• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان المبارک کی سعید آمد پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے شریک چیئرپرسن، سابق صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے رابطہ عوام مہم کاآغاز لاہور سےکیا۔ پہلے روزے کے افطار ڈنر پر کارکنوں اور میڈیا سے مخاطب ہوئے اورکہا:’’مفاہمتی پالیسی پر عمل کرنے کو تیار ہیں لیکن بات بھٹو صاحب کے قتل سے شروع ہو گی۔‘‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین، دو بار پاکستان کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی درخواست سابق صدر کے عہد ِ صدارت سے عدالت ِ عظمیٰ پاکستان میں سماعت کی منتظر ہے۔ سابق صدر نےاپنے خطاب میں عدالت ِ عظمیٰ کی توجہ اس زیرالتوا اپیل یا درخواست کی جانب دلائی ہے۔
بھٹو کی پھانسی سے ہم تہذیبی، ثقافتی، سماجی اضمحلال اور نامردی کا ہدف بنائے گئے بلکہ ان دونوں کاہم پاکستانیوں کی اکثریت کو شکار کیا گیا۔ یہ پاکستان کی بیدار متحرک سول سوسائٹی کا اجتماعی سطح پر فیصلہ کن قتل تھا۔ اسی کارن اسے ’’ام المقدمات‘‘ (مقدموں کی ماں) کا عنوان دیا جاچکاہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے دار و رسن کو اپنے معجز نما لمس سے پاکستانی معاشرے کو غم جاناں کا ایک ایسا مستقل روگ دیا جس نے اس کے رگ و پے میں خون کی شریانوں کی طرح بہنا شروع کردیا۔ پاکستانی عوام کو اس ’’معلق انصاف‘‘ کے کرب و ابتلا کی کہانی سے اَپ ڈیٹ رکھنا ناگزیر ہے۔ سابق صدر زرداری کی تازہ یاد دہانی سے یہ موقع دستیاب ہو چکا اس لئے اس زیرالتوا اپیل یا درخواست کی کہانی کا تفصیلاً دہرایا جانا بھی ناگزیر ہے!
کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کیس ری اوپن کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2011میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھٹو کیس ری اوپن کرنے کاریفرنس اس وقت کی وفاقی کابینہ کوبھیجا گیا۔ کابینہ نے 28مارچ2011 کو ریفرنس کی منظوری دی جس کے بعد 2اپریل 2011کو سیکرٹری قانون مسعود چشتی نے ریفرنس رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے کیا۔ سپریم کورٹ نے اس کی ابتدائی سماعت کے لئے 13اپریل 2011کو موضوع کے تعین اور متعینہ قانونی سوالات کے سقم کا آئینہ دار ہونے کے باعث اس ہدایت کے ساتھ وکیل ڈاکٹربابر اعوان کے حوالے کردیا:’’آپ اس میں متعینہ موضوع اور اس سے متعلق متعینہ قانونی سوالات شامل کریں۔‘‘ 
سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت کے عین مطابق صدارتی ریفرنس کا یہ تقاضا پوراکرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان 21اپریل 2011کی صبح عدالت ِ عظمیٰ پاکستان میںپیش ہوئے۔ عدالت نے مختصر جائزے کے بعد بھٹوکیس ری اوپن کرانے کا صدارتی ریفرنس سماعت کے لئے منظورکرلیا۔ عدالت ِ عظمیٰ نے لاہورہائی کورٹ سے بھٹو کیس کا اصل ریکارڈ طلب کیا اور لارجر بینچ تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے 2مئی 2011 سے روزانہ سماعت کرنے کاحکم جاری کردیا۔ وفاق کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے جو 5متعینہ سوالات آئین کے آرٹیکل 186کے تحت تحریری طور پر پیش کئے، وہ زیر مقدمہ سوالات یہ تھے!
۱۔ کیا یہ فیصلہ سپریم کورٹ سمیت ملک کی دوسری عدالتوں میں بطور نظیر پیش کیا جاسکتا ہے؟
۲۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی سزامیں آئین کے بنیادی حقوق سے متعلق آرٹیکلز کے تمام تقاضوں کو پورا کیاگیا؟
۳۔ کیا مخصوص حالات میں دی گئی سزا کا کوئی جواز بنتا تھا؟ کیا اسے قتل ِ عمد قراردیا جاسکتا ہے؟
۴۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی سزامیں اسلامی قانون کی پاسداری کی گئی؟
۵۔ جن شواہد اور مواد کی بنیاد پرشہید بھٹو کوسزا دی گئی، کیا وہ ریکارڈ کئے گئے؟
صدارتی ریفرنس میں اس ممکنہ بے انصافی کو ان الفاظ میں منعکس کیاگیا تھا:
’’ٹرائل آزادانہ ماحول میں نہ ہوا۔ ضیاء الحق کے دبائو پرفیصلہ سنایا گیا۔ نسیم حسن شاہ نے دبائو کا اعتراف کیاتھا۔ مقدمہ دوبارہ چلا کربھٹو کو بعد ازمرگ بری قرار دیا جائے۔‘‘ جون 2011تک وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔ جون 2011کے آخری ہفتہ میں بعض ججوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد بینچ مکمل ہونے تک سماعت ملتوی ہوگئی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اس دوران میں سابق چیف جسٹس کو خط لکھ کر جلد سماعت کرنے کی استدعا بھی کی جس کے نتیجے میں دسمبر 2011 میں ’’ام المقدمات‘‘ کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا۔ عین ان دنوں توہین عدالت کے ایک مقدمے کی وجہ سے عدالت ِعظمیٰ نے وکیل ڈاکٹربابراعوان کا لائسنس معطل کردیا۔ ایوان ِ صدر کو عدالت ِ عظمیٰ کی جانب سے زیربحث مقدمہ میں ان کی جگہ نیاوکیل مقرر کرنے کی ہدایت کے بعد سماعت پھر التوا میں چلی گئی۔ چار ماہ بعد مئی 2012میں وفاق کی جانب سے بیرسٹر اعتزاز احسن اس مقدمے میں وکیل نامزد کردیئے گئے۔ اس کے بعد آج مورخہ 23مئی 2018تک بھٹو کیس کی سماعت شروع نہیں ہوسکی۔ گویاجاری سماعت کو ملتوی ہوئے 6برس سے زائد ہونے کو ہیں!
سپریم کورٹ کے سینئرایڈووکیٹ عبدالباسط نے بھی ایک سینئر اخبار نویس سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا:۔ ’’3اپریل 1996کو ایف ایس ایف کے ان تین ملزموں کو اعتراف ِ جرم کی ترغیب کے لئے ان پرکس طرح کا دبائو ڈالاگیا تھا اور ان کے عزیزو اقارب کوکس طرح جنرل چشتی سے ملاقات کراکے انہیں مختلف ترغیبات دی گئیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان کے وکیل ارشاد حسین قریشی (اب مرحوم) نے اپنی پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا:’’مکمل فراڈ اور جھوٹ پر مبنی بھٹو کیس کا نئے سرے سے ٹرائل ضروری ہے۔ اس کے لئے صرف جنرل فیض علی چشتی کو پولیس تفتیش میں شامل کرلینا کافی ہوگا؟‘‘ 
وکیل ڈاکٹر بابراعوان نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ(اس وقت) افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم بینچ کی ہدایت اور حکم کے مطابق گو اپنے پانچ سوالات میں ’’متعینہ موضوع اور متعینہ قانونی سوالات‘‘ کا قانونی تقاضہ مکمل طور پر پورا کردیا۔ اس کے باوجود نہایت ادب کے ساتھ ’’ام المقدمات‘‘ کے اس زندہ المیے کے تناظر میں عدالت ِ عظمیٰ پاکستان کو ایک اور جہت سے بھی توجہ کی زحمت دی گئی یہ کہ ’’بھٹو صاحب کا مقدمہ ایک نہیں کئی ہیں۔ صدارتی ریفرنس میں صرف ایک مقدمے میں انصاف مانگا گیا ہے کیونکہ یہ مقدمہ قانون میں لاقانونیت کی انوکھی اور واحد مثال تھا۔ اس کےبعد کسی بھی دور کی عدلیہ نے (غلام ہویا آزاد) اس کا حوالہ تک منع کئےرکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرملزم تو کجا، پھانسی کاکوئی ایک ملزم بھی بھٹو صاحب کے ساتھ ’’انصاف‘‘ کو مثال بناکر سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرسکے گا۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109کے تحت دنیا میں کہیں اور کبھی پھانسی نہیں ہوئی۔‘‘
سابق صدر پاکستان نے اس صدارتی ریفرنس کے پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو کی ایک برسی پر کہا تھا:۔ ’’ہم نے 1973کا آئین بحال کرنے کی بات کی تو سیاسی اداکاروں کو یقین نہیں تھا۔ مجھے بھٹو اوربی بی کو روز ِ قیامت جواب دینا ہے، اس لئے ان کے خواب پورے کرنے ہیں۔ ہماری خواہش ہے بھٹو کاعدالتی قتل تاریخ سے مٹایا جائے جس کے لئے میں نے ریفرنس بھیج دیا ہے۔ ‘‘ اور انہوں نےمزیدکہا تھا:۔ ’’بھٹو کے عدالتی قتل کے فیصلے کو کسی چھوٹے سے چھوٹے جج نے بھی تسلیم نہیں کیا تو وہ کیسے جج تھے جنہوں نے ضیاء الحق کے پی سی او کومانا تھا، ہم نے تاریخ سے ایک حرف مٹانے کی بات کی ہے۔ بھٹو کیس ری اوپن کرنے کا وعدہ ہم سے ہمارے بچھڑے دوست نواز شریف نے بھی کیا مگر وہ نہ کرسکے یا انہیں کرنے نہ دیاگیا۔
ہم اخبار کی سرخیاں نہیں بناتے بلکہ اپنے لہو سے تاریخ لکھتے ہیں۔ بھٹو بننے کی کوشش تو سب کرتے ہیں مگر اس جیسی موت نہیں مانگتے۔ اب ریفرنس بھیجنے پرکسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ فیصلہ کرو کہ تم سے غلطی ہوئی اور معافی دینا ہمارا کام ہے۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل دراصل خوف زدہ عالمی استعمار اور پاکستان میں دائیں بازو کی پرشور اور بپھری ہوئی جنونی آفت کا نتیجہ تھا۔ عالمی استعمار کو حسب ِروایت ایک مسلمان ملک میں ریاستی جارحیت پسند اور خودساختہ اخلاقیات و مذہبی عقائد پر مبنی، دائیں بازو کے یہ افراد گروہ در گروہ میسر تھے۔ 1977کا قومی اتحاد ,(پی این اے) اس گروہ بندی کا کالا پہاڑ تھا جس کی چوٹی خونی دیوی کے آدم خور منہ اور جبڑوں سے مشابہ تھی۔ بھٹو تاریخ کا امر استعارہ اور ضیاء تاریخ کا سیاہ جنازہ۔ دونوں کی قبروںکے حال پروقت کی مہر تصدیق دیکھی جاسکتی ہے۔ کیا’’ام المقدمات‘‘ 39ویں برس بھی انصاف کی منتظر رہے گی؟

تازہ ترین