• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارضِ فلسطین کا مسلئہ

انسانی تاریخ میں انسانیت پر لگے بعض گہرے گھائو اب بھی رس رہے ہیں مگر دنیا کے مسیحا خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانی ضمیر کی نمائندگی کرنے والی بے شمار تنظیمیں اور ان کے ہزاروں رضا کار ایسے زخموں کو بھرنے کیلئے جانے کیوں ضمیر کی آواز پر کان نہیں دھرتے۔ ارض فلسطین کئی عشروں سے دہائی دے رہی ہے اور خون اور بارود کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔ پہلی نسل، دوسری نسل، تیسری نسل کے ساتھ چوتھی نسل بھی میدان میں اتر آئی ہے۔

غزہ کی پٹی پر اطراف سے باڑھ لگا کر اسرائیلی فوجیوں نے نہتے فلسطینی عوام کو ایک طرح سے آسمان تلے کھلی جیل میں محصور کردیا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو جب امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کیا گیا اس دن ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی مرد، خواتین اور بچے اسرائیلی باڑھ کے ساتھ کھڑے ہو کر شدید نعرے لگاتے رہے۔ اسرائیلی فوجیو ںنے باڑھ کو بچانے کی خاطر نہتے فلسطینیوں پر فائرنگ شروع کردی جس میں ستر سے زائد افراد ہلاک اور ڈھائی ہزار سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔ اس ہولناکی میں سب سے المناک واقعہ آٹھ ماہ کے بچے کا ہے جو اپنی ماں کی گود میں اسرائیلی کی گولی کھا کر شہید ہوگیا، بتایا جاتا ہے گزشتہ تین ماہ سے جاری احتجاج میں اب تک بارہ ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں جاری اس خونریزی اور اسرائیلی بربریت کے جواب میں ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں ترکی کے شہر استنبول میں مسلم ممالک کی تنظیم اوراو آئی سی کا فوری اجلاس طلب کرلیا۔ اجلاس میں تمام شرکاء نے یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے پر شدید احتجاج کیا، یہ کہا گیا کہ اگر امریکہ اور اسرائیل نے فیصلہ تبدیل نہیں کیا تو پھر اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیاجائے۔

اجلاس میں ایران کے صدر حسن روحانی، ترکی کے صدر اور میزبان طیب اردگان، اردن کے شاہ عبداللہ، لبنان کے صدر مائیکل ایون، امیر قطر، امیر کویت، صدر انڈونیشا، صدر افغانستان شریک تھے اس کے علاوہ دو معزز مہمان جو از خود شرکت کیلئے آئے تھے۔ان میں وینزویلا کے صدر نکولس مدورا اور سوڈان کے سابق صدر عمرالبشی تھے پاکستان کے وزیراعظم خاقان عباسی بھیاجلاس میں شریک ہوئے۔

صدر طیب اردگان نے اس ہنگامی اجلاس کے انعقاد سے آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنی سیاسی پوزیشن کو بہتر بنالیا ہے اس کے علاوہ انہوں نے اسرائیل پر مشترکہ حملے کی بھی دھمکی دیدی۔ اس حوالے سے او آئی سی کے اجلاس میں سب سے زیادہ پرجوش اور فعال صدر طیب اردگان نظر آئے۔ وزیراعظم پاکستان نے یقین دلایا کہ تنظیم جو فیصلے کرے گی پاکستان ان کی بھر پور تائید کرے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے۔

سلامتی کونسل نے یقین دلایا ہے کہ وہ منظور کردہ قرار دادوں پر عمل کرانے کی پوری کوشش کرے گی۔ اگر سلامتی کونسل ناکام رہی تو پھر او آئی سی اپنے آئندہ اجلاس میں لائحہ عمل طے کرے گی جس میں یہ آپشن لیا جاسکتا ہے کہ امریکہ سے اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم رکھنے، ختم کرنے یا محدود کرنے پر غور کیا جائےگا۔ یہ بھی طے پایا کہ عالمی سطح پر ایک تحریک چلائی جائے جس میں یہ مطالبہ سرفہرست ہوگا کہ یروشلم کو فلسطین کا دارالخلافہ تسلیم کیا جائے۔ شرکاء کا خیال تھا کہ اگر عالمی تحریک موثر ثابت ہوئی تو امریکی صدر اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مائل ہو سکتے ہیں۔ صدر طیب اردگان نے اپنی تقریر میں کہا کہ مشرقی یروشلم کا حصہ فلسطین کے پاس ہونا چاہیے۔ 

