• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب میں دیہات کے ہر کونے پر جوہڑ بنائے جاتے تھے جو بارش کے پانی اور گھروں کی نکاسی آب کے ڈسپوزل ہوا کرتے ۔ دیہات کے ڈھور ڈنگر صبح کھیتوں کو جاتے اور واپسی پر انہی جوہڑوں کے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے‘ گرمیوں میں بھینسیں گھنٹوں پانی میں گھس رہتیں۔ ’’سکھ پور ‘‘کے مغربی کنارے پر واقع جوہڑ کے آس پاس ’’میراثیوں‘‘ کے بہت سے خاندان آباد تھے۔ انہیں جگت باز‘ حاضر جوابی اور لطیفہ گو کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن ان کے ذمہ اصل کام راجوں‘ مہاراجوں‘ راجپوتوں‘ جاٹوں کے شجرے ‘ میراث‘ اقدار اور کارناموں کو یاد رکھنا ہوتا تھا۔ اہم تہواروں کے موقع پر یہ لوگ اپنی ممدوح شخصیات کی میراث اور کارناموں اور بڑوں کے داد و داش کا ذکر چھیڑتے تو ممدوح خاندان کے نوجوان خاندانی روایات کے ذکر سے جذباتی ہو کر اپنے اپنے ’’میراثیوں‘‘ کی خوب آئو بھگت کرتے‘ میلے ٹھیلے‘ کھیل تماشے اور اہم تہوار مارچ کے خوشگوار موسم سے شروع ہو کر ‘ کھیتوں سے گندم گھر منتقل ہونے تک جاری رہتے‘ زمیندار ہر ’’سیپی‘‘ کو گندم کی شکل میں سال بھر کی خدمت گزاری کا صلہ فراخ دلی سے دیا کرتے۔ ’’میراثی‘‘ بھی اپنے گھروں کو سال بھر کی ضروریات زندگی سے بھر لیتے‘ باقی پورا سال انہیں باتیں کرنے اور سستی سے پڑے اینٹھتے رہنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا تھا‘ ان کی خوش خوراکی اور چرب زبانی ضرب المثل ہے۔ ’’سکھ پور‘‘ کے ان گھرانوں کی زندگی یوں تو چین سے بسر ہوتی تھی لیکن ’’جوہڑ‘‘ کی ہمسائیگی کی وجہ سے سال میں دو مرتبہ جب موسم قدرے خوشگوار اور نرم ہوتا‘ انہی دنوں کھڑے پانی کی وجہ سے مچھرو ں کی بہتات ہو جاتی تھی۔ مچھروں کے دَل کے دَل نکل کھڑے ہوتے‘ رات بھر مچھر زندگی اجیرن کئے رکھتے‘ نیند غارت‘ رات آنکھوں میں کٹتی ‘ ان کے کاٹنے سے بچوں‘ بڑوں میں ’’ملیریا‘‘کی وباء پھوٹ پڑتی جس سے پوری بستی خصوصاً جوہڑ کے ہمسایہ گھرانوں کو جان کے لالے پڑ جاتے۔ چنانچہ ا یک دن ’’بڑے میراثی‘‘ نے برادری کی پنچایت طلب کر لی۔ ’’بزرگ‘‘ نے کہا‘ دیکھئے مچھروں نے ہماری زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں‘ ان کے کاٹنے سے ہونے والا ملیریا ہر سال ہمارے درجن بھر پیاروںکی جانیں لے جاتاہے‘ موذی مرض سے بچنے کیلئے ’’کونین‘‘ کھائیں تو وہ اتنی کڑوی کہ ہفتہ بھر منہ کا ذائقہ اتنا خراب کہ ’’کریلے گوشت‘‘ بھی بھنڈی کا شوربہ لگیں۔ اس لئے ہمیں اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا چاہئے۔ طویل مشاورت کے بعد بالآخر پنچایت نے فیصلہ کیا کہ ’’کل صبح مچھروں کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ کی جائے‘ جو اس وقت تک جاری رہے جب تک کوئی قطعی نتیجہ نہیں نکلتا۔ ہر گھر کے سب سے ’’گبرو‘‘ کیلئے یہ حکم ہوا کہ کل سورج نکلنے کے ساتھ ہی ایک مضبوط لاٹھی کے ساتھ جوہڑ کنارے جمع ہوں۔ اگل صبح سوکے قریب جوان لاٹھیاں پکڑے جوہڑ کنارے پہنچ گئے۔ تب چوہدری نے حکم دیا کہ سب جوان جوہڑ میں داخل ہو کر مچھروں کو لاٹھیوں پر رکھ لیں‘ ایسی مرمت کریں کہ جوہڑ ان کی لاشوں سے پٹ جائے۔ بڑا چوہدری حکم صادر کر کے گھر کو چلا کہ ’’ناشتہ کر کے واپس آتا ہوں‘ تب تک تم ان کا حساب برابر کر دو۔‘‘ نوجوان جوہڑ میں داخل ہوئے تو مچھر یہ جا وہ جا‘ کوئی نظر آئے تو لاٹھی چلے‘ اچانک ’’منے ‘‘پہلوان کی نظر پڑی کہ ایک مچھر ’’فیقے‘‘ کے ماتھے پر بیٹھا ہے‘ تاک کر ایسی ضرب لگائی کہ مچھر کا پتہ نہیں مگر ’’فیقے‘‘ کا سر کھل گیا اور ’’بھیجا‘‘ کھوپڑی سے باہر نکل آیا۔ مضروب نے کوئی آواز نکالے بغیر اپنی جان‘ جان آفریں کے سپرد کر دی۔ چوہدری جوہڑ کنارے واپس پہنچا تو ’’فیقے‘‘ کی لاش چارپائی پر ڈال کر اسے سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا‘ چوہدری نے نوجوانوں سے پوچھا کہ ’’ہاں بھئی! کیسا رہا؟‘‘ منا پہلوان سینہ پھلا کر بولا‘ آج کی جنگ برابر۔ وہ کیسے؟ ایک مچھر مارا گیا اور ایک ہمارا جوان کام آیا۔
اسامہ بن لادن اور چند شوریدہ سر عرب نوجوان‘ جنہیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا تھا‘ یہ افغانستان میں طالبان کی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ افعانستان کے پہاڑی غاروں میں پناہ گزین منحنی اور لاغر اسامہ بن لادن کونائن الیون حادثے کا ذمہ دار قرار دے کر اسے پکڑنے اور سزا دینے کیلئے امریکی افواج قاہرہ کروفر سے افغانستان میں آن اتریں۔ پندرہ برس تک ان سایوں کا تعاقب کرنے میں‘ امریکہ کی ساری توانائیاں خرچ ہو چکی ہیں لیکن خطرات ہیں کہ روز بروز پہلے کے مقابلے میںز یادہ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ فرد واحد کے خطرے کو ’’خوفناک عفریت‘‘ بنا کر اس کے تدارک پر امریکہ پندرہ سو ارب ڈالر براہ راست افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ پر خرچ کر چکا ہے ‘ اس کی دوسری شاخوں سے نمٹنے کیلئے عراق میں مداخلت کرنا پڑی تو مجموعی اخراجات 4500 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ امریکہ بہادر کو ایک فرد سے نمٹنے کیلئے جو دولت صرف کرنا پڑی اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے جو سپر پاور امریکہ کی فوج کی مجموعی تعداد سے تقریباً دوگنا ہے۔ اسامہ کے تدارک پر جو کچھ خرچ ہوا یہ رقم چین کے پچاس سالہ دفاعی بجٹ کے برابر ہے۔ یہ دولت اگر پاکستان کو دے دی جاتی تو پانچ سو سال تک کے دفاعی اخراجات کی کفالت کرتی۔ یہ صرف امریکہ کی طرف سے کئے گئے اخراجات کا تخمینہ ہے لیکن اتحادیوں پر جو گزری وہ اس سے سوا ہے۔
