• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے اصغر خان کیس میں عدالت عالیہ کا مختصر فیصلہ آیا ہے میرا ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ کر برا حال ہے۔ سالوں جن لوگوں نے اس کیس پر ایک سرسری نگاہ ڈالنا گوارہ نہ کیا اور اپنے کئی ادوار حکومت میں جو لوگ مہران گیٹ سے استفادہ کر کے پیٹ بھر چکے تھے ان کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ انعام و اکرام اور بڑے بڑے عہدوں اور میڈل سے بھی نوازا۔ اچانک ان کو یہ کیس اس لئے یاد آ گیا تھا کہ وہ عدالت عالیہ پر کیچڑ اچھالنا چاہتے تھے۔ ایک خوفناک مہم چلائی گئی کہ NRO کا کیس تو عدالت سن رہی ہے لیکن 16سال سے اصغر خان کا کیس دبا کر رکھا ہوا ہے۔ عدالت نے انکے دباؤ میں آ کر کیس سننا شروع کر دیا۔ بڑے بڑے شطرنج کے ماہر بساط لگا کر بیٹھے تھے کہ اب تو ایک موٹا سا پھندا تیار ہو گیا ہے اور ان کے مخالفوں اور عدالت کے ججوں کی گردن میں جلد ہی ڈال دیا جائے گا۔ کیس چلا اور اب جو فیصلہ آیا ہے تو یہ جغادری شطرنج باز سکتے کے عالم میں ہیں اور اپنے آپ کو کوستے نظر آ رہے ہیں۔ عدالت نے تو وہی کرنا تھا جو انصاف کے مطابق اور قانون اور آئین کے تحت اسے کرنا چاہئے تھا، مگر یہ بساط الٹ کیسے گئی۔ موٹی موٹی بات جو کہی گئی ہے وہ تین نکات ہیں۔ 1۔ جرنیلوں پر مقدمہ چلایا جائے اور یہ مقدمہ آئین کی خلاف ورزی کا ہی ہو سکتا ہے یعنی غداری کا۔ 2۔ سیاسی لیڈروں کی تفتیش کی جائے کہ کیا انہوں نے غیر قانونی اور غیر آئینی کام کیلئے پیسے لئے یا نہیں اور اگر لئے تو انکے خلاف کارروائی کی جائے۔ 3 ۔ ایوان صدارت ایک پوری قوم کی یگانگت کا نشان ہے اس کو کوئی صدر سیاسی کاموں کیلئے استعمال نہ کرے اور نہ ہی صدر کسی ایک سیاسی پارٹی یا کسی گروپ کی حمایت کرے۔
عدالت نے یہ تینوں اہم کاموں کی ذمہ داری حکومت پر ہی ڈالی جو کہ آئین کا تقاضہ ہے اور یہیں سے یہ بڑا پھندا بجائے ان شطرنج بازوں کے مخالفوں کے خود ان کے گلے میں پڑتا نظر آنے لگا۔ مثلاً حکومت اگر جرنیلوں کے خلاف غداری کا مقدمہ کرے تو مشکل اور نہ کرے تو عذاب۔ حکومت اگر FIA سے تفتیش کروائے تو مشکل اور نہ کروائے تو پھنسے اور تیسرا حکم تو بالکل ہی واضح ہے یعنی جو گولی غلام اسحاق خان کا نشانہ لیکر چلائی گئی ہے وہ جناب زرداری کو جا لگی ہے۔ اب ان کو سیاسی کام کرنے کی اجازت نہیں اور نہ وہ پی پی پی کے عہدیدار رہ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے حامیوں کیساتھ ملکر سیاست کر سکتے ہیں تو اصغر خان کیس نے کئی عدالتوں میں چلتے ہوئے دہری پوسٹ یعنی Dual offices کے کیسوں کا پہلے ہی فیصلہ کر دیا ہے۔ اب لاہور ہائیکورٹ یا دوسری عدالتوں میں درخواست گزار صرف اصغر خان کیس کے فیصلے کی کاپی جمع کرائینگے اور چھوٹی عدالت کو یہی کہنا پڑے گا کہ صدر زرداری یا تو ایک عہدہ فوراً چھوڑیں یا توہین عدالت کی سزا بھگتیں۔
اس Three legged monster کا جواب حکومت اور پی پی پی کیسے دے رہی ہے۔ بڑی ہی مضحکہ خیز صورت حال ہے۔ ایک کنفیوژن اور Panic کی فضا لگتی ہے اور جو بیان اب تک سامنے آئے ہیں وہ قابل غور ہیں۔ جناب وزیراعظم نے فوری ردعمل دکھایا اور اعلان کر دیا کہ حکومت فیصلے پر پورا پورا عمل کرائے گی۔ چلیں ٹھیک ہے تو کیا کریں گے۔ FIA کی ایک ٹیم بنے گی اور سیاستدانوں کی تفتیش شروع ہو گی، مگر بقول یونس حبیب اور دوسرے لوگوں کے کئی لوگ جو مہران بنک سے مال بٹور چکے وہ تو خود پی پی پی میں تھے یا ہیں۔ بقول احمد نورانی کے 80 فیصد لوگ جنہوں نے یہ فائدہ اٹھایا وہ اب حکومتی پارٹی یا گروپ میں ہیں۔ جنگ کے پرانے اخبار اٹھائیں تو سب صاف ہو جائے گا یعنی 17 مارچ 2012ء کی ایک رپورٹ میں یونس حبیب خود فرماتے ہیں کہ پی پی پی والے زیادہ ہیں۔ اسی طرح عمر چیمہ کی9 مارچ کی رپورٹ دیکھیں جس میں انہوں نے ”ایک اور مہران گیٹ“ کا ذکر کیا۔ خیبر پختونخوا میں اور شہادتیں بھی فراہم کیں۔ ساتھ ہی عثمان منظور کی 28 مارچ کی رپورٹ دیکھیں اور یونس حبیب کے انکشافات اور اقبال جرم پڑھیں۔ ان تمام خبروں کی کسی PPP والے نے تردید نہیں کی اور اکثر بیانات تو خود یونس حبیب کی آواز میں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ سو اب FIA ان لوگوں کا کیا کرے گی اور اگر یونس حبیب کی گواہی کو نہ مانا گیا تو پھر نواز شریف، شہباز شریف اور دوسرے مخالفین پر ان کے لگائے ہوئے الزامات کیسے صحیح مانے جائیں گے۔ مسئلہ گمبھیر ہو گیا ہے۔ ہو گا یہ کہ FIA کی تفتیش کہیں نہیں جائے گی اور جناب قمر زمان کائرہ نے تو کہہ دیا لاہور میں کہ اگر یہ تفتیش ہوئی تو اسے سیاسی انتقام سمجھا جائے گا۔ سو کچھ نہیں ہو گا، یہ میرا تجزیہ ہے۔ تو پھر جناب وزیراعظم کے بیانات کہ ایک ایک پائی وصول کی جائے گی، ایک شگفتہ مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ سو یہ کہانی تو یہیں ختم۔ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کی ابھی تو جناب زرداری میں ہمت نہیں اس لئے شرجیل میمن صاحب زور زور سے چیخ رہے ہیں کہ ان کا کورٹ مارشل کیا جائے یعنی یہ گھنٹی ہمارے گلے میں نہ باندھی جائے۔ اب فوج کیا کرتی ہے وہ اس کا اندرونی معاملہ بن جائے گا جیسے NLC کے تین جرنیلوں کے ساتھ ہوا۔ ویسے تو بڑے وکلا کا یہ بیان ہے کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق مقدمہ حکومت کو چلانا چاہئے۔ تو یہ پھندا کس کے گلے میں پڑے گا ابھی معلوم نہیں۔ اگر جرنیل اور سیاست دان بچ گئے اور کچھ نہیں تو التوا میں پڑ گیا ان کا معاملہ تو پھر عدالت کا کلہاڑا صرف ایوان صدر پر ہی گرے گا اور زرداری صاحب کو سیاست بند کرنی پڑے گی۔ ہنسی آتی ہے کہ اس مسئلے پر حکومت عدالت کا فیصلہ ماننے کو تیار نہیں۔ ترجمان اعلیٰ کائرہ صاحب کہتے ہیں صدر نے سیاست تو کرنی ہے اور فیصلے کے بعد بھی انہوں نے یہی بیان دہرایا ہے یعنی جو اچھا لگے گا وہ مان لیں گے اور باقی کڑوا کڑوا تھو تھو، مگر اتنا آسان بھی نہیں۔
ذرا جو رقوم اس سارے کیس میں بانٹی گئیں اور اب حکومت ایک ایک پائی واپس لینے کی بات کر رہی ہے وہ ہیں کتنی اور آج کل کے ماحول میں ان کی کیا حیثیت ہے۔ کل رقم 14 کروڑ دی گئی، 1990ء میں اور اگر اس وقت کے ڈالر کے ریٹ سے اس کو دیکھیں تو 56 لاکھ ڈالر بنتے ہیں۔ آج کل 56 لاکھ ڈالر کا مطلب ہو گا 53کروڑ روپے۔ اس میں سے سیاستدانوں کو 1990ء میں 6 کروڑ روپے دیئے گئے یعنی صرف 24 لاکھ ڈالر جو آج کل23 کروڑ روپے بنیں گے۔ اس کا اگر مقابلہ کریں آج کل کی لوٹ مار اور چور بازاری سے تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کیا زیرے کے کچھ دانے بھی نہیں۔ مثلاً میمو کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جو بیان وزارت خارجہ نے دیا اس میں کہا گیا کہ جناب حسین حقانی کو خفیہ فنڈ میں 80 لاکھ ڈالر دیئے گئے ہیں جن کا حساب ہی نہیں ہے یعنی 76 کروڑ روپے سے زیادہ یا پورے مہران گیٹ اسکینڈل کا تین گنا۔ یہ تو صرف ایک سفارت خانے کی کہانی ہے باقی جتنے کیس عدالت عالیہ میں آ چکے ہیں وہ تو کھربوں اور اربوں میں ہیں۔ تو یہ چند پیسوں کی آڑ میں جو بازی کھیلی گئی وہ اب اپنے ہی گلے پڑ گئی ہے۔ اب اس احمقانہ شطرنج کی بازی میں شاہ کو اپنے کتنے وزیر اور مشیر اور پیادے قربان کرنے ہوں گے یہ تو جلد ہی ظاہر ہو جائے گا لیکن خود شاہ اب اس آزادی سے گھوم نہیں سکتا جیسے پہلے والی بادشاہت میں ہوتا تھا۔
تازہ ترین