• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نع

ڈاکٹر عزیزؔ احسن 

ادب کی ہر صنف میں لکھاری کا عصری شعور جھلکتا ہے۔ کوئی تحریر نہ تو کسی قلم کار کی ماحولیاتی فضا کے اثر سے باہر رہ کر لکھی جاتی ہے اور نہ ہی زمانے کے سردو گرم اثرات سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ شاعری میں شاعر کے داخلی احساسات بھی خارجی ماحول کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔فکری بوقلمونی اور خیالات کی نیرنگی میں عصری شعور کی کارفرمائی ہوتی ہے۔عصری حسیت ، عصری آگہی اور عصری شعور…یہ سب الفاظ کسی خاص عہد کے اجتماعی شعور کے غالب رجحانات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، جن کے ذریعے روحِ عصر اپنا اظہار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ حسن اکبر کمال نے کیا خوب کہا تھا:

کیا ہوتا ہے خزاں بہار کے آنے جانے سے

سب موسم ہیں دل کھلنے اور دل مرجھانے سے

نعت تو اردو زبان کے ابتدائی شعری نمونوں میں بھی شامل رہی تھی، لیکن ایک طویل عرصے تک اس میدان میں ایسے شعراء ہی داخل ہوئے، جو محض عقیدت کے اظہار اور حصولِ ثواب کے لیے شاعری کررہے تھے۔ عصری شعور کا انعکاس تو ادب میں 1857 ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد شروع ہوا۔ حالی کے مسدس میں جو نعتیہ اشعار آئے ہیں(وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا…) ان کی مقبولیت ہر سطح پر ہوئی اور آج بھی وہ اشعار نعتیہ شعری سرمائے میں سورج کی طرح ضو فشاں ہیں۔ نعتیہ شاعری میں عصری حسیت یا عصری شعور کا ابتدائی انعکاس دیکھنے کے لیے حالی ہی کا استغاثہ دیکھنا چاہیے۔ جس میں اپنے احوال کا کرب اور بے بسی کا نوحہ شامل ہے:

اے خاصۂ خاصانِ رُسُلؐ وقتِ دعا ہے

اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

داغ دہلوی نے عصری کرب سمیٹتے ہوئے نعتیہ شعر میں اپنی ذات سے تعمیم کا پہلو نکالا اور پوری امت کے لیے استغاثہ پیش کیا:

نہ پامال مجھ کو زمانہ کرے

نہ مٹی ہو برباد یا مصطفٰی ؐ

احمد رضا خان بریلوی نے بڑے اچھوتے انداز میں اپنے عہد کا آشوب پیش کیا ہے:

اَلْبَحْرُ عَلَا وَالْمَوْجُ طَغٰیمن بے کس و طوفاں ہوش ربا

منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا ، موری نیا پار لگاجانا

حسن بریلوی نے اپنے عہد کے غموں کا مداوا اس طرح چاہا:

سرگزشتِ غم کہوں کس سے ترے ہوتے ہوئے

کس کے در پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر

احسن مارہروی نے حوادث میں گھِر جانے کے بعد حضورِ اکرم ؐکی یاد کو ناخدا بنایا:

پریشانِ حوادث دیکھ کر بحرِ خوادث میں

پئے تسکیں انھیں کی یاد آئی ناخدا بن کر

شبلی نعمانی نے عصری شعور کا اظہار اپنی بے شمار نظموں میں کیا ہے۔مسلمانوں کی زبوں حالی پر ان کی نظم ’’اسلام کے تنزل کا اصلی سبب‘‘ ایک بالواسطہ نعت ہی کے ذیل میں پڑھی جانی چاہیے جس میں مسلمانوں کو نصِ قرآن کے تحت بھائی بھائی بتانے اور عملاً اس بھائی چارے سے انحراف کرنے کا نقشہ کھینچا گیا ہے:

نصِ قرآں سے مسلمان ہیں بھائی بھائی

اس اُخوَّت میں خصوصیتِ اعمام نہیں

یاں یہ حالت ہے کہ بھائی کا ہے بھائی دشمن

کون سا گھر ہے ،جہاں یہ روشِ عام نہیں

نہ کہیں صدق و دیانت ہے نہ پابندئ عہد

دل ہیں نا صاف زبانوں میں جو دشنام نہیں

حضورِ اکرم ؐسے غمِ دل کہنے اور آپ سے مسلمانوں کے عہدِ زوال کو ٹالنے کے لیے دعاؤں کی درخواست کرنے کا خیال عصری ماحول کی تارکیوں میں اجالا کرنے کا ذریعہ بھی تھا اور مذہب بیزاری کی فضا کو گدازِ عشقِ نبوی ؐعطا کرنے کا وسیلہ بھی ۔بقول سید سلیمان ندوی

عشقِ نبویؐ دردِ معاصی کی دوا ہے

ظلمت کدۂ دہر میں وہ شمعِ ھدیٰ ہے

لے جائے گا منزل سے بہت دور بشر کو

جو جادہ سفر کا ترے جادہ کے سوا ہے

عصری حسیت ، عصری شعور یا عصری آگہی کا تقاضا ہے کہ کوئی موضوع بار بار دہرایا جائے۔ کسی موضوع کی تکرار کا عمل معاشرتی سطح پر ذہن نشینی یا INDOCRINATION کا عمل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی خاص صورتِ حال میں شعراء و ادبا کے لیے کوئی موضوع مرکزِ توجہ بن جاتا ہے۔ نعتیہ شاعری بھی مسلمانوں کی ذہنی بیدار ی اور بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لےجانے کی خواہش کے تحت شعراء کا موضوع بنی اور بن رہی ہے۔

بہر حال جدید عہد میں نعت کی تخلیق میں ہر سطح کے شاعر نے حصہ لیا اور نعتیہ ادب میں تخلیقی ، تحقیقی و تنقیدی متن کی کہکشاں سج گئی۔ نعتیہ ادب کی طرف رجوعِ عام کی اس فضا میں عصری شعور کا حصہ واضح ہے۔ بین الاقوامی طور پر اسلام دشمنی کی گھناؤنی سازشیںسامنے آنے لگیں تو ایک طرف تو حضورِ اکرم ﷺ کی شان و عظمت کے بیان اور آپ ﷺ کی یکتائی کے اظہارات کی ضرورت دامن گیر ہوئی دوسرے طرف مسلمانوں میں بے عملی کی روش کو بدلنے کی ترغیبی شاعری کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس طرح حضورِ اکرم ﷺ کے لائے ہوئے نظام کی طرف مسلمانوں کو بالخصوص اور پوری دنیا کو بالعموم متوجہ کرنے کے لیے شاعری کی جانے لگی۔

بتلا دو گستاخِ نبی کو غیرتِ مسلم زندہ ہے

اُنؐ پر مر مٹنے کا جذبہ ، کل بھی تھا اور آج بھی ہے

(صبیح رحمانی)

کب مانتے ہیں کوئی ہدایت حضورؐکی

پھر بھی ہمارا خواب ، شفاعت حضورــؐـکی

سروں کی بھیڑ میں انسان ڈھونڈنے والو

جمالیات کے ایوان ڈھونڈنے والو

نظر اٹھا کے تو دیکھو! جمال سامنے ہے

محمدِ عربیؐ کی مثال سامنے ہے

(انور شعور)

ضیاء الدین نعیم نے عہدِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی جانب توجہ مبذول کروانے کے لیے کہا:

پہلے آئے تھے نہ ویسے کبھی آئے شب و روز

عہدِ پیغمبرِ آخر نے جو پائے شب و روز

عصری شعور،تخلیقی سطح پر شعری متن کو مختلف ھیئتی شکلوں میں پیش کرنے کے رجحان سے بھی جھلکتا ہے۔ نعتیہ ادب میں بھی متعین شعری سانچوں میں ، عہد بہ عہد جو جو تبدیلیاں ہوئی ہیں، ان ہیئتی اصنافِ سخن کا بھرپور انداز سے استعمال کیا جارہا ہے۔ نعتیہ غزلیں، نعتیہ نظمیں ، نعتیہ مسدس، نعتیہ مثنویاں، نعتیہ قطعات، نعتیہ نظمِ معریٰ ، نعتیہ آزاد نظم، نعتیہ ہائیکو، نعتیہ ماہیے، نعتیہ نثری شاعری…غرض کون سی شعری ہیئت ہے، جس میں نعتیہ متن کے تخلیقی نمونے موجود نہیں ہیں۔ یہ سب شعری لوازمہ (Matter) اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ نعتیہ شاعری میں فکری (Intelletual) اور فنی (Artistic) سطح پر عصری شعور کا واضح انعکاس ہو رہا ہے۔

تازہ ترین