• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
26 شامی روڈ (پہلی قسط)

عرفان جاوید ستّر کی دہائی میں لاہور میں پیداہوئے،گورنمنٹ کالج لاہور، انجینئرنگ یونی ورسٹی، لاہور اور سندھ یونی ورسٹی حیدرآباد سے تعلیم حاصل کی۔ علمی و ادبی سفر کا آغاز احمدندیم قاسمی کے معروف ومستندرسالے ’’فنون‘‘ سے کیا۔ پاک و ہند کے اہم ادبی رسائل میں بھی باقاعدگی سے لکھتے رہے ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ،دو انتخاب اور خاکوں کی کتاب ’’دروازے‘‘ کے عنوان سے شایع ہوچکی ہے۔ کئی مضامین انگریزی اخبارات ورسائل میں بھی شایع ہوتے رہے ہیں۔ نیز،قارئین نے قریباً ایک برس تک ان کا ایک مقبولِ عام سلسلہ ’’دروازے‘‘ بھی انھی صفحات پر ملاحظہ کیا۔

ہم موجودہ سلسلے ’’سُرخاب‘‘(کہ یہ پرندہ برصغیر کے اہلِ فکر و دانش میں خاص وقعت وتقدّس کا حامل ہے) میں آخری خاکہ ’’26شامی روڈ‘‘ کے عنوان سے پیش کررہے ہیں۔ یہ خاکہ بہ ظاہرتو مصنّف کے مورث وبزرگ کا ہے، لیکن درحقیقت ایک دَور کی معاشرت، مخصوص ماحول کی خاندانی روایات اور حساس جذبات کا مونتاژ ہے، تو مصنّف کی سرگزشت کا ایک باب بھی۔

(ایڈیٹر،’’سن ڈے میگزین‘‘)

اُس حیران کُن خواب نے میاں صاحب کی کایا پلٹ دی۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد جب میاں صاحب امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور چھاؤنی میں آباد ہوئے، تو ابتدائی معاشی مسائل کے حل کے لیے رقم کی ضرورت آن پڑی۔اب اُن جیساآدمی، فارسی اورعربی کافاضل ،ریاضی کا عالم، نجیب الطرفین، وضع داراور خاندانی شخص جو کچھ عرصہ پہلے تک کسی معاشی آزمایش کا سوچ بھی نہ سکتا تھا، عجب مخمصے کا شکار ہوا۔اس دوران حکومت نے ایک مقررہ دِن کا اعلان کردیا کہ جب تک کلیم داخل کروائے جاسکتے تھے۔اس معیّن تاریخ کے بعد رقم بحقِ سرکار ضبط ہوجانا تھی۔امرتسر میں میاں صاحب کی رقم ڈاک خانے میں جمع تھی۔مشکل یہ تھی کہ ڈاک خانے کے کاغذات، جن پر اکاؤنٹ کے ہندسے درج تھے، ہجرت کی اتھل پتھل کے دوران کھوچکے تھے اور اس پر مستزاد کہ میاں صاحب کو وہ اعداد یاد نہ تھے۔ اگرچہ اضطراب دوچند تھا، مگر اپنے بیوی، بچّوں سے اِس مشکل کا تذکرہ نہ کرتے تھے کہ مبادا وہ بھی پریشان ہوجائیں۔ دن بھر یا تو عدم توجّہی سے کتابوں کی ورق گردانی کرتے رہتے یا پھر کچھ دیر کے لیے بازار میں اُتر جاتے۔لاہور چھاؤنی میں ابھی فوجی رنگ بہت نمایاں تھا۔وسیع و عریض میدانوں میں چاند ماری کی مشقیں ہوتیں۔آبادیوں سے دُور میدانوں کے کناروں پر مضبوط دیوارں پر چاند ماری کے نشانہ بازوں کے لیے نشان بنے ہوتے۔صبح تڑکے فائرنگ کی دُور سے آتی دھمک ایک معمول کی بات تھی۔دوپہر تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔پھر طویل وقفے آجاتے، البتہ خاص مشقوں کے دوران راتوں کی خاموشی میں یہ دھمک بڑھ جاتی اور تڑتڑاتڑ کی آوازیں قریب میں گونجتی سُنائی دیتیں۔چھدری آبادیوں کے جزیروں کے بیچ فوجی بیرکوں کے سلسلے تھے۔ طویل سنسان سڑکیں، اونچے گھنے قدیم درختوں کے بیچ گرم دوپہروں میں سستاتی ہوتیں اور شام کے اُترتے وقت درختوں کے سائے تپتی سڑکوں پر طویل ہوتے رہتے یہاں تک کہ تارکول کی پگھلتی سڑکیں سایوں کے جال میں بندھ کر ٹھنڈی پڑجاتیں۔ ایسے میں اِکا دُکا راہ گیر یا تانگے سڑکوں پر قریب آتے یا دُور جاتے دُھندلاتے نظر آتے۔ میاں صاحب تنہائی پسند تھے اور لیے دیئے رہتے۔اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ اکلوتے بیٹے تھے یا پھر اُن کا مزاج ہی کچھ ایسا تھا۔ چناں چہ اس تنہائی پسندی کے باعث وہ کسی سے اپنی پریشانی بانٹنا گوارا نہ کرپارہے تھے۔


ایسے میں یہ انہونا واقعہ ہوا۔ ایک رات کھانا کھا کر جب اُن کے بیوی بچّے سورہے تھے اور وہ کتاب پڑھ رہے تھے کہ اُنھیں اونگھ آگئی۔ نیند میں اُنھوں نے ایک خواب دیکھا۔خواب میں انھوں نے اپنے آپ کو امرتسر کے جانے پہچانے اپنائیت بھرے ماحول میں پایا۔ وہاں اُن کا ایک قریبی ہندو دوست آیااوراُن کے سامنے اُس اکاؤنٹ کے اعداد دُہرائے، جس میں میاں صاحب کی رقم جمع تھی۔ یہ اعداد اِس حد تک واضح اور بلند آواز میں بولے گئے کہ میاں صاحب ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے۔کچھ دیر تک تو حیران پریشان اپنے آس پاس کو پہچاننے کی کوشش کرتے رہے۔ یک دم اُن کے شعور پر ادراک کی بجلی کوندی اوراُنھوں نے جلدی سے خواب میں سنے اعداد کو ایک کاغذ پر لکھ لیا۔اگلی صبح اُنھوں نے کلیم میں وہی اعداد ڈال کر اُسے داخل کردیا۔ چند روز میں کلیم کی تصدیق ہوگئی اور اُنھیں ہزارہا روپے کی رقم مل گئی۔ یہ بارش کے ابتدائی قطرے تھے۔اس کے بعد تو گویا جھڑی لگ گئی۔ گورے چٹے ککے زئی، گٹھے جسم، متناسب خط وخال، ٹھہرے سبھاؤ اور کرخت گہری آواز والے میاں صاحب کی شخصیت میں تدریس سے وابستگی کے باعث ایک خاص رعب اورتحکّم تھا۔ اُن کی بول چال اورنشست و برخاست میں عربی و فارسی پر عبور اور ریاضی پر دسترس کے باعث عالمانہ اعتماد جھلکتا۔ پراعتماد شخصیت اور تنہائی پسندی کے مزاج کو بعض احباب اُن کے احساسِ برتری پر محمول کرتے۔ مگر ایسا قطعاً نہ تھا۔بس گمان ہوتا تھا کہ میاں صاحب کو غیب سے امداد کے ایسے سامان اور سہارے کی ایسی صورتیں میسّر ہیں، جو ماورائے عقل ہیں۔ایک دل چسپ واقعہ ہے۔ تقسیم کے وقت میاں صاحب اوراُن کے والد اجنالہ، ضلع امرتسر میں رہایش پزیر تھے۔ وہاں اُن کی زندگی خاصی فارغ البالی اور اطمینان سے گزر رہی تھی۔میاں صاحب تدریس سے وابستہ تھے۔ رہائش کا اچھا خاصا انتظام تھا۔ ساتھ میں وسیع قطعۂ زمین ملا ہوا تھا جہاں زراعت کا سلسلہ کررکھا تھا اور مویشی پال رکھے تھے، جن کے چارے کا انتظام بھی وہیں سے ہوجاتا تھا۔ حکومت نے ملازمین کی ایک مناسب تعداد بھی دے رکھی تھی۔میاں صاحب کے مزاج میں کچھ ایسا تحکم تھا کہ سارا عملہ ایک ڈسپلن میں زندگی گزارتا۔ایک روز میاں صاحب اپنی رہائش گاہ سے نکلے، توہاتھوں میں سنہرے کاغذ میں لپٹا سونے کا زیور تھا۔روشن دن تھا، جس میں وہ سنہرا کاغذ دمک رہا تھا۔صاف آسمان پر پرندے محوِ پرواز تھے۔میاں صاحب اپنی دھن میں رہائش گاہ سے باہر نکلے اور ملحقہ کھیتوں کی پگڈنڈی پر چل دیئے۔ قریب میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا، جس میں مختلف چھوٹے جانور اور پرندے بسیرا کرتے تھے۔چند پرندے میاں صاحب کے سر پر منڈلارہے تھے۔اُنھی پرندوں میں سے ایک چیل تیزی سے میاں صاحب پر جھپٹی۔میاں صاحب گھبرا کر لڑکھڑا ئے، مگروہ چیل توسنہرے لفافے کا ایک سرا چونچ میں دبائے، یہ جا، وہ جا ہوئی۔میاں صاحب ابھی اس افتاد سے سنبھل ہی رہے تھے کہ وہ چیل نظروں سے اوجھل ہوگئی۔اس انہونی افتادنے اُن کے حواس مختل کردیئے۔چناں چہ لاچارگی میں واپس لوٹ آئے۔واپس آکر درس گاہ کے ملازمین کو اکٹھا کرکے اس پریشانی سے آگاہ کیا۔ایک ملازم نے تجویز دی کہ قریبی کھیتوں اوردرختوں میں تلاش کیا جائے،شاید کہیں سے زیور کا سراغ مل جائے۔میاں صاحب نے فوری طور پر ملازمین کی مختلف ٹولیاں تشکیل دے کر اُنھیں تلاش کے کام پر مامور کردیا۔چند ملازمین کوذّمے داری تفویض کی گئی کہ وہ کھیتوں کو اچھی طرح دیکھ ڈالیں۔ بقایا ملازمین کو درختوں کا جائزہ لینے پرلگادیا۔نتیجتاً ملازمین تلاش میں نکل پڑے۔اب اسے قسمت کی کرشمہ سازی کہیے کہ ایک ملازم جو درختوں کے قریبی جھنڈ میں چیلوں کے گھونسلوں کی تلاشی پر مامور تھا، تھوڑی دیر میں چلّاتا بھاگتا آیا۔اُس نے ایک اونچے درخت پر چیلوں کا گھونسلا دیکھا۔ ہمّت کرکے درخت پر چڑھا اور گھونسلے تک پہنچا، تو اُسے سنہرا لفافہ گھونسلے میں پڑا نظر آگیا۔ پس، وہ زیور والا لفافہ تھامے بھاگا چلا آیا۔ میاں صاحب نے لفافہ واپس پاکر خدا کا شکر ادا کیا اور ملازم کو انعام سے بھی نوازا۔ یہ اکرام کی بارش کے بے شمار قطروں میں سے ایک قطرہ تھا۔


میرے دادا،محمد ظفر اقبال، میاں صاحب کے نام سے معروف تھے۔ اُن کی پیدائش، زندگی اور موت،دل چسپ واقعات، حیران کن اتفاقات اور حوادث کی رنگا رنگ لڑی ہے۔ اُن کی زندگی نشیب و فراز کی افسانوی داستان، مزاج تضادات اورمستقل مزاجی کی گنجلک پیچ دار عکسی تصویر اور ذہن رسا پیش بینی کی حیران کن صلاحیتوں کا حامل تھا۔ کیا آدمی تھا، دیوقامت، تنہا چٹان سا، اپنی طرز کا انوکھا شخص۔جب پیدا ہوا، تو گویا مرہی چکا تھا اور جب مَرا، تو ایک دَور ساتھ لے گیا۔ بیسویں صدی کے آغازمیں جب یورپ پر پہلی جنگِ عظیم کے سائے منڈلا رہے تھے، بین الاقوامی طاقتوں کے نادیدہ ہاتھ بساطِ عالم پر پرکاری و عیاری کی چالیں چل رہے تھے، تو ہندوستان کی رعایا سکون کی بانسری کی دھیمی دھنوں میں آہستہ خرامی اور سست روی سے عدم تشدد اور بقائے باہمی کی راہوں پر چل رہی تھی۔یہ ایک وسیع و عریض قطعۂ زمین تھا، جس کی ایک جانب آسمان بوس پہاڑ زمین کے سینے پر آہنی میخوں کی طرح پیوست تھے، تو دوسری جانب دنیا کا سب سے وسیع زرخیز زمینی خطہ تاحد خیال پھیلا جگالی کررہا تھا۔