گزشتہ کئی برسوں سے یہ حصہ فلسطینیوں کے پاس تھا مگر اس پر اسرائیل نے طاقت سے قبضہ کیا ۔اب اسرائیل کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ فلسطین کے سربراہ محمود عباس نے مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار کو مسترد کر دیا اور کہا کہ امریکہ ایک بڑی طاقت ہے، مگر اس خطے میں انصاف پسندی سے زیادہ اسرائیل کی حمایت میں فیصلے کر کے پورے خطے کو غیر مستحکم کردیا ہے۔ اب صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو یروشلم میں منتقل کر کے ایک مجرمانہ فیصلہ کیا ہے جو ایک سنگین جرم ہے۔

فلسطینی رہنمائوں نے اقوام متحدہ اور او آئی سی سے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 194 پر فوری عمل درآمد کرایا جائے اور قرارداد کے فیصلے کے مطابق فلسطینیوں کو ان کی زمینوں پر واپس جانے دیا جائے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی سیکورٹی چوکیاں اور باڑھ ہٹائی جائے اور آئے دن فوجی نہتے فلسطینیوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے پر بربریت بند کی جائے۔ امریکہ کا یہ فیصلہ کہ یروشلم میں سفارت خانہ منتقل کردیا جائے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کیا جائے، نامنظور ہے، امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے۔ واضح رہے کہ آج سے دس برس قبل ترکی کے شہر استنبول ہی میں اسرائیلی جارحیت اور اس کی غیر انسانی پالیسیوں کے خلاف دنیا کے ممتاز دانشوروں، سفارتکاروں ، سابق صدور اور وزراء کی بڑی کانفرنس منعقد ہوئی تھی ،جس میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔ 

کوفی عنان نے اس کانفرنس کے توسط سے امریکہ ارو دنیا کی دیگر بڑی قوتوں کو مشورہ دیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کا تنازعہ حل کر کے مسلمانوں اور مغرب کے بیچ بڑھتی ہوئی خلیج کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ اور افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ان ممالک کے عوام شدید مایوسی اور مسائل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے پوری عالمی برادری متاثر ہو رہی ہے۔ کوفی عنان نے مزید کہا ،امریکہ اور مغربی طاقتوں سمیت اسرائیل کو بھی زمیی حقائق کا ادراک کرنا چاہئے۔ انہوں نے ماحولیات کا بھی ذکر کیا کہ ایک طرف ہم سب قدرت کے نظام میں خلل ڈال کر اپنے زمینی ماحول کو شدید خطرات سے دوچار کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہم کہیں نہ کہیں جنگی محاذ کھولتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی پالیسی پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی تو یہ رویئے عالمی امن کیلئے مہیب خطرہ ثابت ہوں گے۔

مشرق وسطیٰ میں زمینی حقائق کے مطابق سب سے زیادہ، شام خانہ جنگی، دہشت گردی اور بیرونی قوتوں کی پراکسی وار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ یمن جل رہا ہے، سعودی عرب کی فوجیں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف محاصرہ کرکے انہیں بمباری کا نشانہ بنا رہی ہیں، عراق میں قدرے سکون لگتا ہے، عام انتخابات کے نتائج کے خلاف کچھ طاقتیں اس کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ عراق میں مختلف گروہ موجود ہیں ،اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب ایک دوسرے سے تصادم پر آمادہ ہوجائیں۔ لیبیا میں باغی گروپوں اور دہشت گردوں کے مابین جھڑپیں چل رہی ہیں۔ وہاں داعش کا بھی اثر ہے، لبنان میں بمشکل حکومت کی تشکیل عمل میں آئی ہے، مگر تاحال وہ لبنان میں امن اور بہتر سیکورٹی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔

گزشتہ دنوں مصر کے اخباالاہرام نے چھ عرب ممالک میں تین ہزار نوجوانوں سے سوالات کئے تھے، 83فیصد نوجوانوں نے امریکہ کی دوغلی پالیسی کی شدید مخالفت کی ان کو سب سے زیادہ دکھ اس پر تھا کہ امریکہ بات جمہوریت کی کرتا ہے مگر اس نے ہمیشہ کرپٹ فوجی حکمرانوں کو ہم پر مسلط کیا یہ جابر حکمران اپنے دور میں صرف امریکی مفادات کی تکمیل کیلئے کام کرتے ہیں انہیں اپنی قوم اور ملک کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ امریکہ اس خطے میں اسرائیل کی بالادستی چاہتا ہے، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ عرب ایک سرکش اونٹ ہے جس کی سواری اس کو مہنگی پڑ سکتی ہے،جبکہ اسرائیلی مبصرین کا دعویٰ ہےکہ، فلسطینی ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ 

یہ سیاسی نہیں مذہبی تنازعہ ہے اس میں پیچیدگیاں زیادہ ہیں۔ اس لئے فلسطینی ہر معاہدہ رد کر دیتے ہیں۔ وہ امن نہیں چاہتے، البتہ اسرائیل کا وجود ہمارے لئے ضروری ہے۔ بقول ایک یہودی راہب کے یروشلم تینوں آسمانی مذاہب کیلئے متبرک مقام ہے، یہاں ایک حصے میں صہیونی راہبوں کی عمارتیں ہیں جبکہ دوسرے حصے میں مسلم علماءکی رہائش گاہیں۔ ہم اپنے طریقے اور وقت پر عبادت کرتے ہیں۔ 1967 سے یروشلم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ یہاں ماونٹ کی عبادت گاہ بھی ہے جو اردن کی سرحد پر واقع ہے اور وہ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، مگر ایک عرصے سے اسرائیل نے فلسطینی عوام پر پابندی لگادی کہ وہ یہاں عبادت نہیں کریں گے جس پر بڑے ہنگامے بھی ہوئے۔ مگر اب ایک متنازعہ فیصلہ یہ سامنے آیا کہ اسرائیل نے امریکہ کی حمایت کے ساتھ یروشلم کے دونوں حصوں کو یکجا کر کے اس کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنا دیا۔ صہیونیت کے نزدیک ان کا مذہب اور قوم پرستی ایک ہی ہیں، چونکہ قدیم دور میں یہ ان کی جگہ تھی جہاں انہیں آنا تھا اس لئے تنازع کھڑا کرنا عبث ہے۔

مختصر یہ کہ اسرائیل 70برسوں میں ٹس سے مس نہ ہوا اور اب صدر ٹرمپ کی صورت میں اسرائیل کو ان کا نیا مسیحا مل گیا ہے، اس لئے وہ جو کر جائے کم ہے،مگر شدید دکھ اور ملال اس بات کا ہے کہ 57 اسلامی ممالک جن کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد ہے اور نقشہ پر یہ صرف ایک چنے کا دانہ جیسا لگتا ہے مگر وہ سب پر بھاری ہے۔ مغربی قوتوں کے جبر اور استحصال کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،مگر مسلم ممالک کے حکمرانوں، اشرافیہ اور اہل بصیرت کو اپنے رویوں اور حقائق کو ازسر نو جانچنا ہوگا۔ خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ پہلے انہیں معاشروں سے ناانصافی، ناہمواری، بدعنوانی اور سماجی انصاف کے بارے میں سوچنا ہوگا کہ وہ کیا خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 57 مسلم معاشروں کی ترقی میں رکاوٹ کیا ہے۔ یہ رکاوٹ ہی بڑا المیہ ہے ۔ارض فلسطین بھی مسلم اُمہ کے ان رویوں کا شکار ہے۔

تازہ ترین