• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالم کاروبار چھوڑ کر بھی دیکھا ، چین نہ آیا کہ وطنی معاملات کی سنگینی عروج پر ہے۔ٹھیک دو ماہ پہلے ، 22مارچ کو کالم سپرد جنگ کیا ، قلم مستقلاً بند کہ وطنی حالات میں جتنا جھانکا، کرب ،تکلیف دباؤ جان کے در پے ۔کالم کی ضرورت ،وطنی حالات کا بنظر غائر جائزہ لوں ، باریک بینی سے چھان بین کیے بغیر قلم کا دم خم برقرار رہ ہی نہیں سکتا۔حالات کی بڑھتی سنگینی کالم مکمل کرتے کرتے نڈھال اور مضمحل کر جاتی۔آنکھ نے یہی کچھ دیکھا آنے والا ہر دن وطن کو ہلکان اور مجھے نیم جان کرنے کی گھات میں ہے۔ٹھیک چھ سال پہلے ،پہلی بار خود سے شناسائی ہوئی، کایا پلٹ گئی۔ نئی طاقت دریافت کی۔معلوم ہوا کہ بہترین دوست، ساتھی ، غمگسار، ہمدرد۔ من ہی من میں جب ڈوبا تو سراغ زندگی پایا۔ من نے طاقت دی تو اپنے سے منوایا بھی بہت کچھ ۔ من نے پکار پکار صدا دی ،کالم کنارہ کشی چین ہی چین ۔ وطنی سیاست و حالات سے صرف نظر سکون آور رہے گا۔میراادارہ بھی مشکلات کے گرداب میں ، چند سالوں میں دوسری دفعہ زندگی اور موت کی کشمکش میں، زندہ رہنے کے جتن میں جوبن لٹنے کو تھا۔ ادارے کے لیے قارئین اور اداروں کو ایک وقت مطمئن رکھنا، ناممکن ہوچکا تھا۔کالم نہ لکھنامشیت ایزدی اور نعمت جانا۔کدھر جاؤں کہ کالم چھوڑنے پررہا سکون بھی چھن گیا۔ 40سال سے وطنی حالات سے لف، اوڑھنا بچھونا ،لاتعلق کیسے رہ سکتا تھا۔ کالم اظہاریہ کم از کم غبار دل ، آندھی بن کر نکلنے کا ذریعہ تھا۔اعصاب مضمحل ضرور رہتے، ڈپریشن کا غلبہ بھی، بھڑاس کا نکلنا بہرحا ل تریاق تھا ۔ برادرم سہیل وڑائچ کی ایک کال پر دل پسیج گیا ،دوبارہ کالم لکھنے میں راہ نجات دیکھی، من پر تن کو ترجیح دی۔پیر و مرشد کی پندو نصیحت ، موجب حوصلہ بندی
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے ،پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کر لے
وطن عزیز دو متضاد گروہوں میں بٹ چکا، نواز شریف کے چاہنے والے ہمہ وقت ، ہمہ تن ایک ہجوم موجود۔جبکہ مخالفین کے نواز شریف کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ارادے اٹل ،کئی تیر ترکش سے باہر، ہر ہتھکنڈہ آزمانا ہے۔ ملک ایسے ٹکراؤ میں داخل۔
لگتا ہے وطنی نصیب پھوٹ چکے ہیں۔ جنہوں نے تحفظ گلشن کی قسم کھائی تھی ، ایک دفعہ پھر گلشن کو اجاڑنے، اکھاڑنے، پچھاڑنے میں حال مست ، مستقبل غافل ہو چکے ہیں۔22مارچ کا کالم ، اپنی استعداد اور قابلیت کے لحاظ سے ایک جامع تجزیہ اور اگلے چند ماہ میں جو کچھ ہونے کو ، اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق نقش کر دیا۔ بدقسمتی، لگتا ہے آج کا اسکرپٹ ہی تو تھا کہ رو بہ عمل حرکات و سکنات کے عین مطابق ۔ اگلے چند مہینے مزید تباہی کے دہانے پر ، متضاد مزید بیج، مزید آبیاری، مزید بھیانک نتائج۔کئی دفعہ لکھ چکا ہوں ، ٹی وی پروگراموں میں درج کروا چکا ہوں ، 2018 کا ممکنہ الیکشن 1970 کے الیکشن کا من و عن عکس رہنا ہے۔مماثلت و مطابقت دیدنی ہوگی۔آئن اسٹائن کا قول ’’ایک تجربہ بار بار، نتائج مختلف ڈھونڈنا حماقت کی معراج ہے‘‘ ۔1971 میں پاکستان دو لخت ہوا ۔19 سال کی عمر نہ تین میں نہ تیرہ میں ، ان مٹ نقوش چھوڑ گئے۔ایک لا اُبالی کھلنڈرے کو سنجیدہ، نظریاتی راسخ العقیدہ بنا گیا۔پاکستان کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم دے گیا۔آنے والے و قتوں میں اپنا حصہ ڈالوں گا۔50سال بعد، معلوم کر کے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں مسلح طاقت کے آگے نہتا عقل و شعوربے دست وپا ، بے بسی مقدر ہے۔پاکستان بچانا نا ممکن ، جب طالع آزما ، مفاد پرست سیاستدان اندھا دھند اقتدار ہتھیانے کے در پے ہوجائیں ۔جنرل یحییٰ خان ٹو لے کو بھی معلوم نہ تھا کہ طاقت کے بل بوتے حال مست ضرور، بپھرے حالات میں مستقبل کا تعین ارد گرد بیٹھی خون خوار بین الاقوامی فورسز کریں گی۔تاریخ سے سبق کسی نے نہیں سیکھا، ہم کیوں سیکھیں ۔آج کے حالات میں مطابقت، مماثلت، نئے صوبوں کے لیے آوازیں، قبائلی علاقوں میں شورشیں،بلوچستان کے معروضی حالات جبکہ نا اہل ، غبی۔بدمست ایسے ان حالات میں مرضی کے نتائج برآمد کرنے کے لیے پرعزم،16دسمبر 1971کی تاریخ دوبارہ سامنے ، دودھ کے جلے، دوبارہ دودھ میں اُبال دیکھ رہے ہیں ۔کالم چھوڑ کر چین بھلا کیسے آتا ۔
وثیقہ نویس دھڑا دھڑ اقرار ناموں پر دستخط کروا رہے ہیں، بانٹ رہے ہیں ۔ عمران ایک بار پھر 500 روپے کے اشٹام لکھ کر اپنی حکومت آنے کی نوید سنا رہا ہے ۔ یقین دلا رہا ہے۔ایسی طفل تسلیاں 2013میں بھی، آنے جانے والوں کو اپنے وزیر اعظم بننے کا مژدہ دے رہا تھا۔ طالوت اور جالوت کے تقابلی جائزے پر حکمران کی قرآن نے دو صفات بتائیں ذہنی طور پر مستحکم (Sound) اور حکمت و عرفان سے مزین ہی بہترین حکمران۔ نادان عمران کیسے سمجھ بیٹھا کہ مہربانوں کی ساری تگ و دو اس کے سرپر سہرا سجانے کا بندو بست ہے۔ خام خیالی، جب یہ بندوق میری ہے تو حکومت کیوں تمہاری ہے۔ وثیقہ نویس جتنے مرضی اقرار نامے لکھوا لیں،عمران خان جتنے مرضی اشٹام لکھ لکھ بانٹیں ۔ بات حتمی مہرہ بن کر ، طاقت اور قوتوں کا جھوٹا کھا کر، آلہ کار بن کر ، فیصلہ کرنے کا اختیار بھلا کیسے مل سکتا ہے ۔ابھی تو پہلا مقابلہ زرداری سے کہ دونوں میں کون آگے ۔جو آگے وہ بڑھ ضرور گیا۔ PTI یا PPP میں سے کسی کو بننا ہے، اس کا فیصلہ بھی بہرحال باہرمحفوظ مقامات پر ہی ہوگا۔مینار پاکستان پر 23 مارچ2013 کے جلسے میں بھی 6 نکات دیئے تھے،اسکا ذکر کہیں نہیں ۔نئے گیارہ نکات سامنے آچکے کہ کہنے میں کیا حرج ہے؟ KPمیں با اختیار حکومت ایسے ملی، 28فیصد ووٹ اور 26فیصد نمائندگی ضرور، حکومت پوری ملی،پنجاب سے زیادہ بااختیار ، سپریم کورٹ اور نیب کی تانک جھانک سے تقریباً پاک ۔ پس پردہ قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ۔ دوسری طرف پس پردہ قوتیں پنجاب کے ہر طرح کے ترقیاتی کاموں کے آگے سیسہ پلائی دیوار، شہباز شریف نے دھرنوں، لاک ڈاؤن، اسٹے آرڈر، کوئی کوشش بار آور نہ ہونے دی۔ ناکام بنایا۔ پنجاب کو آسمان پر پہنچایا۔ ترقی شرح نمو سے لے کربنیادی میگا انفرا سٹرکچر،نئے اسپتال اور اسپیشلائزڈاسپتال، نئی بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹیاں ، کالجز، دانش اسکول، فرانزک لیب ، ٹیسٹنگ لیبارٹریاں 10ہزار میگا واٹ بجلی پنجاب کی پہچان بن چکے ہیں۔ آسمان کو منہ چڑھانا ہی کہ فیتا کاٹنے پر اعتراض ، جبکہ خود موصوف چھوٹی سڑک سے لے کر معمولی پروجیکٹ کا فیتہ کاٹتے ہوئے کبھی ہچکچاہٹ نہ رہی۔ پانچ سال پہلے کیے وعدے و عید آج ہوا میں معلق۔نئے گیارہ نکات پیش ،جھوٹ کے پاؤں نہیں، یہی وجہ ہر دفعہ نان پرفارمنس کی وجہ مختلف بیان فرمائی ۔ ایک سال پہلے بنوں میں جلسہ عام سے خطاب کرتے لوگوں سے پوچھا کہ پولیس، تعلیم، صحت کا نظام بدل دیا؟ سامنے بیٹھے جنگجو پٹھانوں نے کڑاکے نکالے ’’ نہیں نہیں‘‘ کا شور مچا دیا۔وعدے تو350 ڈیم بنانے کے بھی،نئے اسپتال، تعلیمی ادارے ، کرکٹ گراؤنڈ بنانے تھے، ؎شیخ جو پہنچے محشر میں اعمال ندارد/ جس مال کے تاجر تھے وہ مال ندارد۔
KPکا اقتدار سنبھالا تو بڑھکیں سنبھالی نہیں جا رہی تھیں ، وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری بنانا تھا ، ڈیڑھ کروڑ کا سوئمنگ پول بنانا پڑ گیا۔ سارے پاکستان کو بجلی فراہم کرنا تھی ،پانچ سال تک 80 میگا واٹ کا ہدف پا لیا۔اس رفتار سے اگلے پچاس سالوں میں 800 میگا واٹ پلک جھپکتے میںحاصل ہو جائے گا۔ آئیں بائیں شائیں کے بعد میٹرو بس بنانے کی ٹھانی مگر ٹُھس،اہلیت غیر موجود، بن کھلے پروجیکٹ مرجھا گیا۔KPK میں قرضے بڑھ گئے، دعویٰ آئندہ اقتدار میں قرضے ختم کرنے کا۔ خیبر بینک سنبھالا نہیں گیا، دیوالیہ ۔ تعلیمی نظام اور نصاب کا بیڑا غرق ہوچکا ۔ پورے صوبے کے کسی اسپتال میں برن یونٹ، ذہنی چوٹ کے امراض کا علاج، دل کا اسپتال، کڈنی لیور ٹرانسپلانٹ، ٹیسٹنگ لیبارٹری ، فرانزک لیب ، واٹر ٹیسٹنگ لیب سب کے لیے پنجاب ۔صوبے کا سب سے بڑااسپتال لیڈی ریڈنگ ، سپریم کورٹ کو بدحال ملا، دوسرے بڑے ایوب میڈیکل کمپلکس بارے سپریم کورٹ کے ریمارکس کہ آپریشن تھیٹر کتوں کے آپریشن کے قابل بھی نہیں۔ پانچ سال پہلے کے چھ نکات ، آج کے گیارہ نکات حکومت سنبھالنے کا عزم صمیم، بڑی بڑی بڑھکیں، بلند بانگ دعوے ، جھاکا اور عوام کو چہ وقوف بنانے کی واردات ، اصلاً خود فریبی اور اپنے آپ اور لواحقین کو دھوکہ دہی ہے۔ بد قسمتی سے جھگڑا KPK سے بہت اوپر ، سب کچھ مفروضہ، اصل لمحہ فکریہ ، وطن کاتیا پانچا ہونے کا سامان بن چکا ۔
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین