• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نواز شریف نے احتساب عدالت کے سامنے اپنے بیان میں آج وہ کچھ کہہ دیا جس کی حقیقت کے بارے میں پہلے سے سب جانتے تھے لیکن سابق وزیر اعظم نے اس بارے میں پہلی بار اپنا منہ کھول کر ایک ایسی گواہی دے دی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور جس کی تحقیقات ہونا بہت ضروری ہے اب سوال اٹھائے جائیں گے کہ کیا میاں صاحب نے پورا سچ بولا، آدھا سچ بولا یا وہی کچھ بیان کیا جو اُن کی اپنے مفاد میں ہے؟ پورے سچ کو جاننے کے لیے اس معاملہ کی تحقیقات ہی واحد راستہ ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کو چلانے پر اسٹیبلشمنٹ کے کچھ کردار ناراض تھے جبکہ نواز شریف ایک عرصہ تک ڈٹے رہے کہ مشرف کا ٹرائل ہونا چاہیے جس پر اُن کے لیے مشکلات پیدا کی گئیں۔ اس بارے میں بہت کچھ لکھا گیا کہ کیسے 2014 کے دھرنوں کا ڈرامہ رچایا گیا اور اس کے پیچھے کون تھا اور اس کا مقصد کیا تھا لیکن آج اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف خود بول پڑے کہ اُن پر کیا گزری او ر کس طرح اُنہیں مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے پر نشانہ بنایا گیا۔ میاں صاحب نے کہا کہ اس مقدمہ کو جب اُنہوں نے چلانے کا فیصلہ کیا تو اُنہیں مشورہ دیا گیا کہ اس بھاری پتھر کو اُٹھانے کا ارادہ ترک کر دو اور دھمکایا گیا کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے سے سابق ڈکٹیٹر کا تو شاید کچھ نہ بگڑے لیکن اُن کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ دھرنے کے دنوں کا حوالہ دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کا پیغام انہیں ملا کہ یا تو وزارت عظمیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دو یا طویل رخصت پر چلے جائو۔ اگرچہ میاں نواز شریف نے متعلقہ سربراہ انٹیلی جنس ایجنسی کا نام نہیں لیا لیکن یہ نام بھی سب کو معلوم ہے ۔اگرچہ میاں صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ڈٹے رہے اورانہوں نے سر جھکا کر نوکری کرنے سے انکار کر دیا لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت انہی کی دور حکومت میں دی گئی۔ اگر سرجھکا کر نوکری نہیں کی تو مشاہد اللہ کو کیوں وزارت سے فارغ کیا گیا تھا جب کہ انہوں نے بھی اسی سازش کی بات کی جس کے بارے میں میاں صاحب نے آج لب کشائی کی۔ اگر سر جھکایا نہیں تو پرویز رشید اور طارق فاطمی کو کیوں نکالا؟ اگر سر جھکایا نہ ہوتا تو اُس انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کے خلاف میاں صاحب نے ایکشن لینے سے کیوں گریز کیا جس نے اُن کو استعفیٰ دینے یا رخصت پر جانے کا پیغام بھیجا؟ آج میاں صاحب افسوس کر رہے ہیں کہ عوام کی منتخب حکومت اور اس کے وزیر اعظم کی بس اتنی توقیر رہ گئی ہے کہ اُسکے براہ راست ماتحت ادارے کا ملازم، اپنے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے یا چھٹی پرچلے جانے کا پیغام بجھواتا ہے۔ اگر میاں صاحب نے بحیثیت وزیر اعظم اس معاملے کی انکوائری کا حکم دیا ہوتا اور متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی کی ہوتی تو آج کم از کم اُنہیں اس افسوس کا اظہار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی؟ لیکن اگر یہ کام میاں صاحب نہ کر سکے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے بھی اس معاملے پر مٹی ڈالے رکھیں۔ اس معاملے پر اگر حکومت نے کچھ نہیں کیا اور نواز شریف بھی ایکشن لینے میں ناکام رہے تو چیف جسٹس اور آرمی چیف کو چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ کرداروں پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات شفاف انداز میں کروائی جائیں اور سچ کو عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ اس قوم کو وہ کچھ دوبارہ نہ دیکھنا پڑے جس کاپاکستان کو ماضی میں بار بار سامنا رہا۔ ایک بات میاں صاحب نے بالکل درست کہی کہ آئین شکنی یا اقتدار پر قبضے یا سول حکومتوں کو بنانے بگاڑنے کے کھیل میں صرف ایک یا دو تین جرنیل شامل ہوتے ہیں لیکن اُس کی قیمت مسلح افواج کے پورے ادارے کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ میاں صاحب نے کہا اور یہی عمومی طور پر پاکستان کی عوام کی سوچ ہے کہ وہ اپنی مسلح افواج کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُنہیں احساس ہے کہ فوج کی کمزوری کا مطلب ملکی دفاع کی کمزوری ہے، قابل تحسین ہیں ہمارے وہ بہادر سپوت جو مادر وطن کے دفاع کے لئے ہر وقت سینہ سپر رہتے ہیں اور وقت آنے پر اس پاک سرزمین کے لیے اپنے خون کا نذرانہ تک پیش کر دیتے ہیں۔ میاں صاحب نے کہا کہ اس فوج کی اصل آبرو بہادر مائوں کے وہی فرزند ہیں جو اقتدار کی بارگاہوں کی بجائے سرحدی مورچوں میں بیٹھے اور حکمرانی کی لزتیں سمیٹنے کی بجائے ہمارے کل کے لیے اپنے آج قربان کر دیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ فوج بچاری تو چند جرنیلوں کے غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلوں کی وجہ سے بلاوجہ تنازعات کا شکار ہوتی ہے۔ فوج کی ساکھ اور اس کے احترام کے لیے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ 2014 کے دھرنوں کی سازش جیسے معاملات پر مٹی ڈالنے کی بجائے مکمل انکوائری کی جائے اور ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائےاگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ کھیل جو ماضی میں کھیلا گیا اور بار بار کھیلا گیا اُسے مستقبل میں پھر کھیلا جائے گا اور اس کا نقصان پاکستان، فوج اور عوام سب کا ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین