• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فن ِرفوگری ملبوسات کو پیوندلگانے کا نام تھا مگر رفوگری کی اس مہارت کا دائرہ کار جانے کب ہفوات تک وسیع ہوگیا ،اس حوالے سے کوئی تاریخی حوالہ تودستیاب نہیں البتہ مختلف بادشاہوںسے منسوب کئی قصے بہت مشہور ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ بادشاہوں کے درباروں میں دیگر مصاحبین اور مدح سرائوں کے علاوہ ایک ایسا شخص بھی ہر وقت موجود ہوا کرتا تھا جو بوقت ضرورت بادشاہ کی لایعنی باتوں کو بہترین انداز میں رفو کرتا رہتا ۔بادشاہوں کا زمانہ تو ہم نہیںدیکھ پائے البتہ 21سال قبل اپنے وقت کے سپر اسٹار گوندا کی فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ہے ’’نصیب‘‘ اس فلم میں معروف مزاحیہ اداکار عبدالقادر خان نے ماسٹر جی کے نام سے رفو گر کا کردار ادا کیا ۔جب گوندا نشے کے عالم میں بہک کر لمبی لمبی چھوڑنے لگتے تو ماسٹرجی ان کی باتوں کی کوئی معقول توجیح پیش کرکے رفو کرنے کی کوشش کرتے اور یوں بھرم رہ جاتا ۔ایک بار جب حسب روایت گوندا محفل سجا کر ناقابل یقین باتیں کررہا ہوتا ہے تو ماسٹر جی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں اور وہ سرگوشی کے انداز میں کہتا ہے ’’بھائی تھوڑا کم پھینک تو بہت پھینک رہا ہے ‘‘مگر اداکار گوندا ترنگ میں آکرکہتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، اب میں آپ کو بھوپال کے جنگلوں کا قصہ سناتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شکار کھیلنے گیا تو وہاں ایک آدم خور شیر سے سامنا ہو گیا ۔میں نے گولی داغ دی۔ شیر بھی بہت چالاک تھا ،وہ بھاگنے لگا ،اب شیر آگے آگے اور گولی پیچھے پیچھے ۔شیر دائیں مُڑ گیا ،گولی بھی دائیں مُڑ گئی ۔شیر بائیں مُڑ گیا تو گولی بھی بائیں مُڑ گئی۔شیرٹینشن میں آکر پیڑ پر چڑھ گیا تو گولی بھی چھلانگ لگا کر درخت پر چڑھ گئی ۔شیر ایک ڈال سے دوسری ڈال پر کود رہا ہے اور گولی بھی اس کے پیچھے پیچھے جا رہی ہے ۔شیر نے دیکھا کہ سامنے ایک کھڈا ہے تو وہ کھڈے میں کود گیا ،گولی بھی اس کے پیچھے کود گئی ،تب جا کر گولی لگی اور شیر مرا۔اس پر حاضرین توبہ توبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسی بنڈل بازی پہلے کبھی نہیں سنی۔ گوندا اپنی باتوں کی توثیق کروانے کے لئے ماسٹر جی کو مداخلت کرنے کے لئے کہتا ہے مگر ماسٹرجی یہ کہتے ہوئے اٹھ جاتے ہیں کہ ’’دیکھ بھائی !میں چھوٹا موٹا رفو کرنے والا ہوں ،تھوڑا سا کپڑاپھٹے تو سی لیتا ہوں مگر تم نے تو کپڑا پھاڑ کے چیتھڑا کر دیا ہے میرا باپ بھی نہیں سی سکتا اسے ‘‘
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اقتدار کے نشے میں بہک کر بہت سی محیر العقول باتیں کہہ جاتے ہیں جنہیں ان کی پارٹی کے رہنما یا چاہنے والے بے لوث کارکن ایک مُدت تک رفو کرتے رہ جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انہوں نے گزشتہ انتخابات سے قبل اپنے 90روزہ منصوبے میں جو کچھ کرنے کا وعدہ کیا اسے فی الحال ایک طرف رکھ دیں اور صرف اس طرف دھیان دیں کہ انہوں نے خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت بننے کے بعد کیا کہا ۔لاہور سے اسلام آباد پی ٹی آئی کے آزادی مارچ میں دس لاکھ موٹرسائیکلوں کا قصہ رہنے دیں اوراوٹ پٹانگ بیانات کو بھی نظر انداز کر دیں تو کم از کم تین ایسے دعوے ہیں جن پر بھلے چنگے سنجیدہ بندے کی بھی نہ چاہتے ہوئے ہنسی نکل جاتی ہے ۔پہلا دعویٰ تھا خیبر پختونخوا میں 350ڈیم بنانے کا جس کا اعلان عمران خان نے خود سوات میں ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا ۔دوسرا مضحکہ خیز دعویٰ ہے بلین ٹری سونامی کا جس پر مسلسل رفو گری کے باوجود بات بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی اور تیسرا دعویٰ یہ تھا کہ چین نے کرپشن پر اپنے 200وزیروں کو سزا سنا دی ۔