• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


یہ ماہِ مبارک کی رونقیں ہیں

تحریر: نرجس ملک

عکّاسی واہتمام: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

’’اہلِ ایماں کے لیے ہے یہ مسرت کا پیام.....آگیا سرچشمۂ فضلِ خدا ماہِ صیام.....روح پرور ہے یہ تسبیح و تلاوت کا سماں.....کررہے ہیں سب بقدرِ ظرف اس کا اہتمام.....مسجدیں فضلِ خدا سے مطلعِ انوار ہیں.....پی رہے ہیں اہلِ ایماں بادئہ وحدت کا جام.....بارگاہِ ربّ العزّت میں سبھی ہیں سجدہ ریز.....دید کے قابل ہے، یہ قانونِ قدرت کا نظام.....طالبِ فضلِ خدا ہیں بچّے، بوڑھے اور جواں .....بھوکے پیاسے ہیں، مگر پھر بھی نہیں ہیں تشنہ کام.....ماہِ رمضاں میں یہ افطار و سحر کا انتظار.....ہے نشاطِ روح کا ساماں برائے خاص و عام..... پیش خیمہ عید کا ہے ماہِ رمضاں اس لیے.....ہو مبارک سب کو برقی اس کا حُسنِ اختتام‘‘۔ گرچہ وقت کی دبیز دھول نے ہمارا اصل، خالص، پُرشکوہ، اُجلا، شان دار ماضی، سادگی سے مرصّع حسین اقدار و روایات، خُوب صُورت رسوم و رواج کو بہت حد تک اپنی لپیٹ میں لے کر دُھندلادیا ہے۔ ساحل کی ریت کی طرح ہاتھوں سے نہ جانے کیا کیا کچھ پھسل گیا، چُھٹ گیا، مِٹ گیا، کھوگیا۔ مگر صد شُکر کہ اب بھی کچھ لوگ، کچھ گھرانے ایسے ہیں، جو اپنے اصل سے کسی نہ کسی حد تک جُڑے، اپنی جَڑوں (Roots)کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، خصوصاً اپنی خالص دینی و مشرقی اقدار و روایات کے پاسباں ہیں۔ ایک دَور تھا، ماہِ صیام کی آمد کا انداز ہی الگ ہوتا تھا۔ ہر دوسرے گھر کی کشادہ، ٹھنڈی ہوادار چھتوں پر باقاعدہ رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام ہوتا اور پھر کسی نہ کسی کو اچانک بدلیوں کی اوٹ سے اِک باریک سا ہلال جھانکتا دکھائی بھی دے جاتا۔ ہر طرف سے ’’رمضان مبارک‘‘ کی صدائیں سُنائی دیتیں۔ گھر کے سارے مرد (بڑے بوڑھے، جوان حتیٰ کہ بچّے بھی) سفید لٹّھے کے جوڑے پہنے، ٹوپیاں سنبھالتے، نمازِ تراویح کے لیے مساجد کی طرف رواں دواں ہوتے، تو گھر کی خواتین بڑی بوڑھیاں، لڑکیاں بالیاں، جلدی جلدی سحری کے انتظامات میں جُٹ جاتیں۔ آٹا گوندھنا، دہی کے لیے جاگ لگانا، سالن تیار کرکے رکھنا ہے۔

یہ ماہِ مبارک کی رونقیں ہیں

کوئی کھجلہ پھینی، دودھ جلیبی کھاتا ہے، تو اُس کا انتظام الگ، باورچی خانہ سِمٹ گیا، تو بڑے بڑے دوپٹے، اوڑھنیاں لپیٹ کے جائے نمازوں پر کھڑی ہوگئیں۔ جلد سونے کی تیاری، گھڑیوں کے الارم سیٹ ہوگئے۔ وقتِ سحر ایک کے بعد ایک گھر روشن ہونے لگتا۔ بلبوں کی پیلی پیلی روشنیوں سے گلیاں تک سنہری ہوجاتیں۔ چولھے جلنے، برتن کھڑکنے، چلنے پِھرنے کی آوازیں، پراٹھوں، انڈوں کی سوندھی خوشبوئوں کے لَپٹے اور پھر گلوں میں ڈھول ڈالے، سحری جگانے والے ڈھولچیوں کی’’ روزے دارو.....اللہ کے پیارو‘‘ کی صدائوں سے تو سارا محلّہ، چھوٹے چھوٹے بچّے تک جاگ جاتے۔ بڑے بڑے ٹی وی سیٹس، پی ٹی وی کی بلیک اینڈ وائٹ نشریات اور صابری برادران کی قوالیاں ’’بَھردو جھولی میری یامحمدﷺ، لَوٹ کر مَیں نہ جائوں گا خالی…حشر میں اُن کو دیکھے گی جس دَم اُمت، یہ کہے گی خوشی سے…آرہے ہیں وہ دیکھو محمدﷺ جن کے کاندھے پہ کمبلی ہے کالی ‘‘ اور ’’ تاج دارِ حرم، ہو نگاہِ کرم، ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے.....حامئی بے کساں کیا کہے گا جہاں، آپ کے دَر سے خالی اگر جائیں گے‘‘… سحری کا عالم، منظر، ماحول ہی ایسا نورانی، روح پرور ہوتا کہ کیا بڑے بوڑھے، جوان، چھوٹے چھوٹے بچّے بھی اس پوتّر و پاکیزہ فضا کے اسیر نظر آتے، روزہ رکھنے کی ضد کرتے، مچلے جاتے۔ مائیں ’’چِڑی روزہ‘‘ رکھنے پر آمادہ کرتیں، مگر وہ اِک بار جو سحری کر بیٹھتے، پھر پورا دن کسی صُورت منہ کھولنے پر آمادہ نہ ہوتے۔ واللہ، کیا دَور تھا۔ یہ تو صرف وقتِ سحر کی اِک ہلکی سی جھلک ہے، وگرنہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں سحر تا افطار، افطار تا سحر بس ایسی ہی نُور کی اِک چادر سی تَنی، رحمت و برکت کی برکھا سی چھائی رہتی۔ اور یہ کسی ایک گھر، گھرانے کا احوال نہیں، لگ بھگ ہر گھر کا کچھ ایسا ہی منظر نامہ ہوتا۔

بہت قابلِ پڑھے لکھے (حقیقتاً تعلیم یافتہ) سلجھے ہوئے فن کار، عبدالباسط خان کا نام شاید بہت سے ذہنوں سے محو ہوچکا ہو کہ 1985ء تا 2001ء کئی کام یاب سیریلز، لانگ پلیز میں اپنی شان دار کردار نگاری سے رنگ بَھرنے کے بعد اُنہوں نے اچانک ہی ٹی وی انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا، مگر اُن کا اصل حوالہ محض اتنا ہی نہیں ہے۔ اُنہوں نے 1979ء میں، امتیازی پوزیشن کے ساتھ سی ایس ایس کیا اور پھر 37برس سے بھی زاید عرصے تک مختلف وفاقی اور صوبائی محکموں میں انتہائی اہم اور اعلیٰ عُہدوں پر فائز رہے۔ آخری سرکاری خدمات، 2014ء تا 2017ء بہ حیثیت مشیر، وفاقی محتسب انجام دیں۔ جس وقت ڈراموں میں اداکاری کا شوق چرایا، تب بھی ڈپٹی ڈائریکٹر، واپڈا کے عُہدے پر تعیّنات تھے۔ اَن گنت سرکاری، غیر سرکاری دورے کیے، لگ بھگ پوری دنیا گھومی۔ متعدّد مُلکی، غیرمُلکی کانفرنسز، سیمینارز میں شرکت کی۔ بچّوں، خواتین کے معاشی، سماجی مسائل سے متعلق کئی اوئیرنیس کیمپینز چلائیں۔ حتیٰ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کہیں ٹِک کے نہیں بیٹھے، تاحال انتہائی متحرّک، چُست و توانا، چاق چوبند شخصیت ہیں۔ ایک مقامی چینل سے ہفتے میں 3 دن، معاشرتی مسائل ہی سے متعلق ایک شو کرتے ہیں۔ بہترین اسپورٹس مین ہیں۔ ریٹائرڈ آفیسرز کی انجمن میں بےحد سرگرم ہیں، تو حاضر سروس، نو عُمر افسران میں خاصے مقبول اور سب سے بڑھ کر ایک بہترین’’ عام آدمی‘‘ ہیں، جنھیں اگر’’ گھریلو آدمی‘‘ کہا جائے، تو بھی غلط نہ ہوگا۔ بالکل روایتی، دیسی بڑے بوڑھوں کی طرح اپنے گھر کے ماحول میں خلوص و سادگی، خالص مشرقی رنگ و انداز اپنائے رکھنے کے قائل، جیسے بچپن میں اپنے والدین کو اپنی خُوب صُورت اقدار و روایات ، رسوم و رواج میں جکڑے دیکھا، نئی نسل کو بھی ( اپنے چاروں بچّوں، دونوں بیٹیوں، بیٹوں حتیٰ کہ پوتوں ،نواسیوں تک کو)اُن ہی میں رنگا دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

یہ ماہِ مبارک کی رونقیں ہیں

باسط خان کہتے ہیں’’ سچ بتاؤں، تو مَیں اندر سے بڑا دیسی، وطنی، خالص، پیور ہوں۔ بہ ظاہر مَیں نے بڑی بھرپور، خوش حال، رنگا رنگ زندگی گزاری، مگر اپنی فطرت، جَڑوں سے کبھی علیٰحدہ نہیں ہوپایا۔ پورا بچپن بُورے والا اور زندگی کے انتہائی اہم 28 سال لاہور میں گزارے۔ ہم چار بھائی تھے، جن میں سے تین نے سی ایس ایس کیا اور سب ہی نے الحمد للہ، شان دار زندگیاں گزاریں، بے شمار کام یابیاں سمیٹیں، مگر ہم میں سے کسی کی زندگی پر بھی کبھی مغربی رنگ ڈھنگ غالب نہیں آئے۔ اور اِس کی وجہ یقیناً ہمارے والدین کی تعلیم و تربیت ہے۔ والد صاحب ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر تھے اور والدہ بہ ظاہر گھریلو، مگر بڑی جہاں دیدہ خاتون۔ اگر مَیں اُنھیں زندگی میں اپنی رول ماڈل، مین ٹور کہوں تو غلط نہ ہوگا۔ مجھے یاد نہیں، مَیں نے کس عُمر سے باقاعدہ نماز پڑھنی، روزے رکھنے شروع کیے، کیوں کہ اُس دَور میں نماز، روزہ، دین کے بنیادی ارکان گھروں کی تربیت میں یوں گُھلے مِلے تھے، رَچے بَسے ہوتے تھے کہ اُنھیں اپنانا کوئی علیٰحدہ کام نہیں لگتا تھا۔ ماں جی، ابّا جی نے جو کہہ دیا، سمجھا دیا، بس وہی کرنا ہوتا تھا اور ہم کرتے تھے۔ مجھے اپنے بچپن کا رمضان، آج بھی جزئیات کے ساتھ یاد ہے۔ ماں جی کا سحری بنانا، انتہائی محبّت سے ہم بھائیوں، ابّاجی کو جگانا، ہم سب کی پسند کا خیال رکھنا، پھر جلدی جلدی نوالے بنا کر کھلانا، اچھے طریقے سے وضو کرنے، نماز پڑھنے کی ہدایت، قرآن پاک کی تلاوت کی تاکید کرنا، نہلا دھلا کے صاف ستھرے کپڑے پہنانا، پھر دن بھر ہماری ساری ایکٹیویٹیز پر نظر رکھنا۔ روزے کے ساتھ بچّے زیادہ دیر دھوپ میں تو نہیں کھیل رہے، دوپہر میں گھر سے باہر تو نہیں نکل گئے اور پھر افطاری کا اہتمام، تراویح کے لیے مسجد بھیجنا۔ کیا خُوب صُورت ماحول ہوتا تھا، سچ کہوں تو ماں جی کا وہ سحری، افطاری کا سُرخ پھول دار دستر خوان، آج ڈائننگ ٹیبلز پر تو شفٹ ہوگیا ہے، مگر مجھے اپنے اندر کہیں آج بھی اُسی بچپن کے شان دار رمضان کی الوہی سی چمک، مہک ہُمکتی، سانسیں لیتی محسوس ہوتی ہے۔ پھر مَیں اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہوں کہ میری اہلیہ، قدسیہ بھی بڑی دین دار گھریلو اور روایتی خاتون ہیں۔ انھوں نے بھی اپنی خاندانی اقدار کو مِٹنے نہیں دیا۔ ہمارے گھر میں آج بھی رمضان المبارک اور عیدین وغیرہ کا اہتمام اُسی شان و شوکت سے ہوتا ہے، جیسا کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ میڈیا نے ماہِ صیام کو ایک ایونٹ، اینٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بنادیا ہے، لیکن صد شُکر کہ ہمارے گھر میں آج بھی رمضان المبارک کا استقبال ایک دینی و مذہبی فریضے کے طور پر ہوتا ہے۔ میرے سارے بچّے، بہو، داماد روزے رکھتے ہیں۔ پنج وقتہ نماز، تلاوتِ قرآن، اوراد و وظائف، زکوٰۃ و صدقات اور تراویح و تسبیحات کا اہتمام ہوتا ہے۔ اور صرف میرے بچّے نہیں، بچّوں کے بچّوں کی بھی یہی تربیت ہے۔‘‘

یہ ماہِ مبارک کی رونقیں ہیں

باسط خان کے ایک بھائی کا گھر قریب ہی ہے۔ بیٹا، بہو ساتھ، جب کہ ایک بیٹی، داماد گھر کے اوپری پورشن میں رہتے ہیں۔ دوسری بیٹی کا گھر بھی نزدیک ہے، تو رمضان المبارک میں ایک لازمی روایت تو یہ نبھائی جاتی ہے کہ کسی ایک افطار دسترخوان پر سب اکٹھے ہو جاتے ہیں، کسی کے روزہ چھوڑنے کا تو سوال ہی نہیں، پھر مساجد میں اور ایک دوسرے کے گھر افطار ٹرے بھیجنے، اکٹھے نماز، تراویح پڑھنے کا سلسلہ بھی رہتا ہی ہے۔ یوں موجودہ نسل ہی نہیں، اگلی نسل کو بھی رمضان المبارک کو بہ طور ایونٹ نہیں، ایک خالصتاً مذہبی ودینی فریضے کے طور پر اپنانے کا باقاعدہ درس مل رہا ہے اور بہ قول باسط خان،’’ میری دِلی خواہش ہے کہ ہمارے والدین نے ہماری گُھٹی میں اپنے بہت پیارے مذہب سے جو اُنسیت و عقیدت شامل کی، وہ اگلی نسلوں میں بھی اسی طرح منتقل ہوتی رہے۔ مَیں نے زندگی میں اپنے سارے شوق پورے کیے، مگر کبھی حدود سے تجاوز نہیں کیا۔ اہلیہ نے ایک بات کہی کہ ’’مَیں نے ایک آفیسر سے شادی کی تھی، کسی اداکار سے نہیں‘‘ اور مَیں نے اسی بات پر ڈراموں میں کام چھوڑ دیا۔ مَیں ڈرامے کے سیٹ سے نماز کے لیے اُٹھتا، تو لوگ حیرانی سے دیکھتے، اور مجھے اُن کی حیرانی پر حیرانی ہوتی کہ نماز تو ایسی فرض عبادت ہے، جس کی کسی طور معافی ہی نہیں، تو لوگ نماز نہ پڑھ کے پُرسکون کیسے رہ سکتے ہیں۔ نماز کا وقت ہو جائے، تو میرے اندر تو خود بہ خود اِک بے چینی سی ہونے لگتی ہے اور یہ کوئی دنیا دکھاوے یا اظہار کرنے کی بات نہیں، بہ حیثیت مسلمان، کم از کم دین کے بنیادی ارکان کی پاس داری تو ہمیں ہر صورت کرنی ہی چاہیے۔‘‘

یہ ماہِ مبارک کی رونقیں ہیں

ہم نے اس بار ماہِ غفران’’ رمضان المبارک‘‘ کی چند اَن مول ساعتیں باسط خان کے گھر میں، اُن کے اور اُن کے اہلِ خانہ کے ساتھ عکس بند کی ہیں۔ لیجیے، سحر تا افطار، نور کی پھوار…اِس خصوصی اہتمام کی کچھ جھلکیاں، برائے تحفۂ ماہِ صیام، آپ کی نذر ہیں کہ ؎ اے ماہِ رمضاں سلام تجھ پر…اے ماہِ قرآں سلام تجھ پر…تُو اک مِنارہ ہے روشنی کا…تُو استعارہ ہے زندگی کا…تُو اک حوالہ ہے سرخوشی کا…تُو اِک رستہ ہے بندگی کا…اے ماہِ رمضاں سلام تجھ پر…اے ماہِ قرآں سلام تجھ پر۔

تازہ ترین