• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ برطانیہ یورپ مڈل ایسٹ پاکستان سمیت تقریباً ساری دنیا میں ایک ساتھ آغاز رمضان ہوا۔ جس سے عالمی سطح پر باہمی اتحاد و یکجہتی کا بڑا پیغام جائے گا۔ بالخصوص جو عالمی سطح پر تیزی سےتبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں بھی اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے۔ نہ صرف برطانیہ بلکہ مقامی کمیونٹی پر بھی ایک ساتھ آغاز رمضان کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ چونکہ مقامی سطح پر دیگر کمیونٹیز کے ساتھ براہ راست جان پہچان اور رابطے ہوتے ہیں اگر آدھے روزے سے ہوں اور آدھے انتظار میں ہوں تو بھی کنفیوژن ہوتا ہے۔ رمضان المبارک جو ایک خداوند کریم کی جانب سے ایک انعام کے طور پر مقدس مہینہ ہوتا ہے باقی عبادات کو دیکھا جائے تو ظاہری طور پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ نماز تراویح، تلاوت کلام پاک، حج زکوٰۃ سب کا بھرپور اہتمام کرنا پڑتا ہے جو سامنے نظر بھی آتا ہے۔ ہر ایک عبادت کا رب کریم کی جانب سے مخصوص اجر ہوتا ہے، ثواب کے ساتھ ذہنی روحانی سکون اور روز محشر میں جنت کی نوید بھی سنائی دیتی ہے۔ لیکن اگر روزہ کو دیکھا جائے تو جہاں روزہ صبر برداشت کا درس دیتا ہے وہاں رب کا قرب بھی ملتا ہے جس میں تقویٰ کو نمایاں مقام حاصل ہوتا ہے۔ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام ہی نہیں بلکہ مکمل تقویٰ اختیار کرنے کا نام ہے۔ ہمارے ہاتھ ہماری زبان قول و فعل میں خالصتاً تقویٰ اختیار کریں تو ارشاد ربانی ہوتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اسکا اجر دوں گا۔ رب کریم اپنی کریمی کے صدقے ہمارے روزے ہمارا تقویٰ قبول فرمائے، دراصل بات ہورہی تھی ایک ساتھ آغاز رمضان وہ تو ہوگیا، مگر ایک ہی ملک ایک ہی شہر میں انتہائے سحر اور افطار میں گھنٹوں کا فرق۔ کمیونٹی اور مسالک اس پر متفق نہ ہوسکے، ظہور اسلام سے لیکر ماضی قریب تک انتہائے سحر یا افطار پر کوئی خاطر خواہ اختلاف نہ تھا۔ لیکن جوں جوں ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہوا تو بے شمار مسائل سامنے آگئے صرف برمنگھم میں چند مساجد رات 1:32منٹ پر روز بند کرکے اڑھائی بجے نماز فجر کی جماعت کرا کر فارغ جبکہ دیگر سوا تین بجے 3:17روزہ بند کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ روزہ بند کرنے اور نماز فجر باجماعت ادا کرنے کے اوقات کار میں ڈیڑھ سے دو گھنٹوں کا بڑا فرق، اس پر علماء اکرام کو اجتحاد کی ضرورت ہے اپنے اپنے دلائل دینے کے بجائے اسکا مستقل حل نکالنا ہوگا۔ رمضان المبارک میں سب سے اہم اور خوشی کا موقع افطاری کا ہوتا ہے جب دن بھر روزہ دار بھوک پیاس برداشت کرکے تقویٰ اختیار کرکےاٹھارہ گھنٹوں سے زائد طویل دورانیہ کا روزہ مکمل کرکے افطاری کیلئے بیٹھتا ہے۔ قبولیت کی ان گھڑیوں میں اپنے رب کے کرم سے اسکا چہرہ خوشی سے شادمان ہوتا ہے۔ لیکن جب اپنے اردگرد کچھ نشستیں عین افطاری کے وقت خالی نظرآتی ہیں تو ان خالی کرسیوں سے جڑی یادیں آنسوئوں کی صورت میں آنکھوں سے برسنے لگتی ہیں۔ کسی کے سر سے شفقت کا سایہ اٹھ گیا ہوتاہے، کسی کا سہاگ اجڑ گیا ہوتا ہے تو کوئی اپنے لخت جگر یا کسی اور پیارے کو یاد کرتا ہے۔ ظاہر ہے ہمارے مذہبی تہوار ہمیں اپنے پیاروں کی یادیں ضرور دلاتے ہیں یہی بہترین موقع ہوتا ہے کہ ان کی بخشش کیلئے دعا مغفرت کی جائے۔ میرے والد محترم الحاج عبدالرحمٰن بھی گزشتہ برس اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے یہ رمضان ہماری پوری فیملی کیلئے اپنے پاپا کے بغیر پہلا رمضان ہوگا۔ رب کائنات سے اپنے بچھڑنے والوں کیلئے دعا مغفرت اور رمضان کے فیوز و برکات کے حصول کیلئے بھی دعا گو ہیں۔
تازہ ترین