• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسن، حسین اپنے عمل کے خود ذمہ دار،خاندانی کاروبار سے تعلق نہیں، نواز شریف

حسن، حسین اپنے عمل کے خود ذمہ دار،خاندانی کاروبار سے تعلق نہیں، نواز شریف

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے جاری کردہ سوال نامہ کے جوابات دیتے ہوئے قطری خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ʼخطوط کی تصدیق خود حمد بن جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کی جب کہ وہ بیان دینے کو بھی تیار تھے لیکن جے آئی ٹی نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا، قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا،ایون فیلڈ کی سیٹلمنٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں، واجد ضیا کا سارا بیان رائے پر مبنی تھا جو جے آئی ٹی نے خود بنایا، جے آئی ٹی کی رائے قابل قبول شہادت نہیں، واجد ضیاء قابل اعتبار گواہ نہیں، وہ ملزمان کو کیس میں ملوث کرنے کے لئے جعلسازی بھی کر سکتے تھے، حسین اور حسن نوازاس عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار دیے گئےہیں تاہم اس بات کو میرے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا، حسن ،حسین اپنے عمل کے خود ذمہ دار،خاندانی کاروبار سے تعلق نہیں،قطری شہزادے کے معاملے سے میراتعلق نہیں، وہ بیان دینے کیلئے تیار تھے واجد ضیا نے غیرقانونی رکاوٹ ڈالی ۔منگل کو نواز شریف نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے جاری کردہ 128 سوالات پر مشتمل سوال نامہ کےمزید 68 سوالوں کے جواب دیے جس کے بعد فاضل جج محمد بشیر نے ریفرنس کی سماعت آج صبح 9 بجے تک ملتوی کر دی۔ سابق وزیر اعظم آج بقیہ پانچ سوالوں کے جوابات دیں گئے جس کے بعد مریم نواز اورپھر کیپٹن ر محمد صفدر عدالت کی جانب سے جاری کرہ سوال نامہ کا جواب دیں گئے۔ نواز شریف نے سماعت کے دوران قطری شہزادے کے خط، گلف اسٹیل ملز، کیپٹل ایف زیڈ ای سمیت دیگر اثاثوں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جواب دیے۔ نواز شریف نےجوابات کے دوران قطری خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ʼخطوط کی تصدیق خود حمد بن جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کی جب کہ وہ بیان دینے کو بھی تیار تھے لیکن جے آئی ٹی نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا،نواز شریف نے کہا کہ میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی منی ٹریل سے متعلق ورک شیٹ کی تیاری میں بھی شامل نہیں تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ واجد ضیا کا سارا بیان اپنی رائے پر مبنی تھا جو جے آئی ٹی نے خود بنایا، جے آئی ٹی کی رائے اور واجد ضیاء کے اخذ کردہ نتائج قابل قبول شہادت نہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ʼقطری خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری اور ایون فیلڈ کی سیٹلمنٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔نواز شریف نے کہا کہ واجد ضیاء کے مطابق حمد بن جاسم میرے کہنے پر شامل تفتیش نہیں ہوئے جو بھونڈا الزام ہے جب کہ واجد ضیاء نے خود اپنے بیان میں کہا کہ جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا کہ کسی کو بھی سوالنامہ نہیں بھیجا جائے گا،واجد ضیاء نے جان بوجھ کر قطری شہزادے کا بیان قلمبند کرنے کیلئے ٹال مٹول سے کام لیا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ دوران جرح واجد ضیاء نے تسلیم کیا کہ جرمی فری مین کو سوالنامہ بھجوایا گیا، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ واجد ضیاء قابل اعتبار گواہ نہیں، وہ ملزمان کو کیس میں ملوث کرنے کے لئے جعلسازی بھی کر سکتے تھے۔نواز شریف نے مزید کہا کہ میں اس بات کا گواہ نہیں ہوں کہ مریم نواز نے واجد ضیاء کو ٹرسٹ ڈیڈ دیں، وہ جانبدار، متعصب اور مجھ سے مخالفت رکھتے ہیں۔ نواز شریف کی جانب سے خواجہ حارث سوالات کے جواب پڑھ رہے تھے جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے ملزم کے بیان قلمبند کیے جانے کے طریقے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ 6 دن کی لکھی ہوئی کہانی پڑھ کر سناتے رہیں، 342 کے بیان میں ملزم بیان قلمبند کرانےکے دوران صرف قانونی نکات پر وکیل سے مدد لے سکتا ہے۔اس موقع پر فاضل جج نے سردار مظفر کو کہا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ بتائیں جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے۔نواز شریف نے اس موقع پر کہا کہ میں اس بیان پر قائم ہوںاور یہ بیان میں نے خود وکیل خواجہ حارث کی مشاورت سے تیار کیا ہے، اگر میں زیادہ دیر تک پڑھتا رہوں تو گلے میں مسئلہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے خواجہ صاحب کو پڑھنے کا کہا، نیب کو اس پر اعتراض کرنا تھا تو گزشتہ روز کرلیتے۔نیب پراسیکیوٹر کے اعتراض کے بعد نواز شریف نے خود بیان پڑھنا شروع کر دیا،سردار مظفر نے کہا کہ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو سوالات وکیل صفائی کو یو ایس بی میں دے دیں، ایسا کرنے سے عدالت کا وقت بھی بچ جائے گا۔ ʼکیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق سوال پر نواز شریف نے کہا کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای کا کبھی مالک، بینفشل آنر، ڈائریکٹر، یا شئیر ہولڈر نہیں رہااور نہ ہی کیپیٹل ایف زیڈ ای کے کسی لین دین سے میرا تعلق ہے، عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویز ات سے متعلق نواز شریف نے کہا کہ ہ دستاویزات قانون شہادت کے تحت قابل قبول نہیں، واجد ضیا نے بیان رکارڈ کراتے ہوئے یہ دستاویز مذموم مقاصد کے تحت پیش کیں، اس دستاویز کا عائد کی گئی فرد جرم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نواز شریف نے کہا کہ کمپنی کے قرض اور لین دین کے معاملات سے بھی کوئی تعلق نہیں، متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کا خط کسی ایم ایل اے کے جواب میں آیا تو معلوم نہیں۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عرب امارات کی وزارت انصاف کے خط کو کبھی ریکارڈ پر بطور شواہدنہیں لایا گیا اس لیے اسے بطور شہادت استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

تازہ ترین