• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محکمہ توانائی کی حیسکو کو ایک بل پر دو مرتبہ ادائیگی کا انکشاف،قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان

محکمہ توانائی کی حیسکو کو ایک بل پر دو مرتبہ ادائیگی کا انکشاف،قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان

حیدرآباد ( بیورو رپورٹ) حکومت سندھ کے محکمہ توانائی کی حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کو ایک یوٹیلٹی بل پر دو مرتبہ ادائیگیاں کرنے کا انکشاف، قومی خزانے کو 3 ارب روپے سے زائد کا چونا لگایا گیا‘ آڈٹ رپورٹ نے مذکورہ اداروں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی۔ ”جنگ“ کے رابطہ کرنے پر محکمہ انرجی کے الیکٹرک سٹی مانیٹرنگ اینڈ ری کنسلیشن سیل کے ڈائریکٹر عزید اللہ میمن نے کہا کہ حیسکو کو غیرقانونی طور پر ادائیگی کرنے کا علم نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی رپورٹ نظر سے گزری ہے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کے جنرل فنانس رولز کے مطابق کسی بھی ادارے میں اگر نااہلی کی وجہ سے کوئی فرد یا نقصان ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری مذکورہ ادارے کے متعلقہ افسر پر عائد ہوگی‘ مذکوہ قوانین پر حکومت سندھ کے ادارے عملدرآمد کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے کرپشن اور اقرباپروی کا بازار گرم ہوگیا ہے۔ جنگ کو موصول ہونے والی دستاوزیزات کے مطابق حکومت سندھ کے محکمہ توانائی کے الیکٹرک سٹی مانیٹرنگ اینڈ ری کنسلیشن سیل کی 2014ءسے 2016ءتک آڈٹ رپورٹ میں بے ضابطگیوں کا حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ حیدرآباد ریجن کے 8 سے زائد اضلاع میں بجلی فراہم کرنے والی حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کو اداروں کو جاری کردہ بلوں کی مد میں ادائیگی کرتا ہے جس میں بھی مبینہ طور پر اضافی ادائیگی کی کہانی سنائی دی رہی ہے۔ اس ضمن میں جنگ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق محکمہ توانائی کے مذکورہ سیل کے ڈائریکٹر کی جانب سے ایک الیکٹر سٹی بل کی ادائیگی 2فراہم کنندہ کو کرنے کی نشاندہی ہوئی ہے اور اس ضمن میں قومی خزانے کو 3 ارب 29 کروڑ 41 لاکھ 49 ہزار روپے کی خطیر رقم کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ رپورٹ میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ 30261872 اور 30075745 نمبرز کے تحت چیک کے ذریعے 2015ءاور 2016ءمیں حیسکو کو ادائیگی کی گئی جو کہ حکومت سندھ کے ہی قوانین کے مطابق غیرقانونی ہے۔ ڈائریکٹر الیکٹرک سٹی مانیٹرنگ اینڈ ری کنسلیشن سیل ڈائریکٹر عزید اللہ میمن نے کہا کہ2 وینڈرز نمبر پر حیسکو حکام کو بلوں کی مد میں ادائیگی کا علم نہیں ہے اور ان کی نظر سے ایسی کوئی رپورٹ نہیں گزری‘ اس سلسلے میں ادارے کا آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہی واضح بتاسکتا ہے۔

تازہ ترین