• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے تکبیر … پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
انسانی تخلیق کے قرآنی اور سائنسی مراحل کے مطابق رحم مادر میںنر اور مادہ جرثوموں کے ملاپ سے جماہواخون بنتا ہے جو بعد ازاں گوشت کے ایک لوتھڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ہڈیاں بنتی ہیں اور یہ گوشت ان پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ تقریبا چار ماہ کی مدت میں اس بدن میں روح ڈال دی جاتی ہے جس سے وہ حس و حرکت کے قابل ہوجاتا ہے۔ چھ سے نو ماہ کے عرصے میں مکمل انسانی صورت تشکیل پا جاتی ہے۔ قدرت کے اٹل قانون کے مطابق روح کے بدن میں رہنے کا وقت طے شدہ ہے اور اس مادی وجود سے روح کے پر واز کرنے کا نام’’ موت‘‘ ہے۔ موت ہمیں اپنی حیثیت یاد دلاتی رہتی ہے کہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے نہیں آئے بلکہ مسافر ہیں۔ ہرروزڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ انسان لقمہ اجل بنتے ہیں۔کسی عزیز کی موت کا رنج و غم ایک فطری عمل ہے البتہ اس صدمے کو صبر و استقامت اور حوصلے سے برداشت کرنا ہی بندہ مومن کے شایان شان ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پورے وقار اورادب واحترام کے ساتھ میت کی تکفین اور تدفین کی جائے۔میت کے ورثاء کے ساتھ اظہار ہمدردی وغم گساری کو ’’تعزیت‘‘کہا جاتا ہے۔تعزیت ایک مسنون عمل کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق بھی ہے۔مصیبت کے وقت کسی کو ذہنی وجذباتی سہارا دینا بہت بڑی مدد ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’جو اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میں اس سے اظہار ہمدردی کرتا ہے اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے قابل رشک پوشاک پہنائیں گے‘‘(تاریخ دمشق:کتاب الجنائز: رقم ۳۹۹۰۱) اس عمل کو خالصتاً قرآن وسنت کے مطابق رضائے الٰہی کیلئے بجالانا چاہئے تاکہ انسانی ہمددری کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی پیروی کا ثواب بھی حاصل ہو۔تعزیت کا وقت موت سے تین دن تک ہے۔اس کے بعدتعزیت کرنے کو پسندیدہ نہیں کہا گیا کیونکہ اس سے غم تازہ ہوگا البتہ اگر تعزیت کرنے والا یا جس سے تعزیت کی جارہی ہے وہاں موجود نہ ہو یا اسے علم نہ ہو تو تین دن کے بعد بھی تعزیت میں حرج نہیں۔خط وکتابت کے ذریعے بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔امام حاکم اور طبرانی کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہماکے لئے ان کے بیٹے کے انتقال پر تعزیت نامہ لکھوایا تھا۔تعزیت کرتے وقت میت کے لواحقین کو بھی دعاؤں میں یاد رکھا جائے۔یہ ایک مسنون طریقہ بھی ہے اوراس میں اہل میت کے ساتھ اظہار ہمدردی اور خیر خواہی بھی ہوتاہے۔تعزیت میں یہ بھی شامل ہے کہ اہل میت کے بچوں کی نگہداشت کا اہتمام ہو، ان کا دل بہلایا جائے اور انہیں اپنے گھر کے بچوں میں شامل کیا جائے، کیونکہ چھوٹے بچوں کو گھر میں کسی کے فوت ہونے کا کوئی احساس نہیں ہوتا ہے، لہٰذا اہل میت کے بچوں کا خیال رکھنا بھی تعزیت کی ایک صورت ہے۔ گھر میں وفات کے سبب غم والم کے شکار افراد کی تسلی،غمخواری وہمدردی کے لئے ان کی تعزیت کرنے سے دین اسلام کی عظمت اور اس کی خوبیوں کا مظاہرہ ہوتا ہے۔مسلمانوں میں یکجہتی اور ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اہل میت کی مصیبت میں تخفیف ہوتی ہے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی راہ پیدا ہوتی ہے اور اس طرح کے حالات میں انہیں خوشی ومسرت کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو کسی غیر مسلم سے سماجی تعلقات رکھنے اور ان کے ساتھ لین دین سے نہیں روکتا اسی طرح خوشی و غمی کے اظہار کے لیے مذہب یا رنگ و نسل کی بھی کوئی تفریق نہیں کرتا ہے۔اسلام انسانیت کے احترام کادرس دیتا ہے اور بحیثیت انسان ہر فرداحترام کا حقدار اور مستحق ہے چاہے وہ جس مذہب، رنگ ونسل سے تعلق رکھتا ہو۔ حدیث وسیرت کی کتابوں میں یہودی کے جنازے کا واقعہ موجود ہے کہ ایک دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو وہ کھڑے ہوگئے،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیاوہ انسان نہیں تھا؟غیر مسلم کی تعزیت کے سلسلے میں ایک فرق سمجھنا ضروری ہے کہ تعزیت، اظہارِ ہمدردی اور دعائے مغفرت میں بڑا فرق ہے۔ دعائے مغفرت صرف اہل ایما ن کے لیے کی جاسکتی ہے اور انہی کے ساتھ مخصوص ہے جبکہ غیر مسلم کی وفات پر اظہارِ ہمدردی کیا جاسکتا ہے۔خاوند فوت ہوجائے تو عورت کیلئے چار ماہ اور دس دن تک عدت اور سوگ کی مدت ہے۔ اس دوران عورت گھر میں عدت گزارے اور بناؤ سنگھار اور غیر ضروری زیب و زینت سے اجتناب کرے۔ اس دوران پیغام نکاح کی اجازت ہے جبکہ وہ نکاح نہیں کر سکتی۔ہماری سماجی زندگی میں کئی ایک خرافات نے جگہ بنا لی ہے جو وہاں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ اسلام میں ایصال ثواب ایک جائز اور مشروع عمل ہے جس پر قرآن و حدیث میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔ میت کیلئے دعائے مغفرت مسنون عمل اور سنت انبیاء ہے۔ البتہ ہمارے ہاں فوت شدہ فرد کے ترکہ سے جس طرح ایصال ثواب کے نام پر بے تحاشہ خرچ کرکے کئی کئی ڈشیں تیار کی جاتی ہیں جو کہ اصراف کے زمرے میں آتا ہے۔کسی کے مرنے کے بعد سوم چہلم وغیرہ میںجو عام دعوت ہوتی ہے، اس پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ نے مستقل ایک رسالہ تصنیف فرمایا، ’’جلیُّ الصوت لنھی الدعوۃ اَمامَ الموت‘‘ جو دعوتِ میت، کے نام سے شائع ہواہے، اس میں اور دیگر فتاوے میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اس کی ممانعت کی ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں۔’’مردہ کا کھانا صرف فقرا کے لیے ہے، عام دعوت کے طور پر جو کرتے ہیں یہ منع ہے، غنی (مالدار) نہ کھائے۔ (احکام شریعت دوم، ص 16)سوم دہم چہلم وغیرہ کا کھانا مساکین کو دیاجائے، برادری کو تقسیم یا برادری کو جمع کرکے کھلانا بے معنی ہے کمافی مجمع البرکات، موت میں دعوت ناجائزہے۔(فتاویٰ رضویہ ۴/ 223) ہمارے ہاں ایصال ثواب کے نام پر بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کے مال میں سے دعوتیں اڑائی جاتی ہیں جو کہ قابل مذمت عمل ہے۔ بعض غریب خاندان کے لوگ قرض لے کر ان دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں کہ ناک نہ کٹ جائے۔ اہل محلہ اورعزیز و اقارب کو چاہیے کہ کم از کم تین دنوں تک میت کے گھر آنے والے مہمانوں اور اہل خانہ کے لئے کھانے پینے کا بند و بست کریں۔ اسلام بہت آسان اور خوبصورت زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے لیکن بہت سی مشکلات رسم و رواج کے ہاتھوں ہم نے اپنے اوپر خود مسلط کی ہوئی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خرافات سے جان چھڑائی جائے۔ تلاوت قرآن، دعائے مغفرت،صدقہ و خیرات اور کلمات خیر کے ذریعے میت کو ایصال ثواب کیا جائے البتہ ان فضولیات کے خلاف عملی جہاد کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین