• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ وجدل پر مسلئے کا حل نہیں

پاکستان کی قومی سلامتی کے مُشیر، جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے مئی کے اوائل میں اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی برقرار رہی، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کو ختم کر دیں گے۔ دونوں ممالک اپنے تلخ ماضی سے نجات پا کر امن کی جانب قدم بڑھائیں کہ جنگ ہر سوال کا جواب نہیں۔‘‘ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان اور بھارت کے اہلِ دانش اور سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف آگ اُگلنے میں مصروف ہیں، اس بیان پر مُشیر برائے قومی سلامتی کے حوصلے اور جرأت کو داد دینے کا جی چاہتا ہے۔ آج شاید ہی کوئی فرد ناصرخان جنجوعہ سے زیادہ قومی سلامتی کی صورتِ حال اور اس کے علاقائی و عالمی پس منظر سے واقف ہو اور وہی دونوں ہم سایہ ممالک کو قیامِ امن سے متعلق سوچ بچار کی دعوت دے رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے، تو دونوں ممالک کی سیاسی قیادت پر یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ جنگ و جدل کی راہ اپنانے کی بہ جائے امن کے راستے پر چل کر کم و بیش 1.5ارب عوام کا مستقبل محفوظ بنائے۔ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کا مزید کہنا تھا کہ چُوں کہ حالت جنگ میں رہنے والے ممالک بھی ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ لہٰذا، دونوں ممالک کے مابین رابطہ موجود ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی مذمّت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سفارت کاری کے حسبِ منشا نتائج حاصل نہیں ہوتے۔

جنگ وجدل پر مسلئے کا حل نہیں
جنرل (ر)پرویز مشرف اور ڈاکٹر من موہن سنگھ مصافحہ کرتے ہوئے

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک 4جنگیں لڑی جا چُکی ہیں اور میڈیا پر مستقبل میں ایٹمی جنگ چِھڑنے کا ذکر عام ہے، حالاں کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا ذرا سا بھی ادراک رکھنے والے ایٹمی جنگ کا تصوّر تک نہیں کر سکتے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر جنگ کے بعد دونوں ممالک کے رہنمائوں نے مذاکرات کیے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد تاشقند میں پاکستانی صدر، ایّوب خان اور بھارتی وزیرِ اعظم، لال بہادر شاستری کے درمیان طویل بات چیت کے نتیجے میں ’’اعلانِ تاشقند‘‘ ہوا۔ اس اعلان کے تحت حالات معمول پر آئے اور افواج کی سرحدوں سے واپسی ہوئی۔ اس موقعے پر رُوس نے پہلی مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا۔ تب ذوالفقار علی بُھٹّو وزیرِ خارجہ تھے اور اعلانِ تاشقند کے بعد ایّوب خان اور ان کی راہیں جُدا ہو گئیں۔ بُھٹّو 1970ء کے عام انتخابات تک اعلانِ تاشقند کے راز سے پردہ اُٹھانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اُن کا ماننا تھا کہ ایّوب خان میدان میں جیتی بازی میز پر ہار گئے۔ 1971ء کی جنگ کے نتیجے میں بنگلا دیش وجود میں آیا۔ اس جنگ کے بعد بھارتی ہل اسٹیشن، شِملہ میں ذوالفقار علی بُھٹّو اور اِندرا گاندھی کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں شِملہ منظرِعام پر آیا۔ 1998ء میں کارگل کی جنگ کے دوران پاکستانی و بھارتی وزرائے اعظم، میاں نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت ہوئی۔ یہ جنگ ختم ہونے کے بعد پرویز مشرّف کے دَور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا، لیکن 2008ء کے ممبئی حملوں کے بعد یہ سلسلہ منقطع گیا۔ بعد ازاں، 2014ء میں اس وقت کے وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف نے نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔ پھر موجودہ دَورِ حکومت ہی میں نریندر مودی غیر سرکاری دورے پر پاکستان آئے اور رُوسی شہر، اوفا اور پیرس میں بھی دونوں رہنمائوں کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں، لیکن یہ بے نتیجہ رہیں اور دہشت گردی کا عُنصر شامل ہونے کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ بھارت ممبئی، پارلیمنٹ ہائوس اور پٹھان کوٹ میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمّے دار اُن کالعدم تنظیموں کو ٹھہراتا ہے، جو مبیّنہ طور پر پاکستان کی سر زمین میں پناہ لیتی ہیں، جب کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ اگر اُسے ثبوت فراہم کیے جائیں، تو وہ ان کے خلاف کارروائی پر آمادہ ہے۔ نیز، پاکستان اپنی سر زمین پر دہشت گردی کے واقعات کی ذمّے داری بھارت پر عاید کرتا ہے اور بھارتی جاسوس، کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لائن آف کنٹرول کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے میڈیا میں بھی ایک جنگ جاری ہے، جس کے منفی نتائج ان کے اپنے عوام پر مرتّب ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک کا میڈیا اس انتہا پر پہنچ چُکا ہے کہ اگر کوئی امن کی بات کرتا ہے، تو اُسے غدّار قرار دے کر اس کا جینا دُو بَھر کر دیا جاتا ہے، تو ایسے میں امن کی بات کون کرے گا، حالاں کہ دشمنی کسی بھی وقت دوستی اور جنگ کسی بھی وقت امن میں ڈھل سکتی ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان ہونے والی مفاہمت اور پیانگ یانگ اور واشنگٹن جیسے کٹر دشمنوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہمارے لیے ایک مثال ہے۔ جو افراد ٹرمپ اور کِم پر جنگی جنون اور عقل سے عاری ہونے کے الزامات لگاتے تھے، وہ اب منہ لٹکائے ان کے درمیان ملاقات کے منتظر ہیں، جس کے نتیجے میں جزیرہ نما کوریا سے ایٹمی ہتھیاروں کا صفایا ہو سکتا ہے۔ پھر چین اور بھارت بھی ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں چینی صدر، شی اور بھارتی وزیرِ اعظم، مودی کے درمیان غیر رسمی ملاقات میں یہ طے کرنے کی کوشش کی گئی کہ سب سے بڑی آبادی والے دو پڑوسی ممالک کو اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود پُر امن بقائے باہمی کے تحت اپنے عوام اور خطّے کی ترقّی میں شریک ہونا چاہیے۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ میں ایک دوسرے کے جانی دشمن، چین اور جاپان بھی ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ چند ہفتے قبل چینی وزیرِ اعظم نے جاپان کا دورہ کیا اور شہنشاہِ جاپان تک سے ملاقات کی۔ یہ بھی بہت بڑی پیش رفت ہے۔ رُوس اور مغربی ممالک کے درمیان بھی شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اور یورپ کی تباہ کُن اقتصادی پابندیوں سے ماسکو بے حال ہے۔ تاہم، دونوں کے درمیان ہر سطح پر تعاون اور بات چیت جاری ہے۔

جنگ وجدل پر مسلئے کا حل نہیں
میاں نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی کے درمیان ملاقات کا ایک منظر

آج تقریباً تمام ہی ممالک سفارت کاری کے اسی طریقۂ کار پر گام زن ہیں، کیوں کہ ممالک کے درمیان ازلی دشمنی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، لیکن اس کا سب سے قریبی دوست، چین ایک کمیونسٹ مُلک ہے، جب کہ اسی خطّے میں واقع، افغانستان اور بنگلا دیش جیسے مسلم اکثریتی ممالک سے ہمارے اختلافات دشمنی کی حدوں کو چُھو رہے ہیں۔ بِلا شُبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دیرینہ تنازعات موجود ہیں، لیکن کیا ہم نے اپنی ترقّی کی سمت طے کی ہے؟ نیز، کیا ہم یہ فیصلہ کر چُکے ہیں کہ خطّے اور دُنیا میں پاکستان کا کیا مقام ہونا چاہیے؟ ان اہداف کا تعیّن کرنے کے لیے ہمیں حقیقت کی دُنیا میں رہ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ پھر یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ہم ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے پر آمادہ ہیں؟ نیز، اس راستے میں آنے والی رُکاوٹوں کو کس طرح عبور کیا جائے اور اختلافِ رائے کو ہم آہنگی میں کیسے بدلا جائے؟ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لیے زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ہمارے سب سے قریبی دوست، چین نے یہ سب کچھ محض چند دہائیوں میں کر دکھایا۔ دسمبر 1979ء میں چین کے عظیم مدبّر، ڈینگ ژیائو پھنگ نے چین کی ترقّی کی راہیں ازسرِ نو متعین کیں۔ انہوں نے چین کی اقتصادی ترقّی کو اپنا نصب العین بنایا اور اس مقصد کے لیے پہلے اہداف مقرّر کیے اور پھر انہیں حاصل کرنے کے طریقے وضع کیے۔ ان کی پالیسی میں دوسرے ممالک کی سازشوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا، بلکہ آگے بڑھنے کے رہنما اصول بیان کیے گئے تھے، کیوں کہ وہ یہ جانتے تھے کہ سازشوں کا رونا رونے سے خود اعتمادی میں کمی واقع ہوتی ہے۔

کشمیر، پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم تنازع ہے اور خطّے میں پائے دار امن کے لیے اس کا حل بہت ضروری ہے، لیکن یہ بھی طے ہے کہ کشمیریوں کی کام یابی ایک مضبوط پاکستان میں مضمر ہے۔ پاکستان اپنی اقتصادی قوّت ہی کے بَل پر دِفاع سمیت دیگر شعبوں میں طاقت وَر اور کشمیریوں کو اُن کے پائوں پر کھڑا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، وگرنہ بیانات تو صرف مسائل ہی پیدا کر سکتے ہیں۔یاد رہے کہ اس وقت کشمیری باشندے اقتصای طور پر تباہ حال ہیں اور پاکستان کے علاوہ دُنیا کا کوئی دوسرا مُلک ان کی مدد نہیں کر سکتا۔ پھر ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ سوویت یونین اس لیے نہیں ٹوٹا تھا کہ اس کے پاس فوج یا ہتھیاروں کی قلّت تھی، بلکہ وہ اپنی معیشت تباہ ہونے کی وجہ سے بکھرا۔ سو، کشمیر کے عوام بھی اپنی اقتصادی حالت بہتر ہونے ہی پر مطمئن ہوں گے۔ پھر کشمیریوں کی آزادی و خود مختاری بھی صرف اسی صورت مستحکم ہو سکتی ہے کہ جب اس کی بنیاد مستحکم معیشت پر رکھی جائے، وگرنہ چند سال ہی میں ایسی مشکلات سامنے آئیں گی کہ ساری خوشیاں خاک میں مل جائیں گی اور آج کے دوست کل کے دشمن بن جائیں گے۔پھر ہم سے بہتر یہ کون جانتا ہو گا۔ کیا ہندوستان کے مسلمانوں نے قیامِ پاکستان کے لیے مشترکہ جدوجہد نہیں کی تھی، لیکن صرف 24برس بعد ہی پاکستان دو لخت ہو گیا۔ یعنی ساری محبتیں، بھائی چارہ اور نظریات ٹھوس اقتصادی حقیقت کے آگے ڈھے گئے۔ یہ بڑے تلخ اور اذیّت ناک حقائق ہیں۔ یاد رہے کہ جمہوری ممالک میں عوام صرف اپنی معاشی ترقّی کے لیے حُکم راں تبدیل کرتے ہیں۔

جنگ وجدل پر مسلئے کا حل نہیں
ذوالفقار علی بھٹّو اندرا گاندھی کے ساتھ

تاہم،حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس وقت خطّے کے تمام بڑے ممالک اقتصادی ترقّی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چین کو سبقت حاصل ہے اور وہ ایک عمل انگیز کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے۔ آج پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش معاشی استحکام چاہتے ہیں، کیوں کہ ان تمام ممالک کی آبادی اس قدر بڑھ چُکی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے عوام کو بنیادی ضروریات فراہم نہ کیں، تو آبادی کے بوجھ تلے دب کر سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔ ان تینوں ممالک کی مجموعی آبادی 165کروڑ ہے اور اس میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر کشمیر سمیت تمام تنازعات کو اقتصادی پس منظر میں رکھ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے، تو ترقّی پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا کسی حد تک ممکن ہو گا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور بھارت کے پالیسی سازوں کو وِن،وِن کی پوزیشن پر آنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ حال ہی میں چین میں ہونے والی مودی، شی ملاقات کے ذریعے ایک پیغام یہ بھی دیا گیا کہ چین اپنی اقتصادی ترقّی کی راہ میں کسی مُلک سے دشمنی کو رُکاوٹ نہیں بننے دے گا۔ چاہے اس مقصد کے لیے اسے بھارت بے تکلفانہ مذاکرات ہی کیوں نہ کرنا پڑیں۔ یعنی چین کی ترقّی سب پر مقدم ہے۔ گرچہ بھارت نے ون بیلٹ، ون روڈ سے اختلاف کیا تھا، لیکن اس کے باوجود چینی قائدین نے بھارتی وزیرِ اعظم کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ سو، اختلافات کے باوجود پاکستان اور بھارت بھی آپس میں تعلقات قائم کر سکتے ہیں اور پھر تنازعات کی وجہ سے دونوں ممالک کے کم و بیش 150کروڑ عوام کی زندگی کو دائو پر لگانا عقل مندی نہیں۔

پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں کو قیامِ امن کے لیے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت دونوں ممالک کے درمیان رابطے جاری ہیں۔ گرچہ سرکاری ذرایع سے ان کی تصدیق نہیں ہو سکی، تاہم قومی سلامتی کے مُشیر کا بیان اس سلسلے کا حصّہ ہوسکتا ہے۔ اگست اور ستمبر کے دوران پاکستانی و بھارتی افواج شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں حصّہ لیں گی۔ اسے اگر بریک تھرو کہا جاسکتا ہے، تو دوسری جانب یہ سارک جیسے علاقائی فورم کی ناکامی کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے، جس میں جنوبی ایشیا کے تمام ممالک شامل ہیں۔ یہ تنظیم پاک، بھارت تنائو کی وجہ سے جمود کا شکار ہے، جس کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں ممالک کی قیادت نے دُنیا کی دیگر تنظیموں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ بھارت سارک کانفرنس میں شرکت سے مستقلاً انکاری ہے اور بنگلا دیش، افغانستان اور بھوٹان نے بھی اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، جو قابلِ تحسین عمل نہیں اور یہ صورتِ حال پاکستانی اور بھارتی قیادت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔

جنگ وجدل پر مسلئے کا حل نہیں
ایّوب خان اور لال بہادر شاستری کی یادگار تصویر

ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس کے متعلق بعدازاں اس وقت کے پاکستانی وزیرِ خارجہ، خورشید محمود قصوری نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ مذاکرات حتمی نتیجے کی جانب گام زن تھے۔اس موقعے پر آزاد و مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں کو ایک دوسرے سے روابط قائم کرنے کے موقع ملے اور دونوں ممالک کے عوام کے لیے راستے کُھلے۔ نیز، ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں بڑی پیش رفت نظر آئی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سلسلے کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے آگے بڑھایا جاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم دونوں ممالک میں پائی جانے والی عداوت میں تو کمی واقع ہو گی اور اسی نسل کو امن مذاکرات میں اپنا حصّہ ڈالنے کا موقع ملے گا۔

تازہ ترین