• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی جمہوریت کو بالغ ہونے کے لئے تسلسل کے ساتھ مزید کچھ انتخابات کی ضرورت ہے تا کہ حکومت اور اپوزیشن میں باہم اعتماد کی کوئی سطح قائم ہو سکے۔ انہیں یہ خدشہ نہ رہے کہ نگراں انتخابات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اور وہ نگرانوں کے انتخاب میں اتفاق رائے سے فیصلہ کرسکیں۔ عبوری یا نگراں حکومت کا کردار نہایت محدود ہونا اور کسی صورت انہیں انتخابی عمل پر اثرانداز نہیں ہونے دینا چاہئے۔ ان کا کردار نہایت شفاف اور کوئی سیاسی عزائم نہیں ہونے چاہئیں۔ حکومت اور اپوزیشن درست اور راست نگرانوں کے انتخاب میں وقت لے سکتے ہیں۔ شاید عبوری نظام کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے لیکن نگراں وزیراعظم کو اس بات پر بھی نظر رکھنا ہوگی اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ بیرونی عوامل بھی عام انتخابات پر اثرانداز نہ ہوں، ورنہ خود ان کی ساکھ دائو پر لگ جائے گی۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن الیکشن کمیشن پر اعتماد کریں کیونکہ انہوں نے خود ہی اتفاق رائے سے چیئرمین کا انتخاب کیا اور الیکشن کمیشن کو بااختیار بنایا ہے۔ مضبوط الیکشن کمیشن اور غیر جا نبدار نگراں نظام کے ذریعہ پولیٹیکل انجینئرنگ کے الزامات کو ختم نہیں تو کم از کم کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر عبوری وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے نہ ہوا جیسا کہ 2013ء میں ہوا تو یہ بڑی بدقسمتی ہوگی۔ عبوری حکومت بڑے مختصر عرصہ کے لئے ہوتی اور اس کا کردار نہایت محدود ہوتا ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے درمیان بدا عتما د ی اور ایک دوسرے پر بھروسے کا فقدان ہمیشہ تنازعات اور بحرانوں کا باعث ہوا ہے۔ حتٰی کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سیاسی جماعتوں نے عبوری نظام کیلئے ماضی کے برخلاف غیرجانبدارانہ میکانزم ترتیب دیا۔ لیکن عبوری وزیراعظم کے نام پر تادم تحریر حکومت اور اپوزیشن میں ’’راضی نامہ‘‘ طے نہیں ہوا۔ توقع ہے اس بار ایسا ہو جائے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کو مزید اختیارات تفویض کئے گئے۔ اس کے باوجود حکومت اور نہ ہی اپوزیشن اس پر بھروسہ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین کو حکومت (وزیراعظم) اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے چنا گیا۔ الیکشن کمیشن کو بھی اپنے اختیارات باور کرانے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اس کی پشت پناہی کرے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے بہترین کوششیں کیں لیکن بالآخر انہیں آزدانہ و منصفانہ انتخابات نہ کرانے کے الزام کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے ہی سے چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا۔ چونکہ وہ ایک دیانت دار انسان تھے لہٰذا انتخابات کے فوری بعد مستعفی ہوگئے۔ 2008ء کے بعد سے یہ تیسرے عام انتخابات ہیں لیکن گزشتہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں ’’دوستانہ تعلق‘‘ کے حوالے سے تنقید کے باوجود اتفاق رائے نہ ہو سکا تھا۔ اگر آج ان کے درمیان نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے۔لیکن مرکزی سیاسی دھارے کی تیسری سیاسی جماعت تحریک انصاف نے اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ لہٰذا بہترین ممکنہ حل یہی ہے کہ عبوری حکومت کا کردار مزید محدود کیا جائے۔ نگراں نظام کے تحت عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ 1977ء سے کیا جا رہا ہے جب مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے الزام کے بعد سیاسی بحران کے باعث پیپلزپارٹی اور پی این اے نے غیرجانبدار سیٹ اَپ پر اتفاق کیا۔ لیکن اس سے قبل وہ سمجھوتے پر دستخط کرتے 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگا دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے عدلیہ کی مدد سے نہ صرف آئین میں بڑی ترامیم کیں بلکہ الیکشن کمیشن کو بھی اپنے تابع لے آئے۔ ان کے تحت ریفرنڈم سے عزائم اور نظام پر ضیاء الحق کے کنٹرول کا اظہار ہوتا ہے۔ حتٰی کہ 1985ء کے انتخابات کا اپوزیشن نے قبل از انتخاب دھاندلی قرار دے کر بائیکاٹ کیا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے مئی 1988ء میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا تو اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ گو کہ عدالت عظمیٰ نے حکومت برطرفی کے اقدام کو غیرقانونی قرار دیا۔ لیکن حکومت بحال نہیں ہوئی بلکہ جنرل ضیاء الحق سے نگراں حکومت کے تحت انتخابات کرانے کے لئے کہا گیا۔ لیکن طیارے کے حادثے میں ان کی موت تک یہ انتخابات نہیں ہوئے اور سپریم کورٹ احکامات کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے انتخابات نہیں کرائے گئے۔ 1988ء میں نگراں حکومت کے تحت انتخابات ہوئے اور پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی۔ لیکن بے نظیر بھٹو مرحومہ نے بیرونی اثر و نفوذ کے حوالے سے اپنے شکوک کا درست اظہار کیا۔ جیسا کہ آئی جے آئی کی تشکیل سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ نگراں نظام پر پہلا عدم اعتماد تھا۔ 1990ء میں ایک اور نگراں نظام کے تحت عام انتخابات ہوئے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کو عبوری وزیراعظم بنایا گیا۔ اب جو حقائق کھل کر سامنے آ رہے ہیں، ان سے نگرانوں کے سیاسی عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ 2008ء تک صدر مملکت کو حکومت برطرف اور نگراں مقرر کرنے کا اختیار تھا تو شکوک و شبہات بھی قائم رہے۔ بعدازاں سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک سنگ میل اور تاریخی فیصلے کے تحت صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کر دیئے۔ اب سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد جب عبوری وزیراعظم حکومت وقت اور اپوزیشن کا متفقہ ہوگا، اس کے باوجود طرفین کو ایک دوسرے پر اعتبار کیوں نہیں ہے؟ وہ اگر اب بھی ناکام اور بعدازاں افسوس کرتے رہے تو یہ ہماری سیاسی قیادت کی بلوغت پر سنجیدہ سوال ہے۔ جہاں تک خفیہ ہاتھوں اور سیاسی انجینئرنگ کا تعلق ہے۔ یہ صرف سیاسی جماعتوں کے خود پر یقین کے ذریعہ ختم ہو سکتا ہے۔ انہیں خود پر اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسے سے کام لینا ہوگا۔

تازہ ترین