اس بیان کے بعد تو چین میں بھی تھرتھلی مچ گئی کہ 21وزیر تو نظر آتے ہیں باقی 179نے کیا کوئی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے جو دکھائی نہیں دیتے۔مگر کپتان نے چند روز قبل100روزہ منصوبے کا اعلان کرکے تمام رفوگروںکو ہاتھ جوڑنے پر مجبور کردیا ہے اور ان سب کی ہمتیں جواب دے گئی ہیں۔ ایک رفوگر نے تو لاجواب ہو کر ٹی وی شو میں مخالف سیاسی جماعت کے رہنما کو تھپڑ جڑ دیا ۔عمران خان صاحب فرماتے ہیںکہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ ایک کروڑ نئی ملازمتیں دیں گے اور بے گھر افراد کو اپنی چھت مہیا کرنے کے60لاکھ گھر تعمیر کریں گے ۔ویسے خان صاحب اپنے جوبن پر ہوتے تو اس اعلان کیساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دیتے کہ ان60لاکھ گھروں میں سے ہر گھر بنی گالہ جتنے رقبے پر محیط ہو گا اور جن ایک کروڑ خوش نصیبوں کو نوکریاں دی جائیں گی ان میں سے ہر ایک کی تنخواہ وہی ہوگی جو اسد عمر بطور سی ای او اینگرو لیا کرتے تھے ۔یوں تو سوشل میڈیا پر اس دعوے کی بہت بھد اڑائی جا چکی اور یہ سوالات بھی اٹھائے جا چکے کہ ان خیالی منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے سرمایہ کہاں سے آئے گا ؟مگر ایک سیدھا اور سادہ سا حساب کتاب یہ ہے کہ اگر ایک شخص کی کم ازکم تنخواہ 20ہزار روپے ماہانہ ہو تو صرف تنخواہ کی مد میں ہر سال 2کھرب یعنی سالانہ 24کھرب روپے درکار ہونگے جبکہ پاکستان کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 8کھرب روپے ہے۔ مطلب یہ کہ اگر سارے ترقیاتی منصوبے لپیٹ دیئے جائیںتو پھر بھی سیلری بجٹ کے لئے 16کھرب روپے مزید درکار ہوں گے۔
اس طرح کے وعدے تو بالعموم وہ غیر سنجیدہ امیدوار کیا کرتے ہیں جنہیں خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ ان وعدوں کی تکمیل کی نوبت آئے گی ۔وہ یہ سوچ کر بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں کہ ناں نومن تیل ہوگا اور ناں رادھا ناچے گی ۔لیکن عمران خان تو ماشااللہ اب وزارت عظمیٰ کے اس قدر سنجیدہ امیدوار ہیں کہ 100روزہ منصوبے میں کہیں بھی اگر ہم الیکشن جیت گئے ،اگرہماری حکومت بنی ،اگر ہمیں اقتدار ملا جیسے الفاظ استعمال نہیں کئے گئے۔ عمران خان کا لب ولہجہ ایسا ہے جیسے وہ وزیراعظم نامزد ہو چکے ہیں اور بس علامتی نوعیت کے انتخابات کی صورت میں ایک رسمی کارروائی باقی ہے۔ یقیناً ان کی یہ خوش گمانی بے سبب نہ ہو گی مگر کیا انہوں نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کی صورت میں سب سیاسی جماعتیں اچھے بچوں کی طرح اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی رہیں گی ؟کیا ایسی صورت میں کسی کی طرف سے انتخابی حلقے کھولنے کا مطالبہ نہیں ہو گا ؟کیا کوئی جماعت ان کی حکومت کے خلاف دھرنا دینے کی ہمت نہیں کرے گی؟ کیا راوی چین ہی چین لکھتا رہے گا اور برسراقتدار آنے کے بعد بھی انہیں ’’لاڈلے‘‘ کی حیثیت حاصل رہے گی؟ کیا نیا پاکستان بننے کے بعد عدلیہ انتظامی معاملات میں مداخلت کرنا چھوڑ دے گی اور ان کے اقدامات پر کوئی سوموٹو نوٹس نہیں ہو گا ؟کیا تب کوئی فریادی وزیراعظم کو صادق وامین کی کسوٹی پر پرکھنے کے لئے عدالت عظمیٰ سے رجوع نہیں کرے گا ؟کیا وہ محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی سے بھی بہتر انتخاب ثابت ہوں گے اور سول ملٹری تعلقات میں کبھی کوئی دراڑنہیں آئے گی ؟اور سب سے بڑھ کر یہ سوال قابل ِ غور ہے کہ ابھی انہیں اِدھر اور اُدھر سے رفوگری کی جو سہولتیں دستیاب ہیں کیا یہ خدمات برسراقتدار آنے کے بعد بھی بھی بدستور میسر رہیں گی ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین