• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گرمیوں کی چُھٹیاں بھی، ماہِ صیام بھی

زرّین آصف، گلبرگ، کراچی

گرمیوں کی چُھٹیوں کا اصل مقصد بچّوں کو موسمِ گرما کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنا ہے۔یہی وجہ کہ امسال گرمیوں کی چُھٹیاں اپنے مقررہ وقت سے قریباً 17روز قبل ہی کر دی گئیں۔لہٰذا سب سے پہلے تو اس بات کا خاص دھیان رکھیں کہ سخت گرمی میں بچّوں کو بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلنے دیں۔اب تو چوں کہ ماہِ رمضان ہے،اس لیے دِن بَھر گولے گنڈے، آئس کریم، قلفیاں اور فالودہ وٖغیرہ بیچنے والے آوازیں لگاتے سُنائی نہیں دیتے، لیکن جب ماہِ مبارک گزر جائے گا، تب بھی انھیں غیر معیاری اشیاءہرگز کھانے نہ دیں۔ 

کھیلنے کودنے، ویڈیو گیمز اور ٹی وی دیکھنے کا ایک وقت مقرّر کریں، تاکہ بچّوں کی زندگی میں نظم و ضبط برقرار رہے۔ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں، جن پر عام دِنوں میں زیادہ وقت نہیں دیا جاتا، ان پر بھی خصوصی توجّہ دیں۔ جیسے قرآن مجید کی روزانہ تلاوت کی عادت ڈالیں اور کم از کم آخری 20سورتیں بمع ترجمہ یاد کروائیں۔ نیز، قرآنِ پاک ترجمے و تفسیر کے ساتھ پڑھانے کا بھی اہتمام کریں، تاکہ بچّے قرآنِ پاک کو بھی کسی درسی کتب کی طرح رٹّا لگا کر نہ پڑھیں،بلکہ اُسے پوری طرح سمجھنے اور بعدازاں اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں۔

گھر میں اگر باغیچہ ہے یا پھر گملے وغیرہ رکھے ہیں، تو بچّوں کو باغ بانی کی طرف راغب کریں،اس سے وہ فطرت کے قریب رہیں گے اور صرف اس ایک عمل سے ان کے دِلوں میں سختی پیدا نہیں ہوگی۔ کتاب کو بہترین دوست کہا جاتا ہے،کیوں کہ معیاری و اصلاحی کتب اخلاق وکردار سازی میں بہت معاون ثابت ہوتی ہیں، لہٰذا بچّوں کو ان کی عُمر کے لحاظ سے مطالعہ کروانا سودمند ثابت ہوتا ہے،جب کہ چھوٹے بچّوں کو اصلاحی کہانیاں خود پڑھ کر سُنائیں اور سمجھائیں بھی۔ ایسے بچّے، جن میں لکھنے کی صلاحیت ہو، ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کی عُمر کے مطابق انھیں لکھنے کے لیے مختلف موضوعات دیں، تاکہ اس طرح ان کی تحریری صلاحیتوں کو جلا ملے۔ ماہرین کے مطابق صُبح کی سیر جسمانی وذہنی نشوونما کے لیے اکسیر ہے، اگر ممکن ہو تو صُبح کی سیر کا خاص انتظام کیا جائے، کیوں کہ اسکول کے دِنوں میں ایسا کرنا ذرا مشکل ہی ہوتا ہے۔

چُھٹیوں میں بچّوں کو تفریحی مقامات پر لے جانے کے ساتھ رشتے داروں کے گھروں میں بھی لے جانا چاہیے۔نیز، ان کے ہم عُمر کزنز اور دوستوں کو بھی اپنے گھر مدعو کریں، اس طرح بچّے مہمان داری و میزبانی کے آداب سیکھتے ہیں اور ان میں رشتوں کی قدر و محبّت بھی پیدا ہوتی ہے۔بچّوں کی عُمر کے لحاظ سے،اُن سے گھریلو کاموں میں بھی معاونت لی جائے، تاکہ انھیں کام کرنے کی عادت پڑے۔بعض اوقات اسکول ہوم ورک آخری دِنوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جو بعد میں پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اسکول ہوم ورک روزانہ کے ٹائم ٹیبل میں شامل رکھیں۔اگر بچّہ کسی مضمون میں کم زور ہے، تو چُھٹیوں میں اس مضمون پر خاص توجّہ دیں، لیکن ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے اصلاحی انداز میں سمجھائیں۔

اس طرح بات جلد سمجھ آجاتی ہے۔ ممکن ہو تو بچّے کوکسی اچھے’’سمر کیمپ‘‘میں بھی بھیجا جاسکتاہے۔آج کل کے مشینی دَور میں بچّے بہت مصروف رہنے لگے ہیں، ایسے میں جسمانی سرگرمیوں جیسے کرکٹ، فٹ بال،ہاکی وغیرہ کھیلنے کا وقت نہیں ملتا،تو چُھٹیوں میں روزانہ تھوڑا بہت وقت ان کھیلوں کے لیے بھی وقف رکھا جائے۔مختلف زبانیں سیکھنا اور کمپیوٹر کے مختلف کورسز کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ سو، اگر بچّوں کا رجحان ہو، تو چُھٹیوں سے فائدہ اُٹھا کر اس طرف بھی کچھ توجّہ دی جاسکتی ہے۔

ابھی چُھٹیاں ہوئے 14روز ہی گزرے ہیں، لہٰذا اگر آپ نے بچّوں کے روزانہ کا شیڈول مرتّب نہیں کیا، تو ماہِ صیام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عید تک کا شیڈول ترتیب دے لیں، تاکہ بچّے ہر ہر لمحے کو قیمتی جان کر اُسے کارآمد بناسکیں کہ بچّوں میں ابتدا ہی سے وقت کی اہمیت اجاگر کرنا، والدین ہی کی اوّلین ذمّے داری ہے۔

تازہ ترین