو بھی نذر آتش کر دیا جس سے دنیا ایک علم کے خزینے سے محروم ہوگئی۔ اس زمانہ میں لوگ نہ صرف دینی معلومات میں بلکہ دنیاوی علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔
انگریزی دور میں مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں تعلیمی میدان میں پیچھے چلتے گئے۔ ہندوؤں نے برطانوی حکومت میں تعلیم کو آگے بڑھنے کا ذریعہ سمجھ لیا تھا اور ان کے بڑے بڑے رہنما تعلیم کا درس دیتے رہے۔ راجہ رام موہن رائے کی نصیحت سے رہنمائی حاصل کرکے پنڈت مدن موہن مالویہ نے بنارس ہندو یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی، سرہری سنگھ گور نے وکالت کی آمدنی سے ساگر یونیورسٹی قائم کی۔ راجہ رام موہن رائے کے تقریباً سو سال بعد سرسید احمد خان  نے علیگڑھ یونیورسٹی کی بنیاد ڈال کر مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ ہونے کا موقع بخشا اور ان کے طفیل میں ہندوستان کے مسلمان تعلیم یافتہ ہوئے اور آج تک مستفیض ہو رہے ہیں ورنہ پچھلے دور میں مغلیہ بادشاہت اور دیگر نوابی حکومتوں نے ان کی عادت میں لغویات بھر دی تھیں۔ جانوروں، پرندوں کی لڑائیاں، ناچ گانا، شکار، جوا، شراب خوشحال طبقے میں عزت و احترام کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ ان کی بدکرداری سے ان کی آبائی دولت، جائیداد اور حکمرانی ختم ہوتی گئی اور پسماندگی ان کی زندگی کا انجام بن گئی۔ 1857ء کی جنگ آزادی یا بغاوت کے بعد بچی کھچی مسلمان ریاستوں نے بھی وقت کے تقاضے کو محسوس کر لیا اور انگریزی دور کے ریٹائرڈ افسران اپنے عملہ میں رکھ کر تعلیم و تنظیم پر توجہ کی جن میں حیدرآباد دکن اور بھوپال کے نام نمایاں ہیں۔ ہر اہم محکمہ میں ذمہ دار افسران انگریز یا ان کے تربیت یافتہ لوگ ہوتے تھے جن میں ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، انسپکٹر جنرل پولیس، کسٹمز کمشنر خاص تھے۔ ان کی بدولت مستحکم عمارات، اعلیٰ امن و امان کا انتظام تھا۔ حیدرآباد میں اور بھوپال میں تین سو سالہ پرانی عمارتیں آج بھی اچھی حالت میں موجود ہیں۔ کرپشن ناپید تھی اور کوئی بھی مجرم سزا سے نہیں بچ سکتا تھا اور عادی مجرم ریاست بدر کردیئے جاتے تھے۔
آج کل پاکستان میں مسلمانوں کی وہی حالت ہے جو مغلیہ دور میں یا نوابی دور میں تھی،کرپشن اور افراط دولت نے بڑوں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بھی بیکار کردیا ہے، بڑے افسران اور وزراء کے بیٹے جہاں قیمتی گاڑیوں میں داد عیش دیتے ہیں وہاں بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے تاجروں کی اولاد بھی ان سے پیچھے نہیں ہے۔ حصول تعلیم کے لئے والدین انہیں مہنگے انگریزی میڈیم اسکولوں اور کالجوں میں داخل کرانے کے بعد بے فکر ہوجاتے ہیں۔ پورا سال گھر سے بے حساب روپوں کی وجہ سے عیاشی میں گزارنے کے بعد امتحان میں کامیابی کے لئے پیسے کے بل بوتے پر سفارش، نقل وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے اور کسی نہ کسی طرح ڈگری حاصل کرلیتے ہیں لیکن ان کے علم و تربیت کا معیار وہی ہوتا ہے جو تیس چالیس برس انگلستان میں رہ کر ہمارے مزدور کا ہوتا ہے یعنی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین جو کارکردگی دکھا رہے ہیں وہ آپ کسی مہنگے ہوٹل، کلب یا تفریح گاہ کے علاوہ سڑکوں پر مہنگی اور تیز رفتار گاڑیوں کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ حکمراں اور سیاسی رہنما بھی نوجوان نسل کی اس بربادی میں دل کھول کر حصہ لے رہے ہیں۔ ملک کا متوسط طبقہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کا مستقبل روشن ہو جائے مگر دیہات میں غریبوں کے بچے عام ابتدائی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ اسکولوں میں زمینداروں اور جاگیرداروں نے جانور پال رکھے ہیں، کہیں اساتذہ نہیں ہیں اور کہیں طلباء موجود نہیں لیکن تنخواہیں جاری ہیں۔ یہ وہ برائیاں ہیں جن کو بغیر اضافی قوت افرادی اور مصارف کے دور کیا جاسکتا ہے مگر یہاں نیک نیتی کا فقدان ہے اور جان بوجھ کر قوم کو تباہ کیا جارہا ہے۔
اچھے سرکاری اسکولوں کی غیر موجودگی و کمی کو کسی حد تک مدرسوں نے پورا کردیا ہے کہ وہاں نہ صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ مفت رہنے اور کھانے کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے سلیبس کو حکومتی سطح پر نہیں بنایا جاتا،اس لئے یہ صرف قرآن و حدیث کے علاوہ کچھ اور نہیں سیکھتے اور مذہبی تعلیم کی وجہ سے بہت جلد مذہبی انتہا پسند جماعتوں کے زیر اثر آجاتے ہیں اور غلط سرگرمیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر ان مدارس کا صحیح استعمال کیا جائے تو یہ نوجوان بچے بڑے ہوکر اچھے مفید شہری بن سکتے ہیں اور معاشی برائیوں سے لوگوں کو آگاہ کرکے ان کو روک سکتے ہیں۔ ان مدارس کو سیاست سے الگ رکھ کر بہت اچھا کام لیا جا سکتا ہے۔
دیکھئے تعلیم آپ کو علم دیتی ہے،آپ کو مختلف موضوعات کے بارے میں معلومات بہم پہنچاتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم تربیت ہے، یہ آپ کو کردار بنانے میں رہنمائی کرتی ہے آپ کو اچھا انسان، ایک اچھا شہری بناتی ہے اور یہی وہ خصوصیت ہے جو آپ کو نمایاں حیثیت دیتی ہے۔ مدت بیتی ایک سابق آنجہانی امریکی صدر کیلون کُولج نے اس بات کو نہایت اچھے اور صاف الفاظ میں یوں کہا ”آپ اگر چاہیں تو مہنگی ترین عمارت خرید سکتے ہیں، بہترین کار خرید سکتے ہیں، کسی اعلیٰ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرسکتے ہیں مگر آپ اچھے اخلاق و اطوار کو نہیں خرید سکتے،یہ خاندانی ورثہ ہے اور تربیت پر مبنی ہے“۔
ہمارے یہاں اخلاقی قدروں کی کمی کی وجہ ہماری ثقافت اور دینی تعلیم سے محرومیت ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے ”لاتعداد تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنا مستقبل اس لئے تباہ کرلیا ہے کہ وہ دینی تعلیم سے بے بہرہ ہیں،ان کی تعلیم و معلومات ان کے کسی کام نہیں آئی“۔
دیکھئے اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی اعلیٰ ثقافت و دینی سنہری اصولوں سے بھی پوری طرح واقف کیا جائے، صرف اعلیٰ تعلیم سے انسان ایک اچھا انسان نہیں بنتا اچھی تربیت بھی لازمی ہے۔
(نوٹ) 15/اکتوبر کے کالم میں غلطی سے میں نے پہلا شعر مصحفی سے منسوب کردیا تھا،برادر محمد سعید صاحب نے تصحیح کی ہے کہ یہ شعر حکیم مومن خان مومن کا ہے جس کے لئے میں ان کا شکر یہ ادا کرتا ہوں۔
تازہ ترین