یہ صوفیوں، سنتوں، ولیوں، جوگیوں اور بھکشوؤں کی زمین تھی۔ایک مکان کی ڈیوڑھی کے ساتھ والے کمرے میں گرنتھ صاحب کا پاٹھ ڈبڈبائی آنکھوں سے کیا جاتا، تو ہم سائے کے مکان کے ملحقہ کمرے میں قرآن کی قراَت جذباتی آواز میں جاری ہوتی۔دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ کبابیے گرما گرم دھواں چھوڑتے کباب اُتارتے جاتے اور عشاء پڑھ کر نکلتے نمازی ان کو چٹنیوں میں ڈبو کر کھاتے اور چٹخارے بھرتے اُنگلیاں چاٹتے آگے کو بڑھ جاتے۔قریب میں سبزی ترکاری کے، گاؤ ماتا کی پوترتاکے قائل ،ہندو بیوپاریوں کی پیشانیوں پر ایک شکن تک نہ اُبھرتی۔کلکتہ کے پررونق، پرہنگام بازاروں کے بیچ میں گزرتی ٹرام کے ساتھ، ساڑیاں پہنے ہندو عورتیں، پھول دار فراک پہنے پارسی عورتوں کے شانہ بہ شانہ خریداری کرتی نظرآتیں۔ایک بڑے سے بیوپارخانے میں رام کی مورتیاں بکتیں، تو سامنے دیوار پر لٹکی رسّی پر یسوع مسیح کے مصلوب کیے جانے کی تصاویر، مسیحی عقیدت سے خریدتے نظر آتے۔ ہندو، مسلمان، کرسچن، پارسی، سکھ سبھی بومبے کے جو ہو بیچ کی بینچوں پر بیٹھتے اور چہل قدمی کرتے ناریل کا پانی پیتے ساحلی ہوا سے لطف اندوز ہوتے، ناریل کا پانی سبھی کو ایک سا ذائقہ دیتا ۔ سبھی کے خون کاایک سا رنگ بھی تو ہوتا ہے۔ پنجاب کی زرخیز،سرسبز اور بارآور زمین میں کچھ ایسی کشش تھی کہ خطے کے طول و عرض سے لوگ کھنچے چلے آتے۔ کشمیر کے مخملی پہاڑوں سے کشمیری ہاتو، کابل کے کشمش، اخروٹ کے بیوپاری، تبّت کے ریشم کے تاجر سبھی اِدھر کو آتے۔ بہت سے سمندری لہروں کی طرح واپس لوٹ جاتے اور چند ایک سیپیوں کی طرح ٹھہر جاتے۔انھی لوگوں میں ایک افغان قبیلہ ککّے زئی، افغانستان میں یلغاروں سے تنگ آکر، صوبۂ لغمان جیسے جنّت نظیرسرسبزخطّے کوبہ امرِمجبوری چھوڑکر قافلہ قافلہ چلا اور سترہویں ،اٹھارہویںصدی میں آکر پنجاب میں قیام پزیر ہوا۔آہستہ آہستہ اس نے اپنی جڑیں وہیں پیوست کرنا شروع کیں اور بالآخر صدی بھر میں مقامی رنگ میں کچھ ایسا رنگ گیا کہ تفریقِ من و تو یک سر ناپید ہوئی۔ پس، اسی قبیلے کے شجرے کی ایک کڑی میں فضلِ حق نامی عالمِ دین کے ہاں بیسویں صدی کے اوائل میں ایک بچّہ مولد ہوا۔ اس گھرانے پر نحوست کے سائے کچھ ایسے گہرے تھے کہ جو بھی بچّہ پیدا ہوتا، نوعمری ہی میں فوت ہوجاتا۔ ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام فضل کریم رکھا گیا۔ ماں باپ کی دعائیں رنگ لائیں اور وہ نوعمری سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہوگیا۔ذہین اتنا کہ جماعت میں اوّل آتا۔ وہ تو گویا ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ بن گیا۔ادب کا بھی عمدہ ذوق رکھتا تھا۔یادداشت اور حسِ لطیف ایسی غضب کی کہ جو نظم ایک بار پڑھ لیتا، زبانی یاد ہوجاتی۔ایک خاص خوبی یہ بھی تھی کہ حافظے کے زور پر نظم کو آخری مصرعے سے شروع کرتا اور پہلے مصرعے تک روانی میں سنا ڈالتا۔ ریاضی میں ایسا طاق کہ سوال کو پرچے کے بجائے دماغ میں حل کرکے نتیجہ نکال لیتا۔ ماں باپ نے ارادہ باندھ لیا کہ اسے دینی تعلیم کے ساتھ دُنیوی علوم میں اعلیٰ تعلیم دلوائی جائے گی اور روایتی خاندانی کاروبار کے بجائے سرکاری افسر بنایا جائے گا۔ مولانا فضلِ حق اور ان کی بیوی نے اپنے جنم دیئے شاہ کار کی شخصیت تراشنا شروع کردی۔


ایک روز بیٹا گھر آیا اور پیٹ میں تکلیف کی شکایت کی۔ابھی اُس کے علاج کے بارے میں سوچا ہی جارہا تھا کہ اُس کی سانس اُکھڑنا شروع ہوگئی۔تھوڑی ہی دیر میں وہ کانپنے لگا۔ ماں باپ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔بچے پر لرزہ طاری تھا۔جسم تیز آندھی میں لچکتی، ٹوٹتی شاخِ گُل کی مانند تڑپنے لگا۔ دَم بھر میں اُس کا ہیجان تھم گیا۔وہ مرچکا تھا۔اگرچہ ہندوستان کے کروڑوں نفوس میں سے ایک کم ہوا، تو کیا کم ہوا،البتہ ماں باپ کا اکلوتا لختِ جگر پیوند خاک ہوا، تواُن کی امیدیں بھی پیوندِ خاک ہوئیں ،پس زندہ لاشیں دن گننے کو رہ گئیں۔مگر وہ عالم دین کیاکہ رحمت خداوندی سے مایوس ہو۔ چناں چہ گردشِ لیل ونہار نے اُن کو صبر عطا کرہی دیا۔ایک صبح، سورج کی کرنوں نے اُس گھرانے میں ایک اور ننّھے معصوم وجود کی قلقاریاں سنیں۔کوئی کیا جانتا تھا کہ یہ ننّھا وجود ہی شاید اپنے ننّھے مرحوم پیش روؤں کا صدقہ ہو۔اُس ننھے وجودکی زندگی اور سلامتی کے لیے ایک منفرد رسم ادا کی گئی۔ مولانا فضلِ حق توہّم پرست تو نہ تھے، مگراُن کی بیوی ضرور تھیں۔چناں چہ ایک صوفی بزرگ سے، جن کو وہ بہت اہم روحانی مرتبے پر جانتی اور مانتی تھیں، رجوع کیا گیا۔اُن بزرگ نے وہ رسم ادا کرنے کا کہا۔ مولانا کی طبیعت ایسی رسوم کو خلافِ شریعت مانتی تھی، مگر باپ کی محبت اولاد کی خاطر سب کچھ کر لینے کو تیار تھی۔ چناں چہ مولانا فضلِ حق پر باپ فضلِ حق حاوی ہوا۔اُن کی بیوی نومولود کی زندگی کی خاطر وہ رسم ادا کرنے پر آمادہ ہوئیں۔ رسم کی پہلی شرط یہ تھی کہ اسے غیر آباد پانی کے کنویں میں ادا کرنا تھا۔چناں چہ ایسے کسی کنویں کا پتا لگانے کی خاطر احباب کو دوڑایا گیا۔آبادی سے کچھ ہی فاصلے پر ایسا ایک کنواں دریافت کرلیا گیا۔رسم کو پورا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ایک پیڑھی کا بندوبست کیا جائے، جس کے چاروں کونوں کو رسّوں سے باندھا جائے۔زچّہ کو پیڑھی پربٹھایا گیا، جس کے چاروں کونے رسوں سے بندھے ہوئے تھے اور اُس پیڑھی کو جھاڑ جھنکاڑ سے اَٹے خشک ویران کنویں میں اس طرح اُتارا گیا کہ وہ بیچ ہوا میں معلّق رہے۔اس رسم کو پورا کرنے کے لیے گندم کے آٹے کا بندوست کیا گیا تھا۔ اس آٹے سے روٹی کا پیڑا بنایا گیا اور پھر زچّہ نے مختلف دعائیں اور وظیفے پڑھتے ہوئے اس پیڑے سے روٹی بنائی۔ رسم کو پورا کرنے کے بعد زچّہ کو مع پیڑھی باہر نکال لیا گیا۔ بعدازاں نومولود کو طویل زندگی نصیب ہوئی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین