• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


اعلیٰ عدلیہ کی سخت ترین کارروائی کے بعد کراچی سے خلاف ضابطہ سائن بورڈز کے خاتمے کے بعد اب شہر میں ’والز مافیا‘ یا ’دیوار مافیا‘انتہائی سرگرم ہوگئی ہے اور کئی اہم علاقوں کی مرکزی شاہراہوں اور چوراہوں پر کنکریٹ کی خطرناک دیوہیکل دیواریں تعمیر کرکے تشہیر کیلئے بھاری کرایوں پر دینا شروع کردی ہیں۔

 کراچی میں ’دیوار مافیا‘ سرگرم ہوگئی

ذرائع کے مطابق کراچی میں دیوہیکل اور خطرناک سائن بورڈز کے گرنے کے حادثات و واقعات میں بھاری جانی نقصان کے بعد سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور شہر کے تمام متعلقہ اداروں کو طلب کرکے تشہیری کاروبار کے سلسلے کے غیرقانونی دیوہیکل اور خطرناک سائن بورڈز اور بل بورڈز فوری طور پر ہٹوا دیئے گئے تھے جس کے بعد کچھ عرصے تک تو صورتحال معمول پر رہی ۔

لیکن گزشتہ کئی ماہ سے شہر کی عام دیواروں کو تشہیری مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا لیکن اب ان مقاصد کیلئے کنکریٹ کی غیرمعمولی بلند دیوہیکل دیواریں تعمیر کی جارہی ہیں۔

شہر کے کئی فلائی اوورز اور چوراہوں پر ایسی دیواریں تعمیر کرکے مختلف اداروں کی تشہیری مہم کی جارہی ہے۔ راشد منہاس روڈ، شاہراہ فیصل، ایف ٹی سی فلائی اوورز، کورنگی روڈ، اسٹیڈیم روڈ، کارساز روڈ، یونیورسٹی روڈ، حسن اسکوائر، ایم اے جناح روڈ اور دیگر مقامات پر دن رات یہ تعمیرات جاری ہیں۔

شارع فیصل کے ساتھ ساتھ ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن کی عام دیوار کو توڑ کر کنکریٹ کی لگ بھگ 25 فٹ بلند دیوار تعمیر کردی گئی ہے۔ ایف ٹی سی فلائی اوور کے ساتھ ساتھ تین اطراف میں ایسی دیوہیکل دیواروں کا جمعہ بازار لگا دیا گیا ہے۔


کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹیز، کے ایم سی، مطلقہ کنٹونمنٹ بورڈز کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی روک تھام سامنے نہیں آئی۔ اس کے برعکس کئی مقامات پر پولیس موبائیلز تعمیرات کے دوران کھڑی ہوکر سرپرستی کرتی دکھائی دی ہیں۔

کراچی کی آؤٹ ڈور ایڈورٹائزر ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری سجاد حیدر شیرازی نے اس سلسلے میں ’جنگ‘ کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات میں لوہے کے بڑے اسٹرکچر ز پر پابندی لگائی گئی تھی۔ ان احکامات میں دیواروں کا کہیں ذکر نہیں۔

ان دیواروں کے غیرقانونی ہونے کے بارے میں سوال پر سجاد شیرازی کا کہنا ہے کہ ان کی اجازت ڈی ایم سیز کو فیس کی ادائیگی کرکے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ اجازت ایک عام انسپکٹر دے دیتا ہے اس کی پشت پر ادارے کا ڈائریکٹر یا کوئی اور افسر ہوتا ہے۔ کرپشن کا یہ عالم ہے کہ اداروں میں کچھ لے دے کر کوئی بھی اجازت لی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی ایم سیز اور دیگر اداروں کے لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں اعلیٰ عدلیہ کی سماعت کے دوران بھی دیواروں کی تعمیرات پر نکتہ اٹھایا گیا تھا اور عدالت نے متعلقہ اداروں سے سوالات کئے تھے کہ’ایسی دیواریں کون تعمیر کرا رہا ہے‘۔

ماہرین کے مطابق کنکریٹ کی یہ دیواریں گرنے کی صورت میں دیوہیکل سائن بورڈز سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گی۔

ذرائع کے مطابق تمام دیواروں کا اسٹرکچر ایسا ہے کہ متوقع بارشوں اور تیز آندھی کے دوران ان کے گرنے کی صورت میں شاہراہوں پر راہگیر اور گاڑیاں نشانہ بنیں گی۔

شہری حلقوں نے متعلقہ اداروں سے اس سلسلے میں فوری کارروائی کرنے اور یہ سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تازہ ترین