• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں بالآخر ایک بہترین فیصلہ سنا دیا۔ پیپلز پارٹی فیصلہ سنتے ہی خوشی سے جھوم اُٹھی مگر مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ فیصلہ بھی حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح نہ پھنس جائے۔ اس فیصلے نے پیپلز پارٹی کو آئندہ سال ہونے والے الیکشن سے قبل انتخابی مہم کے لیے ایک مضبوط پوائنٹ فراہم کر دیا ہے جس کو استعمال کرکے حکمران پارٹی نہ صرف اپنی ”مظلومیت“ کا مزید ڈھنڈورا پیٹنے کے قابل ہوگئی ہے بلکہ اس کے ہاتھ اب وہ قابل اعتبار ”دھماکہ خیز مواد“ بھی لگ گیا ہے جس کو استعمال کر کے وہ اپنے اصل سیاسی حریف میاں نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ ن کو انتخابی مہم میں خوب گندا کرسکتی ہے۔ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی طرح پیپلز پارٹی ان سیاسی چالوں سے عوام کی توجہ کو اُن مسائل اور حکو متی ناکامیوں سے ہٹاکر جس کا اُن کو اس دور میں سامنا رہا ، ایک بار پھر بیوقوف بنا کرآئندہ الیکشن میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ وزیر اعظم پرویز اشرف نے فیصلہ آتے ہی پریس کانفرنس کر ڈالی اور کہا کہ تاریخ نے سچ اُگل ڈالا۔ نواز شریف یا کسی دوسرے سیاستدان کا نام لیے بغیر پرویز اشرف نے مطالبہ کیا کہ پیسے لینے والے قوم سے معافی مانگیں۔ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ ذمہ داروں کو ہر صورت میں سزا ملے گی۔ جس کی توقع تھی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ 90 کے انتخابات چرانے والے قومی مجرم ہیں جنہوں نے سازش کے تحت عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا اور یہ کہ تاریخ نے پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کی سچائی ثابت کر دی۔ بلاشبہ وزیر اعظم نے جو کہا وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے عین مطابق ہے اور سیاست میں اسی طرح پوائنٹ اسکورنگ کی جاتی ہے۔ مگر قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اس سب کے باوجود پھر یہ فیصلہ گلے میں پھنسی ہڈی کیسے بن سکتا ہے؟؟؟
وہ اس لیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ صرف صدر زرداری سے اُن کی اصل طاقت چھین سکتا بلکہ اُن دو سابق جرنیلوں اور بینکر کے خلاف فوجداری کارروائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے جو پی پی پی کے نہ صرف چہیتے رہے بلکہ ہمراز بھی۔ فیصلے کے مطابق صدر مملکت ، فوج اور ایجنسیاں سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کے خلاف قانونی اور آئینی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ 1990 کے انتخابات میں کس نے کس کو کتنا پیسہ دیا، اس کے لیے تو ایف آئی اے تفتیش کرے گی جس کو مہینے لگ سکتے ہیں اور اس تفتیش کے نتیجے میں متعلقہ ذمہ داروں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے اور عدالتی کارروائی شروع کی جائے گی۔ مگر فیصلہ کے جس نکتے پر فوری عمل درآمد ہونا ہے اُس کا تعلق صدر آصف علی زرداری سے ہے۔ اس فیصلے کے بعدصدر زرداری ایوان صدر کواپنی پارٹی کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن کا عہدہ رکھ سکتے ہیں۔ فیصلہ ہوگیا کہ ایوان صدر کو کسی ایک پارٹی کے حق اور کسی دوسری پارٹی کے خلاف سیاسی مقاصد کے لیے نہیں استعمال کیا جا سکتا۔ ثابت ہوگیا کہ مرحوم صدر غلام اسحاق خان نے سیاست زدہ ہوکر آئین کی خلاف ورزی کی۔ واضح ہوگیا کہ اب تک صدر زرداری جس طرح ایوان صدر میں بیٹھ کر پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی توڑ جوڑ کرتے رہے وہ سب غیر آئینی تھا غیر قانونی تھا۔ اب وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتے اور یہی سپریم کورٹ کے فیصلے کا وہ حصہ ہے جس پر عمل درآمد کے لیے دنوں اور ہفتوں کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کب صدر مملکت سے درخواست کریں گے کہ وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن کے عہدے سے استعفٰی دیں تا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد کی شروعات کی جا سکے۔
فیصلے پر حکومت اور پیپلز پارٹی نے خوشی تو منا لی۔ عوام اب یہ بھی دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں حکومت اور پی پی پی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل اسد درانی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ حکومت کو ان سابق جرنیلوں کا کیس فوری طور پر آرمی کے موجودہ سربراہ جنرل پرویزکیانی کو کورٹ مارشل کے لیے بھجوانا چاہیے۔ مگر کیا پی پی پی جس نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا اور جنرل درانی کو جرمنی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا اپنے ان چہیتوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی ہمت پیدا کرے گی۔ کیا حکومت اُس یونس حبیب کو ہتھکڑیاں لگوائے گی جو دعویدار رہا کہ اُس نے پی پی پی اور اس کی اعلٰی قیادت کو ماضی میں بارہا پیسہ فراہم کیا تا کہ اُس کے مخالفین کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا جا سکے۔ جنرل بیگ، جنرل درانی اور یونس حبیب کے خلاف تو کارروائی فوری شروع کی جا سکتی ہے مگرکیا ایسا ہو گا؟؟؟ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود آئین کو توڑنے والے سابق صدر جنرل مشرف کو تو موجودہ حکومت نے بڑی عزت و تکریم کے ساتھ ملک سے فرار ہونے کاموقع فراہم کیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان چہیتے جرنیلوں اور بینکر کے کیس میں بھی جمہوریت ایک بہترین انتقام کا نعرہ بلند کر دیا جائے تا کہ پیپلز پارٹی کے متعلق رازوں کو افشاء ہونے سے روکا جا سکے ۔ باقی رہا سیاستدانوں کے پیسے لینے کا مسئلہ تو اگر ایف آئی اے کچھ نہ کچھ ثبوت اکٹھا کر لیتی ہے تو بہت اچھا ورنہ بہتر یہی ہو گا کہ اس مسئلہ پر بھی سیاست ہی کی جائے اور اپنے حریفوں کو گندا کیا جائے۔ تمام ثبوت اکٹھے کرنا اور پھر ان ثبوتوں کی روشنی میں فوجداری مقدمات قائم کرنا اور پھر عدالت میں سیاستدانوں پر ان الزامات کو ثابت کرنا مہینوں اور سالوں کا کام ہے اس لیے سیاسی طور پر بہتر یہی ہوگا کہ حریفوں کا میڈیا ٹرائل کیا جائے اور انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ ساری عمر اپنی صفائیاں ہی پیش کرتے رہیں۔
تازہ ترین