• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست کے امور چلانے کیلئے حکومت کو پیسہ چاہئے جو زیادہ تر ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی صورت میں جمع کیا جاتا ہے۔ اس سے ملک کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات پورے کئے جاتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ترقی یافتہ ملکوں کی طرح حقیقی ٹیکس کلچر فروغ نہیں پاسکا، سرمایہ دار اپنا کاروبار بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے ملک کے وسائل سے تو فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اپنی آمدن میں سے مملکت کو اس کا جائز حصہ جو آئین اور قانون کے تحت مقرر کیا جاتا ہے دینے میں انتہائی بخل سے کام لیتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہوسکے حسابات میں ہیرا پھیری کے ذریعے سرکاری خزانے میں کم سے کم اور ممکن ہو تو کچھ بھی نہ جمع کرائیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر اراضی، بلند و بالا عمارتوں اور دوسری جائدادوں کی خرید و فروخت کے اعداد و شمار جمع کرکے ایسے 50 ہزار ٹیکس چوروں کا سراغ لگایا ہے جو غیر قانونی حربوں سے سالانہ کھربوں روپے کا ٹیکس ہڑپ کرلیتے ہیں ایف بی آر کے ایک اعلیٰ ذریعے کے مطابق ملک میںچندسال کے دوران ہزاروں قیمتی عمارتیں تعمیر کرکے بیچ دی گئیں، ان گنت رہائشی اسکیمیں تیار ہوئیں اور ان کے پلاٹ فروخت کردیئے گئے مگر ٹیکس چوروں نے انہیںگوشواروں میں ظاہر نہیں کیایاسرے سے گوشوارے ہی داخل نہیں کئے۔ ایسے 25 ہزار ٹیکس چور صرف کراچی میں ہیں۔ حکومت نے غیر قانونی ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو جائز بنانے کے لئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا اور ٹیکس چوروں کو موقع دیا تھا کہ وہ معمولی جرمانہ ادا کرکے اپنی دولت کو قانون کے دائرے میںلے آئیں۔ ایف بی آر نے وار ننگ دی ہے کہ یہ لوگ حکومت کی متعارف کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت یکم جولائی تک اپنے چھپائے گئے اثاثے ظاہر کردیں و رنہ سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ 30 جون تک ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائیگی لیکن یکم جولائی کے بعد وہ قانونی اقدامات سے نہیں بچ سکیں گے۔ ان کی ٹرانزیکشنز اور ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کئے گئے اعداد و شمار ان کے خلاف کارروائی میں ثبوت کے طور پر استعمال کئے جائیں گے۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ کیا گیا تو پورے ملک کا ٹیکس نظام خطرے میں پڑ جائیگا جو ملک دشمنی کے مترادف ہوگا۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں ماضی میں بھی حکومتیں متعارف کراتی رہی ہیں ان کا مقصد جہاں قومی خزانے میں چوری شدہ ٹیکس کی رقوم جمع کرانا ہوتا ہے وہاں ’’چوروں‘‘ کو معمولی سے جرمانے کے بعد کلین چٹ دینا بھی ہوتا ہے لیکن عملی طور پر دیکھا گیا ہے کہ اس رعایت سے کم ہی فائدہ اٹھا یا گیا جس کی وجہ سے یہ اسکیمیں ناکام ہوگئیں سیاسی اور کاروباری حلقے موجودہ حکومت کی اعلان کردہ ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں بھی ایسے ہی خدشات ظاہر کر رہے ہیں مگر ایف بی آر نے پچاس ہزار ٹیکس چوروں کا سراغ لگا کر قومی خزانے کو مزید نقصان پہنچانے کا راستہ بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اس کی حکمت عملی کامیاب ہوگئی تو اس سے مستقبل میں ٹیکس کلچر کے فروغ میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان میں زراعت، تعمیرات، رئیل اسٹیٹ، آئی ٹی، بینکنگ، ٹیکسٹائل، سیاحت اور معدنیات پر مبنی صنعتیں کاروبارکے وسیع مواقع فراہم کرتی ہیں کارکن اور ہنر مند زیادہ تر دیہی جبکہ ٹیکنوکریٹس اور اعلیٰ تعلیمی صلاحیتوں کے حامل افراد شہری آبادی سے مل جاتےہیں ان کی وافر تعداد میں دستیابی ملک کے زرعی ، صنعتی اور قدرتی وسائل بروئے کار لانے کے حوالے سے قدرت کا عظیم عطیہ ہے اس سے پاکستان جو اس وقت دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت ہے ترقی کی اعلیٰ منازل سے ہمکنار ہوسکتا ہے لیکن ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکس کلچر کو فروغ دیا جائے لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ان کی ایک مقررہ حد سے زائد آمدن میں ریاست کا بھی حصہ ہے جو انہیں ادا کرنا چاہئے پھر عملی اقدامات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ٹیکسوں کا پیسہ عوام پر ہی خرچ ہوکرپشن کی نذر نہ ہوجائے۔عوام کی آگہی کے لئے تشہری مہم بھی چلائی جائے۔

تازہ ترین