اس کے برے اثرات امریکہ کے اندر نمودار ہونے لگے ہیں‘ وہ اپنی سیکورٹی اور عالمی خطرے کا شکار ہے۔ 6جنوری2011ء کو امریکی وزیر دفاع ’’رابرٹ گیٹس‘‘ نے دفاعی شعبوں میں 78 ارب ڈالر کٹوتی کا اعلان کیا تھا‘ حالانکہ اس سے فوج کی صلاحیت متاثر ہونے کا خطرہ ہے ‘ پھر اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ 20 اپریل 2011ء کو صدر اوباما نے رابرٹ گیٹس کی اعلان کردہ رقوم کے علاوہ چار سو ارب ڈالر کی مزید کمی کا اعلان کر دیا۔ جنوری 2015ء میں چیف آف اسٹاف جنرل Roy Odierno نے سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ دفاعی بجٹ میں کمی کی وجہ سے گزشتہ 239 سالہ تاریخ میں ہماری تیاری کی سطح کم ترین حالت میں ہے۔ ایئرچیف آف اسٹاف جنرل ’’مارک ویلشن ‘‘نے کہا کہ ہمارا موجودہ ایئر فلیٹ ایئر فورس کی تاریخ میں سب سے چھوٹا‘ پرانا اور کم تر تیاری کی حالت میں ہے‘ پھر بھی ہمارے اخراجات میں کمی کی جا رہی ہے تو فورس کی تیاری کیونکر قابل اعتبار ہو سکتی ہے۔ فروری 2015ء کو میرین کور کے کمانڈر جنرل ’’جوزف ڈین فورڈ‘‘نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے تقریباً پچاس فیصد یونٹ جو ہنگامی حالات میں بروئے عمل آتے ہیں‘ وہ دفاعی سامان اور تربیت کے مسائل کا شکار ہیں‘ اس وجہ سے ان کی تیاری خراب حالت میں ہے۔ اسی سال مارچ میں ’’چیف آف نیول آپریشنز‘‘ ایڈمرل جوناتھن گرینٹر نے نیوی کی تیاری کے بارے میں خبردار کیا ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں سب سے بری حالت میں ہے۔ دفاعی بجٹ کم ہو جانے سے چالیس ہزار جوانوں اور افسروں کو فوج سے الگ کر دیا گیا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد فوج کی تعداد کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ نیوی کے بیڑے ’’تھیو ڈور روز ویلٹ‘‘ کو 2015ء کے آخر میں واپس بلا لیا جائے گا حالانکہ کوئی دوسرا بیڑہ اس کی جگہ لینے کیلئے تیار نہیں کیا گیا۔
یہ سب کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے جب مشرق وسطیٰ خوفناک بحران میں گھرا ہوا ہے۔ القاعدہ‘ داعش اور دیگر دہشت گردوں کی طاقت اور وسعت روز افزوں ہے۔ آج سیکورٹی خطرات عالمی بحران کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ دنیا ہمیشہ سے زیادہ غیرمحفوظ ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کی وجہ سے امریکہ کی ذمہ داریاں کہیں بڑھ چکی ہیں لیکن دفاعی اخراجات میں 937 ارب ڈالر کی کمی کرنا پڑ رہی ہے۔ دنیا بجا طور پر خیال کرنے لگی ہے کہ امریکہ کی فوجی طاقت مختصر دورانئے کی چھوٹی جنگ کیلئے ر ہ گئی ہے۔ اس وجہ سے دوستوں میں ہماری ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے‘ مخالفین حوصلہ پا کر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں‘ روس اور چین اپنے حلقہ اثر کو وسعت دیئے جا رہے ہیں۔ دہشت گرد گروپ پوری دنیا میں خصوصاً افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں دندناتے پھرتے ہیں اور امریکہ انہیں لگام ڈالنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نامکمل مرثیہ کسی اور کا نہیں بلکہ امریکہ کے سابق نائب صدر ’’ڈک چینی ‘‘کی اپنی کتاب سے ماخو ذ ہے۔
تازہ ترین