• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی فنکار کیلئے وہ لمحہ بڑا یادگار ہوتا ہے جب اُس کا تخلیق کیا ہوا شاہکار حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ کچھ اِسی طرح کی کیفیت سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اُس وقت دوچار ہوئے جب گزشتہ دنوں انہوں نے اپنی حکومت کے شاہکار ’’اورنج لائن میٹرو ٹرین‘‘ کی آزمائشی سروس کا افتتاح کیا اور اِسی ٹرین میں سوار ہوئے۔ جوں جوں اورنج ٹرین ٹریک پر آگے بڑھتی جارہی تھی، اس موقع پر شہباز شریف کے چہرے پر خوشی قابل دید تھی جو اپنے تخلیق کئے گئے شاہکار پر فخر محسوس کررہے تھے اور کیوں نہ کرتے کہ یہ منصوبہ ان کے ترقیاتی منصوبوں کا قابل ستائش اور اہم ترین منصوبہ تھا جسے انہوں نے تمام تر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود مکمل کیا تھا جس پر ان کی حکومت اور پارٹی کو بجا طور پر فخر تھا۔
اورنج لائن میٹرو ٹرین کو ’’لاہور میٹرو ٹرین‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اورنج لائن اُن تین تجویز کردہ لائنوں کی پہلی لائن ہے جو 27 کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں تقریباً 25 کلومیٹر لائن دبئی میٹرو ٹرین کی طرح Elevated یعنی بلندی اور تقریباً 2کلومیٹر انڈر گرائونڈ پر مشتمل ہے۔ یہ پروجیکٹ 26 اسٹیشنوں پر مشتمل ہے جس میں انارکلی اور سینٹرل اسٹیشنز انڈر گرائونڈ ہیں جبکہ 24 اسٹیشن بلندی پر ہیں۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین سے یومیہ 2لاکھ 50ہزار مسافر سفر کریں گے۔ یہ منصوبہ شہباز شریف کا آئیڈیا تھا جس کے معاہدے پر 2014ء میں حکومت پاکستان اور چین کے درمیان دستخط ہوئے تھے۔ منصوبے کا تخمینہ تقریباً 1.6 ارب ڈالر تھا جس میں 300 ملین ڈالر وفاقی حکومت، 1.5 ارب ڈالر چین کے ایگزم بینک اور باقی پنجاب حکومت نے فراہم کئے۔ چین سے لیا گیا قرضہ حکومت پنجاب 20 سال میں ادا کرے گی۔ واضح رہے کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر اکتوبر 2015ء میں کام کا آغاز ہوا تھا اور مارچ 2018ء تک منصوبے کی تکمیل ہونا تھی مگر شروع دن سے ہی یہ منصوبہ مخالفین کیلئے ’’خوفناک خواب‘‘ تھا کیونکہ اُنہیں معلوم تھا کہ اگر یہ منصوبہ الیکشن سے پہلے مکمل ہوگیا تو یہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک میں اضافہ کرے گا، اس لئے مخالفین نے لاہور کی تاریخی حیثیت متاثر ہونے کی آڑ کا بہانہ بناکر منصوبے پر لاہور ہائیکورٹ سے اسٹے آرڈر لے لیا جس کے باعث 2016ء میں منصوبے پر کام رکوادیا گیا تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ آنے کے بعد منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہوا۔ شہباز شریف آج یہ کہنے میںحق بجانب ہیں کہ اگر تحریک انصاف کی وجہ سے منصوبے کے 22 ماہ ضائع نہ ہوتے تو کئی ماہ قبل ہی لوگ اورنج لائن میٹرو ٹرین سے سفر کررہے ہوتے تاہم اب توقع ہے کہ ساڑھے تین ماہ بعد لاہور کے شہری اورنج لائن میں سفر کررہے ہوں گے۔ شہباز شریف یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ’’قوم اورنج لائن منصوبے میں تاخیر کا بدلہ پی ٹی آئی سے الیکشن میں لے گی۔‘‘
ایسے میں لاہور کے شہری جب اورنج لائن ٹرین منصوبے کے افتتاح پر خوشیاں منارہے تھے اور شہباز شریف کو اپنے کاندھوں پر اٹھارہے تھے، دوسرے صوبوں کے عوام یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ اُن کے صوبوں میں حکمرانوں نے سہانے خواب دکھانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عوام کے غصے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخواپرویز خٹک نوشہرہ میں اپنے حلقے میں گئے تو لوگوں کی بڑی تعداد نے اُنہیں گھیرلیا اور سیاہ جھنڈے لہرائے۔ اس موقع پر انہوں نے عمران خان اور پرویز خٹک کے خلاف نعرے بازی کی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف حکومت نے وعدوں اور نعروں کے سوا ہمیں کچھ نہیں دیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ پرویز خٹک طیش میں آکر مظاہرین پر برس پڑے اور کہا کہ ’’میری خدمت کے صلے میں آپ سیاہ جھنڈے لہرا رہے ہیں، آپ نے آئندہ الیکشن میں جسے ووٹ دینا ہے دیں اور جسے ووٹ نہیں دینا نہ دیں۔‘‘
صوبہ سندھ کی صورتحال بھی خیبرپختونخوا سے مختلف نہیں بالخصوص کراچی کے شہری لاہور کی ترقی دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہیں کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور کو ترقی دے کر پیرس بنادیا ہے جبکہ کراچی موہنجو ڈارو کا منظر پیش کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں جب شہباز شریف کراچی تشریف لائے تو میں نے مسلم لیگ (ن) بزنس فورم کے صدر کی حیثیت سے ایک بڑے عشایئے کا اہتمام کیا جس میں بزنس مینوں اور شہر کی معزز شخصیات نے اپنی فیملی کے ہمراہ بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے صوبہ پنجاب بالخصوص لاہور میں جاری اپنے ترقیاتی منصوبوں کی ویڈیو دکھائی تو تقریب میں موجود ہر شخص کی آنکھیں کھلی رہ گئیں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ کاش کہ سندھ کے حکمرانوں نے لاہور کے ترقیاتی کاموں طرح کراچی میں ترقیاتی کام کئے ہوتے تو آج شہر کی یہ حالت نہ ہوتی۔ دوران تقریب لوگوں کی بڑی تعداد نے شہباز شریف سے درخواست کی کہ خدارا آپ ڈیپوٹیشن پر ہی کراچی آجائیں تاکہ یہ شہر بھی لاہور کی طرح ترقی کرے۔ اس موقع پر شہباز شریف نے وعدہ کیا کہ اگر آئندہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہوئی اور وہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو وہ وعدہ کرتے ہیں کہ لاہور کی طرح کراچی کو بھی ترقی یافتہ شہر بنادیں گے۔
ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نہ خود کام کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو کام کرنے دیتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے کراچی کے شہریوں کی ٹرانسپورٹ مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے 3 سال قبل سرجانی ٹائون سے کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن تک 35 کلومیٹر طویل گرین بس لائن منصوبے کا اعلان کیا جس کیلئے وفاقی حکومت نے اربوں روپے سرمایہ بھی فراہم کیا اور الیکشن سے قبل منصوبے کی تکمیل ہونا تھی مگر الیکشن سے پہلے منصوبے کی تکمیل شاید پیپلزپارٹی حکومت کے مفاد میں نہیں تھی، اس لئے حیلے بہانوں سے منصوبے میں تاخیر کی گئی، اس طرح یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا اور عوام ایک بار پھر سیاست کا شکار ہوگئے۔
یو این ڈی پی کی نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب انسانی ترقی کے حوالے سے سب سے آگے ہے جبکہ خیبر پختونخوااور سندھ ،جنوبی پنجاب سے بھی پیچھے ہیں۔ شہباز شریف کے انفرااسٹرکچر، میٹرو بس، اورنج ٹرین اور دیگر منصوبے پنجاب کی پہچان بن گئے ہیں، اس لئے سندھ اور کراچی کے کامیاب دوروں سے پی پی حکومت پریشانی سے دوچار ہے، یہی وجہ ہے کہ پی پی کے کچھ رہنما گھبراہٹ میں یہ کہتے سنے گئے کہ ’’اگر ہم آئندہ الیکشن میں منتخب ہوکر آئے تو لاہور کو بھی کراچی کی طرح ترقی دیں گے۔‘‘ گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے یہ مضحکہ خیز بیان دے کر سب کو حیران کردیا کہ ’’ترقی کیا ہوتی ہے، اگر کسی نے ترقی دیکھنا ہے تو میرے ساتھ سندھ چلے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ورلڈ کپ اور شوکت خانم اسپتال کو ان کیش کرانے میں نہایت کامیاب رہے ہیں اور آئندہ الیکشن میں وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن افسوس کہ مسلم لیگ (ن) حکومت جس کے دور میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے، ملک بھر میں موٹر ویز کا جال بچھا، دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ پر قابو پایا گیا بالخصوص کراچی میں امن و امان قائم ہوا اور شہر کی رونقیں واپس لوٹائیں، اپنے کارناموں کو ان کیش (Encash) نہ کراسکی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عوام سیاستدانوں کی سب سے بڑی عدالت ہوتے ہیں، اگر آپ نے عوام کی بہتری کیلئے کام کئے ہیں تو وہ کبھی آپ کو مایوس نہیں کریں گے اور جیل میں بھی آپ کو وزیراعظم بنادیں گے لیکن اگر آپ نے عوام کو جھوٹے وعدوں اور نعروں کے سوا کچھ نہیں دیا تو اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی آپ کو عوام کے سیاہ جھنڈوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین