• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے میری ملاقات ایسے ماہرین سے ہوئی جنہوں نے مستقبل میں تجارت کے رجحان اور معاشی ترقی کا مرکز ایشیاء کو بتایا جس میں چین، انڈیا اور پاکستان اہم ممالک اور بڑی مارکیٹس ہوں گی۔ ایشیاء پیسفک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی کنفیڈریشن (کاسی) جو ایشیاء پیسفک کے 27 ممالک کے چیمبرز اور فیڈریشنز کی نمائندگی کرتی ہے کے صدر بیندیکٹو وی یوجیکو جو کاسی کے نئے عہدیداران کے ساتھ پہلی بار پاکستان کا دورہ کررہے تھے نے فیڈریشن آف پاکستان میں ایک پریذنٹیشن میں بتایا کہ 1780ء میں دنیا کی تجارت میں ایشیاء کا حصہ 60% تھا، پھر یہ تجارت آہستہ آہستہ مغرب کو منتقل ہوگئی لیکن یورپ اور امریکہ کی موجودہ معاشی صورت حال کے مدنظر2050ء تک ایشیاء کا عالمی تجارت میں دوبارہ 60% حصہ ہونے کا امکان ہے۔ پاک انڈیا تجارت کے فروغ کیلئے گزشتہ ہفتے پاکستان میں انڈیا کے سفیر شرت سبروال نے کراچی میں انگلش اسپیکنگ یونین اور کراچی چیمبر میں بزنس مینوں سے پاک انڈیا تجارت پر خطاب کیا۔ چند دنوں پہلے میری فیڈریشن میں انڈیا میں پاکستان کے ٹریڈ منسٹر نعیم انور سے ملاقات ہوئی جو3 سال سے پاک انڈیا تجارت کے فروغ میں پاکستان اور انڈیا کے اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ نعیم انور جو عالمی تجارت میں ماسٹر کی ڈگری رکھتے ہیں اور ان کا باہمی اور عالمی تجارت کا 27 سالہ تجربہ ہے جس میں گزشتہ 17 سالوں سے وہ پاکستان کی وزارت تجارت سے منسلک ہیں اور ان کی پاک انڈیا کی تجارت پر گہری نگاہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انڈیا نے 1992ء میں دنیا کی تجارت کیلئے اپنی مارکیٹ کھولی تھی اور2002ء سے انڈیا نے آزادانہ تجارت کی پالیسی اپنائی جس کی وجہ سے انڈیا کی جی ڈی پی گروتھ تیزی سے بڑھ کر8% سے9% سالانہ تک پہنچ گئی۔
اسی دوران انڈیا کا متوسط طبقہ تیزی سے اوپر آیا اور انڈیا اونچی گروتھ حاصل کرنے والا ملک بن گیا لیکن تیز صنعتی گروتھ کی وجہ سے انڈیا میں توانائی کے بحران کے باعث اس کی سپلائی سائیڈ متاثر رہی۔ انڈیا میں67% بجلی امپورٹ کئے گئے کوئلے سے پیدا کی جاتی ہے جو زیادہ تر انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ سے امپورٹ کیا جاتا تھا، انڈونیشیا میں انڈین بزنس مینوں نے کوئلے کی کانیں25 سال لیز پر حاصل کی ہوئی تھیں جن کا کوئلہ وہ انڈیا ایکسپورٹ کرتے تھے، انڈونیشیا نے کوئلے کی ایکسپورٹ روکنے کیلئے کوئلے پر25% سے50% تک ڈیوٹی لگادی ہے جس کی وجہ سے اب انڈونیشیا سے انڈیا کوئلہ امپورٹ کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے جبکہ جنوبی افریقہ سے طویل فاصلے کے باعث کوئلے کی امپورٹ پر اضافی لاگت آتی ہے جس سے بجلی کی پیداواری لاگت نہایت بڑھ جاتی ہے۔انڈیا کے معاشی ماہرین اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے طویل عرصے تک اس صورت حال کا تجزیہ کرکے حکومت کو سفارش کی کہ انڈیا کو اپنی توانائی کی ضرورت جغرافیائی محل وقوع کے مدنظر پاکستان کے ذریعے پورا کرنا ہوگی کیونکہ باقی ذرائع سے حاصل کردہ توانائی نہایت مہنگی اور طویل عرصے میں حاصل ہوگی۔ وزیراعظم من موہن سنگھ جو معاشی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یورپ اور امریکہ کی مندی کے پیش نظر انڈیا کو اپنی اونچی جی ڈی پی گروتھ برقرار رکھنے کیلئے پاکستان سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے ہوں گے اور اس تناظر میں انڈیا اور پاکستان کے حکمرانوں اور بزنس کمیونٹی نے پاک انڈیا تجارت کے فروغ پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاک انڈیا تجارت کے سلسلے میں اپریل اور نومبر 2011ء میں دونوں ممالک کے سیکریٹریز تجارت کی اسلام آباد اور پھر دہلی میں ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں ممالک کی تجارت میں حائل رکاوٹیں ختم کرنے کیلئے ایک روڈ میپ تشکیل دیا گیا۔ 35سال کے بعد گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم100 بزنس مینوں اور فیڈریشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد کو دہلی لے کر گئے جس میں، میں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کی نمائندگی کی اور پاکستان اور انڈیا کے مابین حائل NTBsکو دور کرنے کے انڈیا کے تمام متعلقہ اداروں کے سربراہان کے ساتھ ملاقاتیں کیں جس میں ہم نے ایکسپورٹ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے ایک میکنزم پر اتفاق کیا۔ دہلی میں لائف اسٹائل پاکستان نمائش منعقد کی گئی جس میں پاکستان کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز اور تقریباً 600 مندوبین نے حصہ لیا۔ باسمتی چاول کی برانڈ رجسٹریشن کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے دہلی میں مذاکرات ہوئے۔ اسی دورے میں انڈیا کے وزیر تجارت نے خیر سگالی جذبے کے تحت WTOمیں یورپی یونین کی پاکستان کی75مصنوعات کو بغیر کسٹم ڈیوٹی کی امپورٹ پر اپنا دائر اعتراض واپس لے لیا۔ اس سال فروری 2012ء میں پاکستانی وزیر تجارت کی دعوت پر63 سال بعد انڈیا کے وزیر تجارت آنند شرما نے100 سے زیادہ انڈیا کے ممتاز بزنس مینوں، FICCI کے نمائندوں اور سارک چیمبر کے صدر کے ہمراہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کا تاریخی دورہ کیا۔ سافٹا معاہدے کے تحت پاکستان نے انڈیا سے مصنوعات کی امپورٹ کی منفی لسٹ کو ختم کرکے صرف1200آئٹمز کے علاوہ تمام مصنوعات کو انڈیا سے تجارت کی اجازت دے دی۔ اسی طرح انڈیا نے بھی اپنی منفی لسٹ میں کمی کرکے باقی تمام مصنوعات کی آزادانہ تجارت کی اجازت دی اور اپریل2013ء تک انڈیا صرف100مصنوعات کے علاوہ باقی تمام مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی کم کرکے صفر سے5% تک کردے گا جبکہ پاکستان کو یہ رعایت2017 ء تک کرنی ہوگی۔ اسی دوران پاکستان کی کابینہ نے انڈیا کو انتہائی پسندیدہ ملک (MFN)کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور دسمبر 2012ء تک پاکستان انڈیا کو (MFN) کا درجہ دے دے گا۔
انڈیا نے اپنے بزنس مینوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے جبکہ دونوں ممالک نے پاکستان کے نیشنل بینک، ایک نجی بینک اور انڈیا کے اسٹیٹ بینک آف انڈیا، بینک آف انڈیا اور بینک آف پنجاب کو اپریل 2013ء تک برانچیں کھولنے کی اجازت دی ہے۔ اٹاری واہگہ بارڈر پر نہایت جدید سہولتوں کیساتھ انٹریگریٹڈ چیک پوسٹ (ICP)ٹرمینل کا افتتاح کیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان اقدامات سے دونوں ممالک براہ راست تجارت سیسات ارب ڈالر کا باہمی تجارت کا ہدف حاصل کرلیں گے۔
20 ستمبر2012ء کو دونوں ممالک کے سیکریٹری تجارت نے اسلام آباد میں باہمی تجارتی تنازعات دور کرنے، کسٹم امور میں باہمی تعاون اور کوالٹی کے معیار کی تصدیق کیلئے3 معاہدوں پر دستخط کئے جس میں پاکستان کے نئے سیکریٹری تجارت منیر قریشی جو کسٹم، ایف بی آر، وزارت تجارت میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور پاک انڈیا چیمبر آف کامرس کے صدر ایس ایم منیر نے اہم کردار ادا کیا۔
اس اجلاس میں سندھ میں موناباؤ کھوکھراپار زمینی راستے سے دونوں ممالک میں تجارت کھولنے پر بھی بات چیت کی گئی۔ پاکستان کے ٹریڈ منسٹر نعیم انور نے بتایا کہ موناباؤکھوکھراپار کے راستے تجارت کھولنے پر اتفاق کرنے سے پہلے پاکستانی بزنس مینوں کو ہوم ورک کرنا ہوگا کہ اس سے زیادہ فائدہ انڈیا کو ہوگا یا پاکستان کو کیونکہ موناباؤ کھوکھراپار سرحد پر انڈیا کے بڑے صنعتی صوبے ہیں جہاں سے اشیاء نہایت کم لاگت پر پاکستان بھیجی جاسکیں گی جبکہ پاکستان میں کراچی سے اشیاء موناباؤکھوکھراپار کے زمینی راستے انڈیا بھیجی جاسکتی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بزنس مینوں کو ویزے کی نرم سہولتیں دینے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ چھوٹے بزنس مین جن کا سالانہ منافع کم از کم 5 لاکھ روپے ہو کو 5 شہروں کا ایک سال کا رپورٹنگ ملٹی پل ویزہ اور بڑے بزنس مینوں کو جن کا سالانہ منافع 30 لاکھ روپے ہوکو 10شہروں کا ایک سال کا نان رپورٹنگ ملٹی پل ویزہ 30 دن کی رہائشی سہولت کے ساتھ دینے پر اتفاق کیا گیا لیکن منافع ظاہر کرنے کیلئے انکم ٹیکس ریٹرن کی شرط پر پاکستانی بزنس کمیونٹی کو تحفظات ہیں اور اس کیلئے چیمبر اور فیڈریشن کی تصدیق کی متبادل پیشکش کی گئی ہے۔ بزنس مینوں کے علاوہ عام آدمیوں کیلئے سیاحتی اور زیارتی ویزے کیلئے بھی سہولتیں دی گئی ہیں جس میں سیاح اور زائرین گروپ کی شکل میں ٹور آپریٹرز کے ذریعے انڈیا اور پاکستان جاسکیں گے۔ دونوں ممالک کو احساس ہوا ہے کہ علاقائی تجارت ایک کامیاب ماڈل ہے اور انڈیا پاکستان باہمی تعلقات بہتر بنا کر خطے میں اپنے لوگوں کی معیار زندگی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
تازہ ترین