• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم تو پاکستان کو صحافیوں کے لئے دنیا کا خطرناک ترین ملک سمجھتے تھے لیکن لندن میں صومالیہ، میکسیکو، برازیل، شام اور فلپائن کے صحافیوں کی کہانیاں سن کر کافی تسلی ہوئی۔ پاکستان میں حکومتیں صحافیوں کو تحفظ دینے میں اکثر ناکام رہتی ہیں لیکن عوام کی اکثریت سچ بولنے والوں کا ساتھ دیتی ہے اور عوام کی محبت و اعتماد ہی پاکستان کے صحافیوں کا اصل سرمایہ ہے۔ بی بی سی لندن کے نئے ہیڈ کوارٹر میں بی بی سی سکول آف جرنلزم سینٹر فار فریڈم آف میڈیا اور یونیورسٹی آف شیفلڈ کے زیر اہتمام صحافیوں کو درپیش خطرات پر ایک انٹرنیشنل سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مجھے بھی کچھ کہنا تھا۔
سمپوزیم کے اختتام پر اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ممالک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس سمپوزیم میں بار بار ملالہ یوسف زئی اور پاکستانی میڈیا کے کردار پر بھی بات ہوئی۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے صحافی ملالہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے تھے۔ لنچ کے وقفے میں صومالیہ کے ایک صحافی نے مجھے کہا کہ آپ لوگ اتنے بے یارو مددگار نہیں جتنے ہم ہیں کم از کم آپ کی سپریم کورٹ میں مظلوموں کی آواز سنی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں تمام ادارے ناکام ہوچکے ہیں۔ صومالیہ کے صحافی نے بالکل درست کہا۔ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوسی کے اندھیرے میں امید کی ایک نئی شمع بن کر روشن ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی پر 1990ء میں انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دارقرار دے کر دونوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے فیصلے کے ذریعے قوم کو پیغام دیا ہے کہ وہ کسی کنفیوژن کا شکار نہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اطلاع یہ ہے کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف وقت ضائع کئے بغیر اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ ان دو ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کے بعد سوال اٹھے گا کہ سپریم کورٹ نے2009ء میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی فیصلہ دیا تھا اس کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہوئی؟
یاد رکھیئے گا تاریخ کا پہیہ آگے کو گھومے گا پیچھے کو نہیں۔ سیاستدانوں کے خلاف توعدالتیں بہت فیصلے دیتی رہیں اور فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہوا لیکن جرنیلوں کے خلاف فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اب جرنیلوں کے خلاف کارروائی ہوگی اور اس کا رروائی سے فوج کو بحیثیت ادارہ نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوگا۔ جرنیلوں کے خلاف کارروائی راجہ پرویز اشرف نے نہ کی تو آئندہ حکومت ضرورکرے گی ا ور 2013ء میں کریگی۔ اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان مبارکبادیں وصول کررہے ہیں کیونکہ 1996ء میں انہوں نے عدالت میں یہ درخواست دائر کی تھی۔ اصغر خان یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن تاریخی ریکارڈ درست رکھنا ضروری ہے۔ 1990ء کے انتخابات میں اسلم بیگ اور اسد درانی کی مداخلت کے خلاف پہلی آواز اصغر خان نے نہیں بلکہ نصیر اللہ بابر مرحوم نے اٹھائی تھی۔
نصیر اللہ بابر آج دنیا میں نہیں رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1994ء میں وزیر داخلہ بننے کے فوراً بعد ا نہوں نے حبیب بنک کے کھاتہ داروں کی رقم آئی ایس آئی کو فراہم کرنے والے یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ اس کارروائی میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ نصیر اللہ بابر نے20اپریل 1994ء کو اسلم بیگ کے خلاف قومی ا سمبلی میں تقریر کی۔ یہ تقریر ابھی تک قومی اسمبلی کی لائبریری میں موجود ہے۔ یہ نصیر اللہ بابر تھے جنہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کو وعدہ معاف گواہ بنایا اور ان سے حلفیہ بیان حاصل کرلیا جس میں سیاستدانوں کو رقوم تقسیم کرنے کااعتراف کیا گیا تھا۔ بعدازاں اسد درانی کو جرمنی میں پاکستان کا سفیر بنایا گیا اور نصیر اللہ بابر گاہے گاہے ان سے معلومات حاصل کرتے رہتے تھے۔ 1996ء میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی شروع ہوئی تو اصغر خان نے نصیر اللہ بابر کے اخباری بیانات کو بنیادبنا کر ایک درخواست دائر کردی۔ درخواست کی سماعت شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد بینظیر حکومت ختم ہوگئی۔نواز شریف دور میں سعید الزمان صدیقی چیف جسٹس بنے تو انہوں نے نصیر اللہ بابر کے ساتھ اپنے چیمبر میں ایک ملاقات کی اور درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ نصیر اللہ بابر صاحب نے اپنی زندگی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ سعید الزمان صدیقی جرنیلوں اور سیاستدانوں کو ایک سخت وارننگ دے کر چھوڑ دینا چاہتے تھے۔ نصیر اللہ بابر نہیں مانے لہٰذا سعید الزمان صدیقی نے فیصلہ لکھ کر اعلان نہیں کیا۔ نصیر اللہ بابرمان جاتے تو 1999ء میں یہ کیس ختم ہوجاتا لہٰذا آج ہمیں نصیر اللہ بابر کو ضرور یاد رکھنا چاہئے۔
اصغر خان قابل احترام بزرگ ہیں لیکن آج انہیں بھی کچھ غلطیوں کا اعتراف کرلینا چاہئے۔ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا راستہ روکتا ہے لیکن کیسی ستم ظریفی ہے کہ درخواست گزار اصغر خان نے بذات خود ایک دفعہ خط لکھ کر فوج کو سیاست میں مداخلت کی ترغیب دی تھی۔ اصغر خان1957ء سے1965ء تک پاکستان ائر فورس کے سربراہ تھے۔ 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی جھڑپیں شروع ہوئیں تو اصغر خان نے بھارتی فوج کے سربراہ ائر مارشل ارجن سنگھ کو پیغام بھیجا کہ اگر دونوں ممالک میں جنگ شروع ہوگئی تو دونوں ممالک ائر فورس کو استعمال نہ کریں۔ ارجن سنگھ مان گئے۔ یہ بات جنرل ایوب خان کو پتہ چلی تو انہوں نے اصغر خان سے پوچھا کہ حکومت کو بتائے بغیر آپ نے ارجن سنگھ سے رابطہ کیوں کیا؟اصغر خان کا استدلال یہ تھا کہ حکومت نے ائر فورس کو بتائے بغیر آپریشن جبرالٹر کیوں شروع کیا؟جنگ کے باقاعدہ آغاز سے پہلے انہوں نے ائر فورس چھوڑ دی اور پی آئی اے کے سربراہ بن گئے۔ بعدازاں وہ سیاست میں آگئے۔
1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے بعد انہوں نے حکومت کے خلاف تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست میں فوج کی مداخلت کا خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات شروع کردئیے لیکن اس زمانے میں اصغر خان نے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو خط لکھا اور کہا کہ بھٹو کو ہٹا کر پاکستان بچا لو۔2 جولائی1977ء کو بھٹو حکومت نے اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے تو اصغر خان نے مذاکرات کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے مولانا مفتی محمود صاحب سے کہا کہ مذاکرات بند کرو میں ضمانت دیتا ہوں کہ فوج مارشل لاء لگا کر 90دن میں الیکشن کرادیگی۔ مولانا مفتی محمود صاحب نے اصغر خان کی بات نہیں مانی لیکن بھٹو حکومت کے خاتمے کا فیصلہ واشنگٹن میں ہوچکا تھا۔ سی آئی اے نے پاکستانی فوج کے سربراہ کے ساتھ مل کر پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت سے ہٹایا پھر پھانسی پر لٹکایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اصغر خان خود کو پاکستان کا آئندہ حکمران سمجھتے تھے۔
اعتزاز احسن پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک استقلال میں چھلانگ لگا چکے تھے۔ نواز شریف، اکبر بگٹی، عابدہ حسین، خورشید قصوری، گوہر ایوب، جاوید ہاشمی، ڈاکٹر شیر افگن، سید ظفر علی شاہ، نثار کھوڑو اور کئی دیگر بھی اصغر خان کے ساتھی بن گئے لیکن جنرل ضیاء نے مارشل لاء اپنے لئے لگایا تھا اصغر خان کے نہیں لگایا تھا۔ جنرل ضیاء نے90دن میں الیکشن کا وعدہ پورا نہ کیا۔ اصغر خان نے یوٹرن لیا اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے لگے۔ ان کی سیاست کا انجام یہ ہوا کہ انہوں نے تحریک استقلال کو عمران خان کی تحریک انصاف میں ضم کردیا۔ انصاف کا تقاضایہ ہے کہ آج اصغر خان اعتراف کرلیں کہ انہوں نے 1977ء میں فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے کر بہت بڑی غلطی کی۔ فوج گیارہ سال برسراقتدار رہی اور پھر فوج نے1988ء میں آئی جے آئی بنا کر دھاندلی کی۔ دھاندلی کا سلسلہ1990ء تک محدود نہ تھا یہ سلسلہ 2008ء تک جاری رہا۔2008ء میں بھی مشرف کے ساتھیوں نے دھاندلی کے لئے کروڑوں نہیں اربوں روپے تقسیم کئے اور یہ سچ بھی ایک دن ضرور سامنے آئے گا۔
اصغر خان نے نصیر اللہ بابر کی بدولت سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعہ اپنے پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی زندگی کا ایک آخری سچ بول دیں تو ان کی عزت میں مزید اضافہ ہوگا۔
تازہ ترین